میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ضمنی انتخاب :اب کی بار ،ہار کی بوچھار

ضمنی انتخاب :اب کی بار ،ہار کی بوچھار

ویب ڈیسک
منگل, ۱۶ جولائی ۲۰۲۴

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

حالیہ ضمنی انتخاب کے نتائج دیکھ کروزیر اعظم نے آر ایس ایس نے اس دانشور کے پیچھے ای ڈی کو چھوڑ دیا ہوگا جس نے انہیں سمجھایا تھا لوگ ان کو بار بار دیکھ اور سن کر اوب چکے ہیں۔ اس لیے وہ تشہیر کے لیے جانے کی زحمت گوارہ نہ فرمائیں۔ نیز چونکہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں اس لیے اپنا آٹھ ہزار کروڈ کا اڑن کھٹولہ لے کر ماسکو چلے جائیں ۔ وہاں سے سستے داموں پر ایندھن لاکر اپنے رائے دہندگان کو مہنگے داموں پر فروخت کرکے احسان چکائیں ۔ ماسکو جانے کے بجائے اگر وہ ہری دوار جاتے تو ایودھیا جیسی ہزیمت اٹھانے سے بچ جاتے۔ ضمنی کے اندر 13 نشستوں میں سے 2 نشستیں اگر شرمناک ہار نہیں تو کیا ہے ؟ اترا کھنڈ اورہماچل پردیش جیسے بی جے پی کے گڑھ اور پارٹی کا صدرکی جنم بھومی میں بی جے پی شکست اور مغربی بنگال میں ہار ہوا کے رخ میں تبدیلی کا اظہار ہے ۔
ایوان ِ پارلیمان کے اندر اپنی طول طویل تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس کو پر جیوی یعنی دوسری جماعتوں کے سہارے انتخاب جیتنے والی پارٹی بتاتے ہوئے کہا تھا کہ جب اس کا سیدھا مقابلہ بی جے پی سے ہوتا ہے وہ ہار جاتی ہے ۔ حالیہ ضمنی انتخاب نے اس خیال کو جھٹلا دیا کیونکہ کئی مقامات پر کانگریس نے براہِ راست بی جے پی کو پٹخنی دی ہے ۔ انتخابی نتائج کا تفصیلی جائزہ بتاتا ہے کہ بی جے پی پر’ پر بھکشی’ یعنی دوسروں کو نگل جانے والی جماعت کا لقب بجا ہے کیونکہ اس نے اپنے مخالفین کو خوب ٹکٹ دئیے مگر دو کے سوا سب ہار گئے ۔ اس لیے آگے کامیابی کی لالچ میں کمل تھامنے والے احتیاط برتیں گے کیونکہ اب مودی جی جیت کی نہیں ہار کی گارنٹی بن چکے ہیں ۔ نر بھکشی یعنی آدم خوربی جے پی اڑیشہ کی بیجو جنتا دل کو وہ سالم نگل گئی اور شیوسینا کو بھی ڈکارنے کی کوشش کی مگر وہ اس کے گلے کی ایسی ہڈی بن گئی جسے نہ تو اگلا اور نہ نگلا جاسکتا ہے ۔ مہاراشٹر کے اندر سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والی کانگریس نے بیشتر مقامات پر بی جے پی کو ہراکر مودی جی کے پر جیوی والے نعرے کی ہوا نکال دی۔
کانگریس پر پر جیوی کا الزام تو مودی جی کی کرم بھومی اترپردیش میں بھی غلط ثابت ہوگیا جہاں سماجوادی پارٹی نے ڈبل بلڈوزر سرکار کو دوسرے مقام پر ڈھکیل دیا۔ یوپی میں یقیناً کانگریس کا اپنے سے بڑی سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد ہے مگر وہاں گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر یادو اور دیگر پسماندہ سماج کی دلتوں اور براہمنوں سے دوری ہے ۔ اس فاصلے کو کم کرکے ایس پی پر دلت اور برہمن سماج کا اعتماد بحال کرنے میں کانگریس نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ راہل گاندھی نے مودی سے بڑے فرق کے ساتھ بی جے پی امیدوار کے ہرا کر اور سمرتی ایرانی کو بھی کانگریسی کے ایک شرماسے شکست دلوادی۔ 10 جولائی کو 7 ریاستوں کی 13 اسمبلی سیٹوں کے لیے ضمنی انتخاب کے نتائج نے 3 دن بعد 13 جولائی کو بی جے پی کے تین تیرہ کردیئے ۔ پارٹی سطح پر دیکھیں تو کانگریس و ترنمول کانگریس کو 4-4، بی جے پی کو 2 اور عآپ و ڈی ایم کے کو 1-1 سیٹ پر کامیابی ملی ہے ۔ ایک اسمبلی سیٹ پر آزاد امیدوار بھی کامیاب رہا ۔
مذکورہ بالا 13 میں سے بی جے پی نے خود کمل کے نشان پرگیارہ مقامات پر الیکشن لڑا تھا اور دو جگہ کامیابی حاصل کی جبکہ کانگریس نے ٩ نشستوں پر انتخاب لڑ کر چار سیٹیں جیت لیں۔گزشتہ انتخاب کے مقابلے بی جے پی کو ایک سیٹ کا نقصان ہو جبکہ کانگریس کو دو سیٹوں کا فائدہ ہوا۔ این ڈی اے کی جے ڈی یو اور پی ایم کے دونوں سیٹیں ہار گئے ۔ اس لیے بی جے پی جہاز میں سوراخ کا حلیف جماعتوں کو پتہ چل گیا ہے ۔ اس لیے وہ موقع پاکر باہر کودنے میں عافیت سمجھیں گے ۔ اس کے بر عکس کانگریس کی حلیف آر جے ڈی نے ایک مقام پر کامیابی درج کرکے بتا دیا کہ کانگریس کے ہاتھ کا ساتھ مفید ہے ۔اس بار سب سے بڑا فائدہ ترنمول کانگریس کا ہوا جس نے بی جے پی سے ٣ سیٹ جیت کر ٤ پر کامیابی درج کرائی۔ بی ایس پی پہلے اتراکھنڈ کی ایک سیٹ پر قابض تھی مگر اس بار وہ بھی ہار گئی۔ کانگریس نے عام آدمی پارٹی اور ترنمول کی کامیابی کے خلاف الیکشن لڑنے کے باوجود ان کی کامیابی کو انڈیا محاذ کی فتح قرار دیا۔ انفرادی سطح پر کامیابی و ناکامی کا جائزہ مختلف دلچسپ پہلو اجاگر کرتا ہے ۔
اترا کھنڈ میں ڈبل انجن سرکار ہے جو عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے یکساں سیول کوڈ کا ڈرامہ کھیل رہی ہے ۔اتراکھنڈ کو چار دھام مندروں کے سبب دیو بھومی بھی کہا جاتا ہے ۔ وہاں پر واقع بدری ناتھ مندر میں 2019 انتخاب کے آخری دن مودی جی دھنی رمانے بیٹھ گئے تھے اور اس کی خوب تشہیر کرکے ووٹ بٹورنے کی گھناونی سازش کی تھی۔ 2022 میں کانگریس امیدوار راجندر سنگھ بھنڈاری نے ہری دوار سے بی جے پی امیدوار مہندر سنگھ بھٹ کو 2065 ووٹ سے شکست دی تھی ۔ اس بار بی جے پی نے کانگریس کے کامیاب امیدوار کو ٹکٹ تھما دیا اس کے باوجود کانگریس کے لکھپت سنگھ کو 28161 ووٹ ملے جبکہ راجندر سنگھ 22937پر آگئے ۔ اس طرح کانگریس ساتھ چھوڑنے والے بھٹ صاحب 5224 ووٹوں سے شکست کھا گئے ۔ یہ ہار ایودھیا کی ہار سے کم نہیں ہے ۔
اتراکھنڈ میں ہی منگلور اسمبلی سیٹ پر بھی کانگریس نے ہی کامیابی کا پرچم لہرایا ہے ۔ یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے اس لیے یہاں پر بی جے پی کی دال کبھی نہیں گلی ۔ پچھلی بار ہارنے والے کانگریسی امیدوار قاضی محمد نظام الدین نے 31727 ووٹ حاصل کرکے بی جے پی امیدوار کرتار سنگھ بھڈانا کو 31305 ووٹ پانے کے باوجود 422 ووٹوں کے فرق سے ہرادیا حالانکہ تیسرے مقام پر رہنے والے بی ایس پی امیدوار عبیدالرحمن مونٹی نے کانگریس کے 19559 ووٹ کاٹے مگر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ا تراکھنڈ میں الیکشن سے قبل شدید بارشوں کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ کے بعد کئی اضلاع کا دیگر مقامات سے رابطہ منقطع ہوگیا اور اتراکھنڈ کے ڈیموں سے چھوڑے جانے والے لاکھوں کیوسک پانی نے اتر پردیش کے ترائی اور میدانی علاقوں میں سیلاب کی صورت و تباہی مچائی مگر انتخابی نتائج کے بعد بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی کیونکہ اتراکھنڈ میں اس کو سپڑا صاف ہونے کی بالکل امید نہیں تھی۔
قومی انتخاب میں ہماچل پردیش سے بی جے پی نے زبردست کامیابی درج کرائی تھی مگر وہاں بھی دیہرا سے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو کی اہلیہ کملیش ٹھاکر نے 32737 ووٹ حاصل کیے اور اس طرح 25 سال بعد کانگریس نے اس حلقۂ انتخاب میں کامیابی کا پرچم لہرایا ہے ۔کملیش نے دو مرتبہ جیت حاصل کرنے والے بی جے پی کے ہوشیار سنگھ کو یہاں 9399 ووٹوں سے شکست دے کر ان کی ہوشیاری نکال دی ۔پچھلی بار ہوشیار سنگھ آزاد امیدوار تھے اس بار انہوں نے کمل تھام کر حماقت کرنے کی قیمت چکائی ۔ اسی صوبے میں نالہ گڑھ سیٹ پر
بھی کانگریس امیدوار ہردیپ سنگھ باوا نے 34608 ووٹ حاصل کر کے بی جے پی امیدوارکے ایل ٹھاکر کو 8990 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ ٹھاکر صاحب بھی پہلے آزاد تھے توجیت جاتے تھے اب کی بار بی جے پی کی بیڑی پیروں میں ڈالی تو وہ گلے کا طوق بن گئی۔ ہمیر پور (ہماچل پردیش) کے آشیش شرما نے اس بار بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر کانگریس امیدوار ڈاکٹر پشپندر ورما کو محض 1571 ووٹوں کے فرق سے ہرایا جبکہ پچھلی بار جب وہ آزاد تھے تو 12ہزار سے زیادہ ووٹ کے فرق سے جیتے تھے ۔ اب اگلی بار وہ کمل تھامنے سے قبل دس بار سوچیں گے ۔
جالندھر مغرب میں بی جے پی نے عآپ کے کامیاب امیدوار شیتل انگورل کو ٹکٹ دے دیا ۔ وہ پچھلی بار کانگریس کے شیتل سنگھ سے صرف 4253ووٹ سے جیتے تھے لیکن کمل تھامنے کے بعد عام آدمی پارٹی کے موہندر بھگت سے 37325 ووٹ ہار گئے ۔ اس طرح ان کی غداری انہیں خوب مہنگی پڑی ۔ امرواڑا (مدھیہ پردیش)میں بی جے پی نے کانگریس کے کملیش پرتاپ شاہ کو کمل تھمایا ۔ وہ پچھلی بار پنجے کے نشان پر 25058ووٹ سے جیتے تھے لیکن اس بار وہ فرق گھٹ کر 3027 پر تو آیا مگر وہ کامیاب ہوگئے ۔ بہار کے روپولی اسمبلی حلقہ میں پچھلی بار ایل جے پی کے ٹکٹ پر لڑنے والے شنکر سنگھ نے اس بار آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا اور 8246 ووٹ سے بی جے پی کی حلیف جنتا دل یو امیدوار کالادھر پرساد منڈل کو شکست دے دی۔ مغربی بنگال میں کلین سویپ کرتے ہوئے ترنمول نے بی جے پی سے تین سیٹیں چھین لیں اور تمل ناڈو کی واحد سیٹ بھی ڈی ایم کے نے بی جے پی کی حلیف پی ایم کے سے جیت لی۔ ان نتائج نے بی جے پی کے پر جیوی والے الزام کو اسی پر پلٹ کر اُسے بھکشی ثابت کردیا نیز دوسروں کو ‘بال بدھی ‘(بچکانہ) کا طعنہ دینے والوں کی ‘بیل بدھی'(خر کھوپڑی) بھی کھل کر سامنے آگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں