میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک افغان سرحدی معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے پر اتفاق

پاک افغان سرحدی معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے پر اتفاق

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۶ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان اور افغانستان کے فوجی حکام سرحدی علاقوں کے معاملے کو عید الفطر کے بعد بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر متفق ہوگئے۔ان مذاکرات کا فیصلہ ضلع اسپن بولدک کے افغان سرحدی شہر ویش مندی میں ہونے والی فلیگ میٹنگ میں کیا گیا۔تین گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اس اجلاس میں پاکستان کی طرف سے کمانڈر شمالی بریگیڈیئر ندیم سہیل، فرنٹیئر کورپس (ایف سی) کے کرنل عثمان جبکہ افغان فوج سے کرنل محمد شریف اور کرنل محمد انور نے شرکت کی۔پیر12 جون کی شام ہونے والی یہ ملاقات افغانستان کے اس ضلع میں ہونے والی پہلی ملاقات تھی۔ذرائع کے مطابق ملاقات میں پاکستان کے سرحدی علاقوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں خاردار تاریں لگانے کے معاملے پر بھی بات چیت کی گئی۔ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ دونوں ملک معاملے کو حل کرنے پر اتفاق کرچکے ہیں، بالخصوص چمن بارڈر پر فوجی جھڑپوں کے بعد اس معاملے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔رمضان کے بعد طے شدہ اگلی ملاقات میں اس معاملے کو ایک ہی بار میں حل کرلیا جائے گا۔ملاقات میں افغان حکام کی جانب سے پاکستانی علاقوں میں خاردار جھاڑیوں پر اٹھائے جانے والے اعتراضات پر پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو اسلام آباد اور کابل کی سطح پر حل کیا جائے گا۔دوسری جانب پاکستانی سرحدی انتظامیہ نے باب دوستی پر افغان سرحدی حکام کے اعزاز میں افطار پارٹی دی جہاں انہیں پھول اور مٹھائیاں بھی پیش کی گئیں۔
اکستان اور افغانستان کے فوجی حکام کے درمیان سرحدی علاقوں کامعاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق بلاشبہ ایک خوش آئند بات ہے ، اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف سے افغان صدر کی ملاقات میں چار ملکی رابطہ گروپ کو فعال کرنے پر اتفاق کیا جاچکاہے، اس ملاقات کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گرد وں کو پاکستان اور افغانستان کیلئے مشترکہ خطرہ قراردیاتھا اوریہ واضح کردیاتھا کہ، مذاکرات ہی افغان مسئلے کا بہترین حل ہیں، اس موقع پر دونوں رہنمائوں نے چار فریقی گروپ کے ذریعے امن و مفاہمت کی کوششوں ، دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کیلئے مشاورت سے لائحہ عمل طے کرنے پر اتفاق اورمفاہمت و مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے حل کی ضرورت پر زور دیاجبکہ اس دوران وزیراعظم نوازشریف نے کابل میں دہشت گردی کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ہم افغانستان میں امن واستحکام کیلئے پرعزم ہیں ‘دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان میں قریبی تعاون ناگزیر ہے۔ دہشت گرد گروپوں کیخلاف کارروائی کیلئے مشاورت سے لائحہ عمل طے کرنے پر اتفاق رائے کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات کی بحالی کیلئے نیک فال قرار دیا جاسکتاہے۔جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے تو اس حوالے سے نواز شریفیہ بات بار بار واضح کرچکے ہیںکہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے لئے پرعزم ہے، افغانستان میں امن و استحکام اور اقتصادی ترقی کیلئے لاکھوں افغان بھائیوں کی پچھلے 37 سال سے میزبانی پاکستان کی ان کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس حقیقت کو پاکستان کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے برادر پڑوسی ملک افغانستان کا ہمیشہ خیرخواہ رہا ہے اوراس تلخ حقیقت کے باوجود کہ مسلم برادرہڈ کی بنیاد پر بھی افغانستان کی جانب سے کبھی پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا اور اس نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی اس کے ساتھ خدا واسطے کا بیر شروع کر رکھا ہے۔ افغانستان کے پاکستان کے خلاف رویے کے پیچھے بھارتی ذہنیت اور سازشیں کار فرما ہیں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ سازگار تعلقات استوار کرنے کی ہی کوشش کی ہے جبکہ تین دہائیاں قبل پاکستان پر پڑنے والا لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ آج تک اس نے مسلم برادرہڈ کے جذبہ کی بنیاد پر ہی اٹھا رکھا ہے۔ امریکی نائن الیون کے بعد جب امریکی نیٹو فورسز نے افغان سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ شروع کی تو پاکستان نے افغانستان میں امن و امان کی بحالی کیلئے ہر علاقائی اور عالمی فورم پر آواز اٹھائی اور افغانستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس کے برعکس افغانستان کی سابقہ کرزئی حکومت کی جانب سے بھی پاکستان کے ساتھ ہمیشہ دشمن ملک جیسا رویہ اختیار کیا گیا اور بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان سے امریکی لب و لہجے میں ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے کئے جاتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ کرزئی نیٹو افواج کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کیلئے بھی اکساتے رہے جبکہ انکے دور میں پاک افغان سرحد پر افغانستان کے اندر سے سیکڑوں کی تعداد میں عسکریت پسند پاکستان میں داخل ہو کر اسکی چیک پوسٹوں اور ملحقہ سول آبادیوں پر حملہ آور ہوتے رہے۔
اشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کے ساتھ دوستانہ سازگار مراسم استوار ہونے کی توقع پیدا ہوئی تھی جس کیلئے اشرف غنی کے اسلام آباد اور جی ایچ کیو کے دورے سے حوصلہ افزافضا پیدا ہوتی نظر آئی مگر اشرف غنی بھارت کے دورے پر گئے تو انہوں نے یکایک پلٹا کھاتے ہوئے پاکستان کے بارے میں اپنے پیشرو کرزئی جیسا لب و لہجہ اختیار کرلیا جہاں پاکستان دشمن مودی سرکار نے انہیں پاکستان اور گوادر پورٹ کیخلاف مختلف ترغیبات دیں اور انکے ساتھ اقتصادی دفاعی تعاون کے متعدد معاہدے کرکے کرزئی ہی کی طرح انہیں بھی اپنے کیمپ میں شامل کرلیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ کابل انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کیلئے کبھی کلمہ¿ خیر ادا نہیں کیا گیا بلکہ ڈیورنڈ لائن پر بلاوجہ کے تنازعات کھڑے کرکے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کا آغاز کردیا گیا جو آج انتہائدرجے کو پہنچ چکی ہے۔ کرزئی اور اشرف غنی کو افغانستان میں اگر اقتدار ملا تو اس میں پاکستان کا کردار اہم ترین ہے۔ پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکا افغانستان سے طالبا ن حکومت کا خاتمہ نہیں کر سکتا تھا، طالبان حکومت رہتی تو کرزئی اور اشرف غنی کے ٹکڑوں پر پل رہے ہوتے۔
افغانستان میں بدامنی کی بنیادی وجہ امریکا کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ ہے جس میں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ اس پر طالبان نے گوریلا وار شروع کر دی۔ گو طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا مگر انہوں نے اپنے ملک میں غیر ملکی افواج کو ناک چنے چبوا دیئے۔ امریکی کٹھ پتلی حکومتوں کوبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ افغانستان کی شورش میں کئی دیگر عناصر بھی در آئے ان میں آج داعش سب سے اہم ہے۔ افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول کئی علاقے ہیں۔ داعش کے مقبوضات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جبکہ حکومتی رٹ کا بل تک محدود ہوتی نظر آتی ہے۔ افغان انتظامیہ تو طالبان کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہی ہے۔ داعش تو اول و آخر خونخوار تنظیم ہے۔ اس کے مذموم نظریات ہیں جس کا وہ پوری دنیا میں نفاذ چاہتی ہے جبکہ مسلمانوں کے مقدس ترین مقاما ت بھی اس کے نشانے پر ہیں۔ مساجد مزاروں امام بارگاہوں پر حملے کئے جاتے ہیں یہ بدبخت لوگ تو مسجد نبوی تک بھی پہنچ گئے۔ طالبان اپنی آزادی اور کھوئے ہوئے اقتدار کیلئے لڑ رہے ہیں۔ داعش کا ایجنڈا کچھ اور ہے مگر دونوں کی مسلح کارروائیوں سے افغانستان کا امن تباہ ہو چکا ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ کبھی طالبان اور داعش میں اتحاد تھا مگر داعش کے مقاصد واضح ہونے پر اب یہ دونوں بھی آپس میںبرسر پیکار ہیں۔
افغانستان میں شورش کو بڑھاوا دینے میں بھارت کا ہاتھ بھی ہے جس کااعتراف طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ باقاعدہ ٹی وی پر آکر کرچکے ہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنا بھارت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے۔ وہ افغان سر زمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی اور مداخلت کیلئے استعمال کرتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین اختلافات اور کشیدگی میں اضافے کیلئے وہ افغانستان میں حملے اور دھماکے کرا کے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا اور اس کے زیر افغان انتظامیہ واویلا شروع کر دیتی ہے۔
ستمبر 2015 میں اشرف غنی پاکستان آئے تو ان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بیانات حوصلہ افزا تھے مگر افغان انٹیلی جنس چیف رحمت اللہ نبیل نے مبینہ طور پر بھارت کے ایماپر اشرف غنی پر شدید تنقید کی۔ یہی رحمت نبیل تھا جس نے اس دورے سے قبل پاکستان میں جاری افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات ملا عمر کی موت کی خبر لیک کر کے سبوتاژکئے تھے۔ اشرف غنی پاکستان کے دورے کے بعد بھارت گئے تو کچھ رحمت اللہ نبیل کے بیانات کا پریشر تھا اور باقی کام بھارت نے انہیں شیشے میں اتار کے کیا، اس دن سے اشرف غنی پاکستان کے خلاف بھارتی زبان میں زہر اگل رہے ہیں۔
افغانستان کے امن سے خطے کا امن وابستہ ہے۔ افغان انتظامیہ ملک میں اپنے دشمنوں کی تعداد کم کرے۔ اس کا بہترین طریقہ طالبان سے مذاکرات ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے سہولت فراہم کر چکا ہے اور امریکا سمیت پوری دنیا یہ تسلیم کرتیہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کیلئے بہتر کردار ادا کر سکتا ہے۔ اب وزیر اعظم نواز شریف اور صدر اشرف غنی کی ملاقات میںدونوں ملکوں کے معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے پریہ اتفاق رائیصرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں ہونا چاہئیے افغانستان کو امن کی اشد ضرورت ہے۔ اورپاکستان اس حوالے سے فعال کردار ادا کرسکتاہے امید کی جاتی ہے کہ افغان رہنما اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دوست اور دشمن کو پہچاننے کی کوشش کریں گے اور پاکستان کے خلاف الزام تراشی کے بجائے حقیقی معنوں میں دوستی اور تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کی کوشش کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں