بھارت میں پاکستانی ہندوبرادی کی حالتِ زار؟
شیئر کریں
سندھ میں بسنے والی اقلیتی ہندو آبادی کو صوبہ بھرکی اکثریتی مسلمان آباد ی کی جانب سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک وقتاً فوقتاً بہت سے انتظامی مسائل ، سیاسی تنازعات اور معاشرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے ۔ یقینا اِن میں سے بے شمار مسائل تو واقعی حقیقی اور ایسے سنگین نوعیت کے تھے جو سندھ حکومت کی فوری توجہ اور حل کے متقاضی تھے لیکن سندھ میں بننے والی کسی بھی جمہوری یا غیر جمہوری حکومت نے اُنہیں حل کرنے کی کبھی کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی۔ مگر دوسری جانب اقلیتی ہندو براداری کے بعض حلقوں کی جانب سے اکثریتی مسلمان آبادی پر عائد کیے جانے بہت سے الزامات بالکل لغو اور افسانہ تراشی کے ذیل میں بھی آتے تھے ۔ مثال کے طور پر چند برس قبل پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ پروپیگنڈا مہم چلائی گئی تھی کہ چونکہ صوبہ سندھ میں اقلیتی ہندو آباد ی کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے ، اس لیے ہندو برادری کواپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے تحفظ کے لیے بھارت چلے جانا چاہیے۔بدقسمتی سے بعض حلقوں کی جانب سے یہ زہریلا پروپیگنڈا مہم اس قدر منظم اور بھرپور انداز میں چلائی گئی تھی کہ کئی ہندو خاندان اِس مہم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور وہ واقعی اپنے گھروالوں کے ہمراہ سنہرے مستقبل کی تلاش میں سندھ سے، بھارت ہجرت کرگئے۔ کیا پاکستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندو گھرانوں کے دیرینہ مسائل حل ہوگئے اوراُنہوں نے بھارت میں اپنے تمام خوابوں کی من چاہی تعبیر حاصل کرلی تھی ؟۔اس طرح کے بے شمار سوالات ایسے تھے جن کے تسلی بخش جوابات، ایک مدت سے پاکستانیوں کودرکار تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں ہفتے معروف بھارتی انگریزی اخبار ’’دی ہندو‘‘ میں شائع ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سے بھارت کی شہریت حاصل کرنے کے مقصد سے ریاست راجستھان میں آباد ہونے والے تقریباً 800 سے زائدپاکستانی ہندو 2021 میں واپس پاکستان چلے گئے ہیں اور مزید ایسے ہزاروں پاکستانی ہندو خاندان، بھی چور راستوں کی تلاش میں ہیں ،جنہیں وہ اختیار کرکے چھپ چھپا کر واپس پاکستان پہنچ سکیں۔واضح رہے کہ بھارت میں پاکستانی ہندو تارکینِ وطن کے لیے کام کرنے والی تنظیم فرنٹیئر لوک سنگٹھن (ایس ایل ایس) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اپنی مرضی سے پاکستانی شہریت ترک کرنے والے افرادنے اپنی بھارتی شہریت کی درخواست کے عمل میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے بعد ان میں سے بہت سے مہاجر ہندو پاکستان واپس چلے گئے۔ جبکہ راجستھان کے محکمہ داخلہ کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق راجستھان میں پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کی تعداد 22146 ہے۔ صرف ایک جودھپور شہر میں پاکستان سے آئے ہوئے 8043 ہندو افراد بھارت کی شہریت کی درخواست کے اہل ہیں لیکن اُنہیں بھارتی شہریت نہیں فراہم کی جارہی ہے ۔
یاد رہے کہ 2015 میں بھارت کے وزارت داخلہ نے شہریت کے قوانین میں تبدیلیاں کیں اور دسمبر 2014 یا اس سے پہلے مبینہ مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے بھارت آنے والے غیر ملکی تارکین وطن کے امیگریشن کو قانونی شکل دے دی تھی اور ایسے تمام لوگوں کو جو بھارت کے پڑوسی ممالک کی شہریت ترک کر کے بھارت کی شہریت اختیار کرنا چاہتے ہوں کو پاسپورٹ ایکٹ اور فارنرز ایکٹ کی دفعات سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔نیز2011 میں کانگریس کی قیادت میں اُتر پردیش کی حکومت نے پاکستان میں مبینہ مذہبی امتیازی رویے کی وجہ سے بھارت آنے والے سینکڑوں ہندوؤں اور سکھوں کو لانگ ٹرم ویزہ یا ایل ٹی وی دینے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ اسی قانونی سہولت کا فائدہ اُٹھا کر پاکستان سے تیرتھ یاترا کے ویزے پر جانے والے بہت سے ہندو خاندانوں نے اپنے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھارت میں مقیم ہوگئے تھے کہ اُنہیں بھارت کی شہریت مل جائے گی۔بھارتی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے 2014 کے درمیان 14,726 پاکستانی ہندوؤں کو لانگ ٹرم ویزہ دیا گیاتھا۔واضح رہے کہ بھارت میں پناہ کے متلاشی افراد کو یا تو لانگ ٹرم ویزہ یا ٹریولر ویزہ جاری کیے جاتے ہیں ۔لانگ ٹرم ویزہ پانچ سال کے لیے دیئے جاتے ہیں اور یہ شہریت حاصل کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتاہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستانی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا سیاسی لالچ اور قانونی ترغیب دینے کے بعد بھی اُنہیں بھارتی شہریت مہیا کرنے میں انتظامی لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے اور بھارت بھر میں پاکستانی شہریت ترک کرکے جانے والے افراد کو ابھی تک ’’پاکستانی ‘‘ کہہ کر ہی پکارا جاتاہے۔ دراصل پاکستان کی اقلیتی آباد ی کو بھارتی سرکار کی جانب سے اِس لیے پاکستانی شہریت ترک کرنے کی ترغیب دی گئی تھی کہ مودی سرکار دنیا بھر میں پاکستان کو اقلیتوں کے لیے ایک خطرناک ملک ثابت کرناچاہتی تھی اور جب مودی سرکار کا مقصد پورا ہوگیا تو انہوں نے صوبہ سندھ سے ہجرت کرکے بھارت جانے والے ہندوؤں کو بھارتی شہریت دینے سے انکار کردیا۔ یعنی بھارت کا مقصد سندھ میں ہزار سال سے بسنے والے ہندو خاندانوں کوبھارتی شہریت دینا کاکبھی بھی نہیں تھابلکہ مودی سرکار تو انہیں پاکستان کی ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈا کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتی تھی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے دھکے کھارہے ہیں اور کیمپوں میں اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔
بدقسمی کی بات تو یہ ہے کہ اَب تو انتہاپسند مودی سرکار نے پاکستان سے نقل مکانی کرکے بھارت جانے والوں افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر 9 اگست 2020 کو بھارت کی ریاست راجستھان کے ضلع جودھ پور میں 11 پاکستانی ہندو پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے تھے۔ جن کے ہلاکت کا تاحال سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔یہ متاثرہ ہندو خاندان پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے شہداد پور کا رہنے والاتھا۔ اس خاندان نے 2015 میں بھارت کی جانب ہجرت کی تھی۔خیال رہے کہ بھارت کی پولیس نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ یہ واقعہ اجتماعی خودکشی کا ہو سکتا ہے۔ تاہم سندھ میں بسنے والی اقلیتی ہندو برادری نے الزام لگایا تھا کہ بھارت میں ہلاک ہونے والے گیارہ افراد کو بھارتی خفیہ اداروں نے زہر دے کر قتل کیا ہے جبکہ ہلاک ہونے والے افراد میں شامل ایک شخص کی بیٹی شری متی مکھی نے بھی الزام لگایا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے ان کے خاندان کو پاکستان مخالف ایجنٹ بننے کا کہا تھا لیکن انکار پر انہیں قتل کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔