میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیلی مظالم اور امتِ مسلمہ

اسرائیلی مظالم اور امتِ مسلمہ

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۶ مئی ۲۰۲۱

شیئر کریں

اُمتِ مسلمہ کے لیے عید الفطرکا تہواربہت اہم ہے یہ اہلِ اسلام کے لیے خوشیوں سے بھرپور انعام و اکرام کا دن ہے لیکن امسال یہ دن فلسطینیوں نے لاشیں و زخمی اُٹھاتے گزارہ ستائیس رمضان کو نمازِ تراویح کے دوران اسرائیل نے مسجدِ اقصیٰ پرحملہ کیااور آگ لگا دی جس کے دوران نہتے نمازی شہید وزخمی ہوئے فلسطینیوں نے بندوقوں و بموں کا جواب پتھروں سے دیکر غم وغصے اور بے بسی کا اظہار کیا مگر ظالم و دہشت گرد اسرائیلی فوجیوں نے خواتین وبچوں کوبھی نہ بخشااور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اسرائیلی وزیرِاعظم نین یاہونے حملے روکنے کی عالمی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے فوج کو کاروائیاں مزید تیزکرنے کا حکم دیا ہے تمام عالمی تنظیمیں یو این او،اوآئی سی اور عرب لیگ اسرائیلی دہشت گردی کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہیں کئی دہائیوں سے فلسطینی و کشمیر ی مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے مگر کوئی عالمی اِدارہ مداخلت کی ہمت نہیں کر رہا اب بھی عرب لیگ نے عالمی عدالتِ انصاف سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں نوے لاکھ کی آبادی پر مشتمل اسرائیل کسی کی سننے پر آمادہ نہیں بڑی وجہ تو امریکی سرپرستی ہے جوہمیشہ سلامتی کونسل کو فیصلہ کن اقدام سے باز رکھتا ہے اب بھی سلامتی کونسل کا اجلاس موخرکرادیا ہے جس کی وجہ امتِ مسلمہ کا نفاق ہے ۔
فلسطینییوں کے پاس لڑائی کے وسائل یعنی ہتھیار اور تجربہ کار فوج نہیںبس جذبہ ایمانی سے برسرِ پیکار ہیں وطن اور قبلہ اول کے دفاع کا فریضہ حماس دیسی ساختہ راکٹ حملوں سے ادا کرنے میں مصروف ہے لیکن جدید ہتھیاروں کے مقابلے میں یہ راکٹ حملے کوئی معنی نہیں رکھتے محض جذبات کے اظہاراور ایمانی جذبہ کہہ سکتے ہیں یہ جذبہ ہی ہے کہ حملے کے دوران گیارہ سالہ ننھا حمزہ ہنستے مسکراتے موت گلے لگا لیتا ہے اور یہ مسکراہٹ کفن میں بھی قائم رہتی ہے مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کے خلاف شیخ جراح میں جاری مظاہرے پر اسرائیلی فوجیوں کا گھڑ سوار دستہ حملہ کرتا ہے جس سے بھگدڑ مچ جاتی ہے ایک بچے کو فوجی پکڑکر بندوقوں کے بٹ مارنے لگتے ہیں یہ ظلم دیکھ کرایک لڑکی مریم عفیفی بچے کو بچانے آگے بڑھتی ہے فوجی اُس کا حجاب نوچ کر زمین پر گرادیتے اور عین شاہراہ پر مارنے اورگھسیٹنے لگتے ہیں نہتی لڑکی کو بکتر بند گاڑی میںلے جایا جاتا ہے جب فوجی اُسے ہتھکڑی پہناتا ہے تو وہ مسلح فوجیوں کی بزدلی پرلڑکی مسکر ادیتی ہے ۔
اسرائیل نے عالمی قوتوں کے اشارے پر ہی مسلمانوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے کیونکہ استعماری طاقتیں مسلمانوں کے جذبہ جہاد بالخصوص فلسطینیوں کی نئی نسل سے خوفزدہ ہیں وجہ کئی دہائیوں سے وسائل نہ ہونے کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں مگر شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں گولیوں کا جواب پتھروں سے دیکر بھی مطمئن ہیں ترکی ،ایران،پاکستان اورسعودی عرب جیسے طاقتور فوج رکھنے والے ممالک بھی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں بیان دینے اور تشویش کا ظہار کرنے تک محدود ہیں مصر،نائیجریا ،ملائیشیا ،انڈونیشیا جو بڑی عسکری طاقتیں ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے حالانکہ تمام مسلم ممالک متحد ہو جائیں تو کسی ملک کی گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی ہمت نہ ہواور نہ ہی کسی کو مسلم علاقے پر چڑھائی کی جرات ہو سکتی ہے کیونکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی منڈی نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں مگر آج صورتحال اتنی خراب ہے کہ سوشل میڈیا تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز کر دیتا ہے ٹوئٹر ،انسٹاگرام اور فیس بک پر فلسطینیوں کے اکائونٹس ڈیلیٹ اور مواد مٹادیا جاتا ہے احتجاج پر تکنیکی وائرس کو زمہ ٹھہرادیا جاتا ہے سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ کیسا سمجھداروائرس ہے جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مسلمانوں کے حق میں پوسٹس دیکھ کر ہی متحرک ہوتا ہے اور اسرائیل کی بات ہو تو یہ وائرس کیوں ذیادہ ہی فعال ہو جاتا ہے؟۔
صہیونی قیادت دنیا بھر سے یہودی لاکراسرائیل میں آبادکر رہی ہے کیونکہ عربوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے قومی سلامتی کوغیر محفوظ سمجھتی ہے حالانکہ کسی عرب ملک میں حملے کی سکت نہیں ویسے بھی ہراسرائیلی مرد اور عورت فو جی تربیت لازمی حاصل کرتے ہیں نوے لاکھ کی آبادی میں سے نصف سے زائد نفوس کسی نہ کسی حوالے سے فوج سے منسلک ہیںیہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں پر فوج کے ساتھ عام یہودی بھی حملے کرتے اوراُنھیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں فوج ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کو آباد کرنے کے لیے فلسطینی علاقے خالی کرارہی ہے حالانکہ اسرائیل کے پاس وسیع بے آباد علاقہ ہے جہاں بے گھر یہودیوں کو بسانابہت آسان ہے لیکن صہیونی قیادت کی ضد ہے کہ فلسطینیوں کو نکال کرہی بسانا ہے اسی وجہ سے خطے میں ایک بار پھر جنگ کا امکان بڑھ گیا ہے مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کی وجہ اورنحیف ونزار فلسطینی مسلمانوں پر تشدد روکنے میں عرب ممالک بھی متفق نہیں متحدہ عرب امارات نے تو سفارتی تعلقات استوار کرتے ہوئے بغیر ویزہ آمدورفت کا معاہدہ کر لیا ہے جو اسرائیلی حوصلے کو مہمیز دیتا ہے ۔
یورشلم میںیہودی آباد کاری ہر اسرائیلی حکومت کی اولیں ترجیح رہی ہے موجودہ صہیونی قیادت کی مشرقی یورشلم کے علاقے جراح پر نظر ہے یہ علاقہ صلاح الدین ایوبی کے طبیب شیخ حسام الدین الجراح کے نام سے منسوب ہے جو صلاح الدین ایوبی کی طرف سے یورشلم فتح کر نے کے بعد قبلہ اول مسجدِ اقصیٰ کی محبت میں یہیں آباد ہوگئے اُن کے مقبرے کی مناسبت سے یہ علاقہ شیخ جراح کہلاتا ہے جب 1948کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی یورشلم پر قبضہ کرلیا تو اکثر مسلمان اردن کے زیرِ اثر وانتظام مشرقی یورشلم جاکر آباد ہو گئے لیکن 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں اُردن کے ہاتھ سے یہ علاقہ جاتا رہااب اسرائیل کی کوشش ہے کہ جلد ازجلد یورشلم میں صہیونی آبادی بڑھا کر قبضہ مستحکم کرلیا جائے تاکہ کوئی اسے متنازع علاقہ کہہ ہی نہ سکے لیکن بے سروسامانی کے باوجود فلسطینی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیںستائیس رمضان سے یہ علاقہ مسلسل میدانِ جنگ ہے مسجدِ اقصیٰ پر نمازِ تراویح کے دوران اسرائیل نے جس جارحیت کا ارتکاب کیاوہ اب کھلی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جسے روکنا مسلم امہ کی زمہ داری ہے لیکن یہ ذمہ داری عملی اقدامات کی بجائے مذمتی بیان جاری کرنے یا تشویش ظاہر کرنے تک محدود ہے اسی بنا پر سولہ مئی کو عرب لیگ اور سلامتی کو نسل کے اجلاسوں کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان کم ہے ۔
اٹلی جیسے ممالک تازہ جنگی کاروائی کی مذمت کرنے کی بجائے اسرائیل کا دفاعی حق قرار دیتے ہیںحالانکہ لڑاکا طیاروں ،ٹنیکوں ،میزائلوں اور بندوقوںکا مقابلہ پتھرائو سے ممکن نہیں مگر سوال یہ ہے کہ فلسطینیوں کی بجائے اگر سو ڈیڑھ سو امریکی یا یہودی مارے جاتے تب بھی عالمی طاقتوں کا ایسا ہی رویہ ہوتا ہر گزنہیںبلکہ اگر ایسا ہوتا تواب تک دہشت گردی کہہ کرعالمی اِدارے متحرک ہوچکے ہوتے اور تادیبی کاروائی کے لیے اتحاد بن چکا ہوتا غزہ میںکیونکہ مرنے والے مسلمان ہیں اور شیخ جراح میں مسلم املاک تباہ کی جارہی ہیںاسی لیے انسانی حقوق اور و مزہبی آزادی کی دہائی دینے والے خاموش ہیں اصل میں دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف فضا بن چکی ہے اور طاقتور کو کھلی چھٹی دے کر کمزورمسلم ممالک کو نشانہ بنایا جارہا ہے دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن آزادی اظہارکے دعویدار فرانس نے تو اپنے شہریوں پر پابندی لگا کر اِس حق سے بھی محروم کر دیا ہے افغانستان ،عراق اور لیبیا کی تباہی مسلم ممالک کو تباہ کرنے کی مُہم کا حصہ ہے مگر اِس طرزِ عمل سے دنیا بدامنی کا آتش فشاں بنتی جا رہی ہے خیر کسی سے کیا امید رکھیں امتِ مسلمہ ہی خاموش ہے مگر اسرائیلی مظالم کے خلاف نتیجہ خیز لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جاتا توتو مستقل طورپر قبلہ اول سے محرومی کے صدمے کے لیے تیار رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں