لہو لہو بلوچستان
شیئر کریں
وزیراعظم نواز شریف کو جہاں ایک جانب چین کے دورے کے دوران ہی مخالفت کا سامنا ہے اور ہانگ کانگ کے شہریوں نے اپنی مقامی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مجرمانہ معاملات کے زیرتفتیش شخص کو ہانگ کانگ کی سرزمین پر قدم نہ رکھنے دیا جائے وہیں اس دورے کے آغاز سے چند گھنٹے پہلے سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین عبدالغفور حیدری قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے جبکہ ان کے قافلے میں شامل 27 افراد جان کی بازی ہار گئے ابھی اس سانحہ کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ سی پیک کے اہم ترین مرکز گوادر میں دو مسلح افراد آئے اور انہوں نے 10مزدوروں کو شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا 24 گھنٹے سے کچھ زائد عرصہ کے دوران دو واقعات میں 37 افراد کی اس طرح سے ہلاکت ظاہر کرتی ہے کہ بلوچستان اتنا پرامن نہیں ہے جتنا بتایا جا رہا ہے ۔
اب سے کچھ عرصہ پہلے تک بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد ان دہشت گردوں کا خصوصی نشانہ ہوا کرتے تھے طریقہ واردات یہی تھا کہ چلتی ہوئی بس کو روکا مسافروں سے شناختی کارڈ چیک کیے اور جن کے پاس پنجاب کے شناختی کارڈ ملے انہیں علیحدہ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میرے قریبی دوست بھی ایسے ہی ایک واقعہ میں بال بال بچے ہیں اس موقع پر ٹارگٹ وزارت دفاع سے تعلق رکھنے والے افراد تھے ۔کوئٹہ سے کراچی آنے والی بس کو روکا گیا، شناختی کارڈ اور اداروں کے کارڈ چیک کیے گئے، میرے یہ دوست پارٹ ٹائم میں چھپائی کا کام بھی کیا کرتے ہیں اور ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے پاس اس وقت اکبر بکٹی کی ایک کتاب چھپائی کے مراحل کے دوران موجود تھی، انہیں پہلے تو محکمے کا کارڈ دیکھتے ہوئے دیگر مسافروں سے علیحدہ کیا گیا لیکن جب دیگر سامان دیکھا گیا اور اس میں اکبر بگٹی کی زیر طباعت کتاب ملی تو حملہ آوروں نے اس کتاب کے بابت پوچھا تو یہ بتائے جانے پر کہ وہ یہ کتاب چھپوانے کے لیے کراچی جا رہے ہیں ان کی جان بخشی ممکن ہوئی۔ جب انہوں نے مجھے یہ واقعہ بتایا تو میں نے ان سے کہا کہ برادرم یہ کتاب چھپ بھی جائے تب بھی اس کا یہ مسودہ جب بھی کوئٹہ سے کراچی یا کراچی سے کوئٹہ جانا ہو تو اپنے ساتھ رکھیے گا کہ یہ بلوچستان میں آپ کی لائف انشورنس پالیسی ہے۔
بلوچستان (پہلی بار لہولہو نہیں ہوا ہے) گزشتہ 38سال سے جبکہ ایران میں خمینی کا انقلاب آیا، بلوچستان خصوصاً کوئٹہ لہو لہو رہا ہے پاکستان اور ایران کے تعلقات کتنے گہرے تھے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ3جون47 19ءکو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا اور 14 اگست کی تاریخ مقرر کر دی گئی لیکن ایران نے 14 اگست سے قبل ہی پاکستان کو بطور ریاست تسلیم کرلیا اور پاکستان میں اپنا سفارتی نمائندہ بھی مقرر کر دیا۔ ایران کے سفیر وہ پہلے غیر ملکی سفیر تھے جنہوں نے بابائے قوم کو 14 اگست 1947 ءکو اسناد سفارت پیش کیں ۔اور یہ تعلق مزید گہرا ہوتا گیا لیکن 1978ءکے اواخر میں افغانستان میں روسی فوجیوں کا داخلہ شروع ہو ا اور مجاہدین نے اس کی مزاحمت شروع کی، اس مزاحمت میں مجاہدین کو ان کے مسلک سے بالاتر ہو کر پاکستان کی مکمل حمایت حاصل تھی، اسی دوران ایران نے بھی رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ دیاگیا اور تقریباً25 سال سے جلاوطن خمینی برسراقتدار آگئے۔ پاکستان نے اس انقلاب کا خیرمقدم کیا اور پاکستان کے جید علماءجن میں سید ابولااعلیٰ مودی بھی شامل تھے، اس انقلاب کو اسلام کی نشاة ثانیہ کا نقطہ آغاز قرار دیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت کی ایرانی قیادت نے جو شہنشاہ کے دور کے آزاد ماحول سے مختلف سمت میں چل رہی تھی نے اس انقلاب کو اسلامی کے بجائے فقہی انقلاب کا درجہ دے دیا، یوں امت مسلمہ جو تقریباً 14سو سال سے فقہی اختلافات میں بٹی ہوئی تھی کے اختلافات کی گہرائی میں شدت آ گئی اور پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک جانب سپاہ صحابہ کا قیام عمل میں آیا تو دوسری جانب سپاہ محمد نے بھی مورچہ لگا لیا۔دونوں گروہوں نے یہ سوچے اور سمجھے بغیر کہ خربوزہ چھری پے گرے یا چھری خربوزے پر، نقصان خربوزے کا ہی ہونا ہے ان فسادات میں خون مسلم ارزاں ہوا ،کہیں یہ خون شیعہ تھا تو کہیں سنی لیکن کوئی بھی اسے امت مسلمہ کا لہو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا ۔جو اختلافات ہیں وہ عوام کی سطح پر اور سڑکوں پر طے نہیں ہو سکتے۔ معاملہ یزید کو برا کہنے یا علی معاویہ کو بھائی بھائی کہنے کا نہیں ہے یہ ایک خالصاةً علمی معاملہ ہے جس کو علماءکرام ہی بیٹھ کر طے کر سکتے ہیں یہ معاملہ سڑکوں پر حل ہونے والا نہیں ہے۔ سڑکوں پر لانے کے نتیجہ میں دشمن کو اپنے وار کرنے کا بھرپور موقع مل جاتا ہے اس کے لیے تو شیعہ مرے توفائدہ، سنی مرے تو فائدہ ،کہ عالم کفر کے لیے تو شیعہ اور سنی کا فرق کوئی فرق نہیں ہے ۔
ایران اور پاکستان کے تعلقات کی گہرائی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے عراق ایران جنگ کے دوران ایران کی بھرپور مدد کی تھی لیکن ایران کی موجودہ قیادت شاید اتنی بالغ نظر نہیں ہے یا احمدی نژاد کے دور کا اثر ہے کہ ایران پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے اور افغانستان کے بعد پاکستان کے خلاف سازشوں کا مرکز بھی بن رہا ہے ۔گزشتہ سال گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے ایران کی بندر گاہ چاہ بہار کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا ہوا تھا اور گزشتہ عرصہ میں اس نے وہاں بیٹھ کر کئی وارداتیں کیں تھیں اور اپنا نیٹ ورک مضبوط بنایا تھا ۔کلبھوشن یادیو کا کوراتنا مضبوط تھا کہ ابتدائی ایام میں تووہ حساس اداروں کی نظر میں نہ آ سکا ،اب بھی وہ محفوظ ہی رہتا اگر وہ ضرورت سے زیادہ بڑھی خوداعتمادی کا شکار نہ ہوتا اور اپنے اہلخانہ سے مراٹھی میں طویل گفتگونہ کرتا۔ وہ سمجھتا تھا کہ شاید پاکستان میں اور پاکستان کے حساس اداروں میں مراٹھی جاننے والے نہیں ہیں یوں وہ کھل کر بات کرتا تھا اور اس اعتماد نے ہی اس کا بھانڈہ پھوڑ دیا ۔
کلبھوشن کی گرفتاری کے ساتھ ہی بھارت نے پہلے تو اسے اپنا شہری تسلیم نہیں کیا، پھر شہری تو تسلیم کیا لیکن فوجی تسلیم نہیں کیا، پھر فوجی بھی تسلیم کیا لیکن اس کو ریٹائرڈ قرار دیا اور اس پر بضد رہا کہ اس کو ایران سے اغواءکر کے لایا گیا ہے۔ اس پورے عرصہ میں ایران کے صدر نے بھی اسلام آباد کا دورہ کیا جنہیں ان کا ادب برقرار رکھتے ہوئے بتا دیا گیا کہ کلبھوشن ایک جاسوس ہے اور ایران اس معاملے میںمداخلت نہ کرے تو بہتر ہے ۔کلبھوشن کو سزا سنائے جانے تک تو ایران نے کسی بھی مرحلے پر قونصلر کی رسائی نہیں مانگی تھی۔ لیکن سزا سنائے جانے اور بھارت کو شدید دباو¿ کے باوجود قونصلر رسائی کے دینے سے انکار کے بعد کہ جاسوس کو کسی بھی کنونشن کے تحت قونصلر رسائی کا حق حاصل نہیں ہے اور جس کے بابت جنیوا کنونشن کا آرٹیکل48 بہت واضح ہے، اب ایران نے کلبھوشن تک قونصلر رسائی مانگی ہے جس کا بنیادی طور پر ایران کا کوئی استحقاق حاصل نہیں کہ کلبھوشن اعترافی جاسوس اور بھارت کا حاضرڈیوٹی فوجی افسر ہے نتیجتاً پاکستان نے ایران کو بھی وہی جواب دیا جو بھارت کو دیا جا چکا تھا۔ اس کے بعد سے بلوچستان میں تشدد کی ایک نئی لہر ابھری ہے، پہلے افغان فوجیوں نے مردم شماری کے عملے پر فائرنگ کر کے جس حماقت کا ثبوت دیا تھا اس کی بھرپور سزا بھی پالی ہے۔ اب پہلے عبدالغفور حیدری پر قاتلانہ حملہ ہوا، عبدالغفور حیدری جس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس کے تعلقات پاکستان کے اہل تشیع حضرات کے ساتھ بہت اچھے نہیں ہیں لیکن ایسے بھی نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوا جائے، چلیے وہاں تو پھر بھی ایک اختلاف موجود تھا جس کو شاید گزشتہ عرصہ میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے افراد کے قتل کا ردعمل قرار دیا جا سکے لیکن گوادر میں قتل کیے جانے والے محنت کش تو ایسے کسی ردعمل کا نشانہ نہیں بن سکتے تھے۔ یہ کھلی دہشت گردی ہے جس کے پیچھے ایک ہی سوچ کارفرما ہے کہ سی پیک منصوبہ کسی طور پر بھی ناکام بنایا جائے اور اس سازش کو ہمارے حکمرانوں کی حماقتوں نے آسان بنا دیا ہے۔
یہ وقت نہیں ہے کہ پاکستان کسی ایسے اتحاد کا حصہ بنے جو اس کی علاقہ میں تنہائی میں اضافہ کا باعث ہو۔ سعودی قیادت میں بننے والا فوجی اتحاد کتنی بھی وضاحت کر دی جائے کہ وہ ایران یا فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے ممالک کے خلاف نہیں ہے اس کو ایک فقہی رنگ دے دیا گیا ہے ،پھر سعودی عرب نے اس فوجی اتحاد کی قیادت پاکستان کے سابق آرمی چیف کو دیکر ایک ایسا معاملہ پیدا کر دیا ہے کہ جس کے نتیجہ میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں موجود خلیج اور وسیع ہو گئی ہے اور اس کو پاٹنا آسان نہیں رہا ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ کسی بھی طور پر سی پیک منصوبہ ناکام ہو یا اس منصوبے میں اس کو واضح حصہ داری دی جائے تاکہ اس طرح سے وہ پاکستان کی اکانومی کو نقصان پہنچاتا رہے لیکن چین نے جو واضح مو¿قف اختیار کیا ہے اس کے بعد بھارت کی یہ خواہش تو پوری ہوتی نظر نہیں آتی لیکن سجن جندال سے میاں صاحب کی ذاتی دوستی کیا رنگ لاتی ہے کہ وہ شخص اسلام آباد آتا ہے تو وزیراعظم ہاو¿س کے انتہائی حساس علاقوں تک چلا جاتا ہے اور گفتگو کے لیے مری کے ایسے مقامات کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں نادیدہ کان اور آنکھیں موجود نہ ہوں لیکن یہ مخلوق تو جناتی ہے جو نظر نہیں آتی اپنا کام دکھا جاتی ہیںاب انہی قوتوں کا کام ہے کہ ان سازشوں کو کیسے ناکام بنائیں ۔