میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مقبوضہ کشمیر میں آبادی کاتناسب تبدیل کرنے کی مذموم بھارتی کوشش

مقبوضہ کشمیر میں آبادی کاتناسب تبدیل کرنے کی مذموم بھارتی کوشش

ویب ڈیسک
منگل, ۱۶ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

خارجہ سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویتریس کو خط لکھ کر انہیں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں سے آگاہ کیا ہے۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق سرتاج عزیز کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو لکھے گئے خط میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کی مذموم بھارتی کوششوں سے انہیں آگاہ کیا گیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو مستقل رہائش کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا، بھارتی فوج کے ریٹائرڈ ملازمین کو زمین کی الاٹمنٹ اور غیر کشمیریوں کو زمین الاٹ کیا جانا بھی کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی بھارتی کوششوں کا حصہ ہے۔خط کے مطابق کشمیری پنڈتوں اور مغربی پاکستان کے مہاجرین کے لیے کشمیر میں علیحدہ بستیوں کا قیام بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی کوششوں کا حصہ ہے۔خط میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ بھارت کی ان تمام کوششوں کا مقصد کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے، تاکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے میں من پسند نتائج حاصل کیے جاسکیں۔مشیر خارجہ نے خط کے ذریعے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ ان قراردادوں پر عمل کرنے سے ہی ہم لاکھوں کشمیریوں کے مسائل کا خاتمہ اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام قائم کرسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویتریس کے نام اپنے خط میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے عالمی برادری کو بلاشبہ ایک اہم مسئلے سے بروقت آگاہ کرکے کشمیر کانقشہ تبدیل کرنے کے لیے بھارت کی مذموم کوششوںاور چالبازیوں کوبے نقاب کیاہے،اور عالمی برادری کو یہ باور کرادیاہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی ان کوششوں کے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے تو وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز بار بار اس بات کااعادہ کرچکے ہیں کہ پاکستان مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تیار ہے، لیکن بھارت اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرکے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک انٹرویو کے دوران سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی دعوت کے حق میں ہیں۔
پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق صرف پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات میں پنہاں ہے ۔سرتاج عزیز نے کہا کہبھارت اپنے زیر انتظام کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے کر اس مسئلے کو مکمل طور پر نظرانداز کر رہا ہے، جس کی وجہ سے صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے۔ایک سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت نے 7 لاکھ سے زائد مسلح افواج کشمیر میں تعینات کررکھی ہیں، جنہوں نے معصوم کشمیریوں کے خلاف ظلم و جبر کا بازار گرم کیاہوا ہے۔دوسری جانب مشیر خارجہ نے ہندوستانی وزیر خارجہ نریندر مودی کے بلوچستان سے متعلق دیے گئے حالیہ بیان کو بھی سختی سے مسترد کردیا۔یاد رہے کہ کچھ روز قبل بھی پاکستان نے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر بامقصد مذاکرات کی باضابطہ طور پر دعوت دی تھی۔اس حوالے سے پاکستان کا مو¿قف ہمیشہ یہ رہاہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی دعوت کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنا چاہیے، کیونکہ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات رکھے جو خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہے۔بھارتی رہنماؤں کو اپنی پاکستان دشمنی کو بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ پاکستان اور بھارت خطے کے اہم ممالک ہیں اور خوشحالی اسی صورت ممکن ہے جب یہ دونوں ملک آپس میں اپنے اختلافات ختم کریں۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ ماہ 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اس دوران مظاہروں اور احتجاج پر بھارتی سیکورٹی فورسز کی جانب سے نہتے کشمیری عوام پر فائرنگ سے 70 سے زائد کشمیری شہید جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ بھارتی پولیس کے حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ مختلف علاقوں میں کرفیو اور گھروں سے نکلنے پر پابندی کا مقصد حریت پسند تنظیموں کے احتجاج کو روکنا ہے۔
جبکہ اب بھارتی صحافی اور دانشور بھی بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی کو کھل کر ہدف تنقید بنانے پر مجبور ہوگئے ہیں جس کا اندازہ گزشتہ دنوںبھارتی صحافی سنتوش بھاٹیہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے 4روزہ دورے کے بعد بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے نام ایک کھلے خط سے ہوتاہے جو’رائزنگ کشمیر نامی جریدے میں’ میں شائع ہوا ہے ،سنتوش بھاٹیہ نے اپنے اس خط میں کہا ہے کہ ‘اگرچہ کشمیر کی سرزمین بھارتی حکومت کے قبضے میںہے مگر کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیںہیں’۔اس صحافی نے مقبوضہ کشمیر کے چار روزہ دورے کے حقائق اس خط میں بیان کیے ہیں، جس میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال، کشمیری عوام کا غصہ اور بھارت خصوصاً مودی سرکار کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو غلط طریقے سے سنبھالنا وغیرہ جیسے حقائق کی طرف بھارتی وزیراعظم کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بھارتی صحافی سنتوش بھاٹیہ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ میں یہ حقیقت متعارف کرانا چاہتا ہوں کہ بھارتی نظام کے خلاف لوگوں کے اندر تکلیف دہ جارحیت موجود ہے چاہے وہ 80 سالہ شخص ہو یا 6 سالہ بچہ۔یہ جارحیت اور تلخی نامنظوری کے احساس کے ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان سے بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں، ان کے درد اور جارحیت نے اب ایسی انتہاپسندی کا روپ لے لیا ہے کہ اب وہ ہاتھوں میں پتھر لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور اتنے بڑے نظام کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، کوئی بھی نتیجہ انہیں روک نہیں سکتا۔ ستوش بھاٹیہ نے لکھا ہے کہ میں سمجھتاہوں کہ یہ صورتحال ہمیں تباہ کن ‘قتل عام’ کی صورتحال کی جانب لے جاسکتی ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ وہ کشمیری جو ہاتھ میں پتھر نہ اٹھاتا ہو، اپنے دل میں ضرور پتھر رکھتا ہے۔ اس تحریک نے بڑے پیمانے کی عوامی تحریک کا روپ بالکل ویسے ہی لیا ہے جیسے 1942ءکی تحریک یا جے پی موومنٹ جس میں لیڈروں سے زیادہ عوام کا ہاتھ تھا۔ستوش بھاٹیہ نے لکھا ہے کہ جن لوگوں نے 2014 ءکے انتخابات میں ووٹ ڈالے تھے، آج ان میں سے کوئی بھی اس حکومت کی حمایت میں ہمدردی کا ایک لفظ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی کو اب کشمیر کاحلیہ بگاڑنے اور کشمیری عوام کے غم وغصہ میں اضافہ کرنے کے اقدامات کے بجائے اس مسئلے کے پرامن حل کی جانب پیش رفت کرنے پر غور کرنا چاہیے اور پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی مخلصانہ دعوت کو قبول کرتے ہوئے باہمی اختلافات طے کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ دونوں ملک یکسوئی کے ساتھ اپنے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے سکیں اور اپنے محدود قیمتی وسائل کو جنگ کاایندھن بنانے کے بجائے عوام کی غربت کم کرنے اور ان کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر صرف کرسکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں