میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مذاکرات یا تباہی

مذاکرات یا تباہی

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۶ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ کی جانب سے متفقہ طور پر سپریم کورٹ کے قواعد میں تبدیلی کے قانون پر عمل درآمد کو روکنے کے بعد بہت کچھ بدل چکا ہے۔ کوئی مانے یا نا مانے حکومت عملاًغیر موثرہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بنک کو حکم دے دیا ہے کہ 21 ارب فوری طور پر جاری کیے جائیں، اس طرح سیاسی فضا بدل چکی ہے۔ اب مذاکرات کے سوا کوئی بھی راستہ اختیار کرنے سے سوائے تباہی کے کچھ نہیں بچے گا۔ حکومت کے مزید جارحانہ اقدامات حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے لیے اور بھی نقصان دہ ہونگے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے صورت حال بھانپ لی ہے اور وہ اگست میں ملک بھر میں عام انتخابات کا عندیہ دے رہے ہیں۔ انہیں احساس ہوگیا ہے کہ مزید انتشار اور سپریم کورٹ سے ٹکرائو کچھ جماعتوں کے اہم رہنمائوں کی سیاست سے بے دخلی کا بھی باعث بن سکتے ہیں۔ موجودہ بحران بظاہر عدالتی اور سیاسی بحران نظر آتا ہے لیکن اصل میں یہ بحران سیاسی کم ،معاشی اور سفارتی زیادہ ہے۔ اگر موجودہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے اچھی شرائط پر معاملات طے کرتی دنیا کی اہم قوتوں اور امیر عرب ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرکے مالی تعاون حاصل کرتی ایسی صورت میں یہ بجلی اور پٹرول کی موجودہ قیمت سے نصف رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ۔معیشت کو پہلی ترجیح دے کر صنعت ،تجارت ، زراعت اور ایکسپورٹ کو فروغ دیتی، چوری ،ڈکیٹی اور جرائم کی دیگر وارداتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کرتی، صحت، تعلیم اور صفائی کی بہتر سہولیات میسر کرتی، انفارمیشن ٹیکنالوجی کو عام کرتی ،معاشرے کے کمزور اور محروم طبقات کو سہولیات اور تحفظ فراہم کرتی تو آج ہی انتخابات کا اعلان بھی کرسکتی تھی اور اس میں بڑے پیمانے پر کامیابی بھی حاصل کرلیتی ۔ ملک میں کوئی بحران نہ ہوتا لیکن معیشت کی جانب توجہ نہ دینے سے حکومت نے اپنے پیڑوں پر کلہاری مارلی ہے اور اب صرف خاتمے کا اعلان باقی ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا اگر اس کے پس منظر کاجائزہ لیا جائے تو یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب عمران خان کی نسبتاً غیر مقبول حکومت کو عدم اعتماد کے آئینی طریقہ کا ر سے حکومت سے باہر کردیا گیا۔ اس وقت پی ڈی ایم کے لیے ا نتخابات بہتر سیاسی حکمت عملی ہوسکتی تھی لیکن انتخابات سے گریز کرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوگئی اور لوگوں کی قابل ذکر تعداد نے مختلف شہروں میں جمع ہوکر احتجاج بھی کیا۔پی ڈی ایم نے اقتدا ر حاصل کرلیا لیکن عوام سے دوری کی راہ اختیا ر کرلی نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے ہی ماہ میں جب حکومت کے وزراء سعودی عرب پہنچے تو ان کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔ سعودی عرب میں اس قسم کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ غالب امکان ہے کہ سعودی عرب میں موجود دنیا بھر کے مختلف ممالک کے سفارت خانوں نے اس بارے میں اپنی رپورٹ اپنی اپنی حکومتوں کو بھیجی ہوگی ۔دوسری جانب پی ٹی آئی نے ملک بھر میں جلسوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ امریکہ اوریورپ کے بیشتر ممالک میںپی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر پاکستانیوں نے مظاہرے کیے جس سے دنیا کے اہم مملک میں پی ڈی ایم کی حکومت کی ساکھ کمزور ہوتی چلی گئی اورپاکستان کی موجودہ حکومت کے بارے میں مختلف ممالک کی حکومتوں میں مثبت تاثر قائم نہ ہوسکا۔ گزشتہ سال پچیس مئی کے پر تشدد واقعات کو عالمی میڈیا میں نمایاں جگہ ملی ۔سب سے بڑی غلطی وزارت داخلہ اور خزانہ سے پیپلز پارٹی کو دور رکھنا تھا۔ شاید ان کی تجاویز بھی نہ سنی گئی۔ ایک مرتبہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری نے اشارہ بھی دیا تھا کہ ان کی جماعت وزارت خزانہ کو بہتر چلا سکتی ہے اور معیشت کو بہتر کرسکتی ہے لیکن مسلم لیگ ن نے اپنی معاشی مہارت پر اتنا زیادہ بھروسہ کر رکھا تھا کہ وہ اس پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے تھے دوسری جانب مریم نواز اور نواز شریف بھی اسحاق ڈار کو میدان میں لاکر اس کے ذریعے اپنا بھر پور اثرو رسوخ چاہتے تھے اس طرح مفتا ح اسماعیل کو ہٹا کروزارت خزانہ اسحاق ڈار کو دی گئی۔ اسحاق ڈار بھی معاشی میدان مین ناکام رہے۔ عالمی اداروں سے بھی کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا۔ نہ ہی ملک میں موجود تاجروں اور صنعت کاروں نے ان پر اعتبار کیا۔ملک میں مہنگا ئی کا ایسا طوفان آیا کہ عام لوگ اب پی ڈی ایم کی جماعتوں کی بات پر توجہ دینے کے لیے بہت ہی مشکل سے تیار ہوتے ہیں ۔عمومی طور پر لوگوں میں غصہ اور نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور میڈیا کے خلاف کارروائیوںپربھی انسانی حقوق کی تنظیموں عالمی سطح پر سخت نوٹس لیا۔ اس سے حکومت کی ساکھ اور خراب ہوگئی۔ عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل سرگرم رہی اور ہمہ وقت میڈیا میں نمایاں مقام حاصل کرتی رہی۔ خصوصاً پاکستانی میڈیا پر بعض پابندیو ں کے باوجو د سوشل میڈیا میں اپنی مہم جاری رکھی اور عام لوگو ں کو بھی اس کام پر لگا دیا اب جس کے پاس فون اور ڈیٹا کی سہولت ہے، وہ یہ کام کرنے لگتا ہے ۔مسلم لیگ ن اور پی پی اس محاذ پر بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔حالات کی مزید خرابی پاکستان کو ناکام ریاست کی طرف دھکیل سکتی ہے ۔حال ہی میں مینار پاکستان پر عمران خان کا جلسے میں پیغام بڑا معنی خیز تھا کہ اگر کسی کے پاس اس بحران کا حل ہے تو وہ خود پیچھے ہٹ کر اس کی حمایت کریں گے لیکن عمران خان کی اس بات پر میڈیا پر کوئی خاص بحث نہیں ہوئی۔
اب مزید خراب حالات کی صورت میں مقتد ر حلقوں کوبھی تشویش لاحق ہو سکتی ہے اور وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچ وبچار کرسکتے ہیں ۔ فی الحال وہ معاملات سے دور ہیں لیکن مزید وقت گزرنے کے ساتھ وہ بھی ثالثی پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق عمران خان کے سامنے شرائط رکھی جارہی ہیں جس میں کسی انتقامی کارروائی سے گریز بھی ایک شرط ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ بعض اراکین اسمبلی نے عمران خان سے درپردہ رابطہ کر رکھا ہو۔ یہ بھی بعید نہیں ہے کہ بالواسطہ خفیہ مذاکرات یا پیغام رسانی کا سلسلہ جاری ہو ۔پی ڈی ایم کی جماعتیں پنجاب اور سرحد کے علیحدہ انتخابات کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے اقتدار کو ہر ممکن طول دینا چاہتی ہیں۔ عدلیہ پر کنٹرول کے اقدامات میں اب تک حکومت کو ناکا می ہوئی ہے۔ اب پارلیمنٹ سے ایک اور قانون منظور کرایا گیا ہے جس کے نفاذ کے بعد نواز شریف کو اپنے مقدمات کے خاتمے کے لیے اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ اس طرح وہ بھی سیاسی منظر نامے کا حصہ بن جائیں گے۔ یہ قانون بھی پس پردہ کسی سمجھوتے کا نتیجہ ہوسکتا ہے ایسی صورت میں پنجاب میں پی ٹی آئی کے اثر کو کم کرنے کے لیے وہ مید ان میں آئیں گے لیکن اس وقت کشیدہ صورت حال جس میں سیاسی جماعتوں کے درمیان زبردست محاذ آرائی ہے۔ عدلیہ تقسیم ہے سپریم کوٹ کے ججوں کے خلاف تقاریر ہورہی ہیں۔معاملات اس وقت تک الجھے رہیں گے جب تک ماحول کو ٹھنڈا نہیں کیا جاتا اور فضا کو سازگار نہیں بنایا جاتا ٹکڑائو کا بڑا نقصان حکومت کو ہوگا ۔پی پی کے مشورے نہ مان کر مسلم لیگ ن پہلے بھی بڑی غلطی کر چکی ہے شاید اب نہیں کرے گی ۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں