بدلے بدلے میرے بھوٹان نظر آتے ہیں
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھوٹان ویسے توہندوستان کے پڑوس میں ایک بہت چھوٹا سا ملک ہے مگر اس کی سرحد آسام( 267کلومیٹر)، اروناچل پردیش ( 217کلومیٹر)، مغربی بنگال (183 کلومیٹر) اور سکم (32 کلومیٹر) سے متصل ہے ۔ بھوٹان کی سرحد مکمل طور پر بند ہے یعنی وہ ہر طرف سے ہندوستان کے درمیان گھرا ہوا ہے ۔ اس لیے غیر ملکی شہریوں کے لیے بھوٹان میں داخل ہونے کے لیے مغربی بنگال ہی واحد زمینی راستہ ہے ۔حکومت ہندبھوٹان سے متصل اپنی سرحد کی حفاظت کے لیے مسلح سرحدی افواج (ایس ایس بی) کی 12 بٹالین تعینات کررکھی ہیں اور 132 سرحدی چوکیوں قائم ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان میں سرحد کو محفوظ کرنے ، سیکورٹی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے دو طرفہ ہندوستان بھوٹان بارڈر گروپ مینجمنٹ قائم کیا گیا ہے ۔ ہندوستان نہ صرف خارجہ امور میں بھوٹان سے مشاورت کرتا ہے بلکہ اس کی افواج کی تربیت بھی کرتا ہے ۔ بھوٹان کو ہندوستان کا تحفظ حاصل ہے ۔اس کی خارجہ پالیسی، دفاع اور تجارت پر ہندوستان اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود ایک چھوٹے سے ملک ہندوستان کے دشمن نمبر ایک چین کے ساتھ پینگیں بڑھانا اور برابر کے درجہ پر لے آنا حیرت انگیز پیش رفت ہے ۔
معاشی اعتبار سے بھی بھوٹان کا اچھا خاصہ انحصار ہندوستان پر ہے ۔ مالی سال 201213 کے اندر ہندوستانی بجٹ میں بھوٹان کی معاونت کے لیے تقریباً 300 کروڈ روپئے رکھے گئے ۔ آگے چل کر اس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلاگیا اور اب ہندوستان کی غیر ملکی امداد لینے والا بھوٹان سب سے بڑا ملک بن چکا ہے ۔ بھوٹان میں ہندوستان 1,416 میگا واٹ کے 3 ہائیڈرو پاور منصوبے چلا رہا ہے اور اور مزید 2,129 میگا واٹ کے 3 منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ بھوٹان کی چین کے ساتھ سرحدصرف 477 کلو میٹر طویل ہے مگر بدقسمتی سے وہ ہندوستان کی ڈھال سلی گوری کوریڈور کے قریب ہے ۔ اس کو دفاعی ماہرین چکن نیک (مرغے کی گردن) سے تعبیر کرتے ہیں۔ سلی گوری کوریڈور کی لمبائی صرف ساٹھ کلو میٹر اور چوڑائی صرف 22 کلو میٹر ہے لیکن اس سرحد کے قریب بھوٹان کے ڈوکلام خطے پر چین اپنا دعویٰ کرتا ہے جو فوجی اعتبار سے ہندوستان کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ شمال مشرق صوبوں کے لیے نقل و حمل اور گزرگاہیں اس کے پاس سے گزرتی ہیں ۔ اس میں اگر رخنہ پڑجائے تو ان ریاستوں سے ملک کا رابطہ ختم ہوجائے گا اس لیے ڈوکلام کے علاقے میں چین کی کارروائیاں خطے میں ہندوستان کے مفادات کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ اس تناظر میں بھوٹان کے وزیر اعظم کا مندرجہ بالا بیان وزیر خارجہ جئے شنکر کی سفارتی کاوشوں پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔
وزیراعظم لوٹے شیرنگ نے اپنے انٹرویو میں سرحدی تنازع کے حوالے سے کہا کہ ‘اس مسئلے کا حل نکالنا صرف بھوٹان کی ذمہ داری نہیں۔ ہم تین ہیں اور ہم میں سے کوئی چھوٹا یا بڑا ملک نہیں بلکہ ہم سب برابر ہیں’۔اس طرح کے بیان سے ہندوستان اور بھوٹان کے درمیان سفارتی تعلقات میں تناؤ فطری ہے کیونکہ ڈوکلام میں چین کی کسی بھی قسم کی موجودگی حکومتِ ہند کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے ۔ قومی تحفظ کے حوالے سے ڈوکلام چونکہ یہ علاقہ ہندوستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے بھوٹانی وزیراعظم کایہ کہنا کہ ‘ہم (بات چیت کے لیے ) تیار ہیں۔ جیسے ہی دیگر دو فریق (ہندوستان اور چین) تیار ہوں گے ہم اس پر بات چیت کر لیں گے ۔’ ایک خطرے کی گھنٹی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ‘ ہندوستان اور چین کے درمیان ڈوکلام تنازع کا حل بھوٹان چاہتا ہے کیونکہ وہ تمام مسائل کی جڑ ہے ۔’ ڈوکلام میں چینی مداخلت اس وقت منظر عام پر آگئی جب 2017ء میں وہاں چین نے سڑک کی تعمیر کا کام شروع کیا ۔ اس وقت حکومتِ ہند نے اس پر شدید احتجاج کیا ۔ بھوٹان نے بھی چین کو معاہدے کی خلاف ورزی سے اجتناب کرنے کو کہا مگر اب اس کے تیور کا بدلنا ہندوستانی نکتہ نظر سے تشویشناک ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی تو قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ چین کو لال آنکھ نہیں دکھائیں گے اس لیے ان چیلے امیت شاہ سے بھی کوئی امید رکھنا فضول ہے ۔ ویسے لداخ سمیت جموں کشمیر کی خاطرجان لڑانے کے بیان کا ردعمل وہ گلوان میں دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے چین کے معاملہ کچھ نہیں بولتے ۔ اس بابت کم ازکم وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو لب کشائی کرنی چاہیے ۔ وہ ملک کے وزیر دفاع ہیں حکومت کے نہیں؟ کیا ان کا کام صرف راہل گاندھی کے خلاف پارٹی کا دفاع کرنا ہے ؟پچھلے گیارہ سال میں بھوٹان کے اندر چین کارسوخ خاصہ بڑھ گیا ہے ۔ 2012ء میں ہندوستان کی چین سے ایک تحریری مفاہت ہوئی تھی۔ اس کے تحت یہ طے پایا تھا کہ بھوٹان سمیت تینوں ملکوں کی سہ رخی حد بندی کا تعین آپسی صلاح مشورے سے کیا جائے گا۔ اسی سال ہندوستانی فوج نے بھوٹانـچین سرحد کی حفاظت کے لیے ڈوکلام کے لالٹین علاقہ میں حفظ ما تقدم کے طور پر دو بنکر بنائے تھے ۔
پانچ سال بعد 2017 میں ڈوکلام کے اندر چین نے متنازع علاقے میں ایک سڑک کی تعمیر شروع کرکے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو ہندوستان نے اس کی مخالفت کی ۔ یہ تنازع اتنا بڑھا کہ ہندوستان اور چین کی افواج کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں ۔ تقریباًڈھائی ماہ تک جاری تعطل کے بعدوہ معاملہ ختم ہو ا نیزدونوں ملکوں نے اپنی اپنی فوجیں ہٹانے پر اتفاق کرلیا ۔ چین اور ہندوستان کی اس سرحدی کشیدگی کے بعد حکومتِ ہند نے سرحدی چوکیوں کی تعداد میں اضافہ کردیا ۔ بھوٹان کی حکومت نے اس وقت ڈوکلام میں ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان 73دن سے جاری تناؤ کے خاتمے کا خیرمقدم کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ اس سے تکونا سنگم(ٹرائی جنکشن)زون میں امن کو یقینی بنانے میں مددملے گی۔ ہندوستان اور چین کے ڈوکلام سے سفارتی پیش رفت کے بعد اپنی اپنی فوج کو ہٹا نے پربھوٹان کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ بھوٹان، چین اور ہندوستان کے سرحدی تعلقات کے درمیان امن اور حیثیت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
یہ توقعات دیرپا ثابت نہیں ہوئیں ۔ اس کے 6 ماہ بعد خفیہ محکمہ نے انکشاف کیا کہ تبت کے اضلاع لہاسہ اور گونگکا میں فضائی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے چین نے 8جنگی جہازکے علاوہ 22ایم آئی 17ہیلی کاپٹر ، ایک ایئر بورن کے جے 500طیارہ تعینات کردیے ہیں ۔ علاوہ ازیں چین نے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل یونٹ سمیت متعدد جنگی ساز و سامان بھی نصب کردیئے ۔ اس دوران سکم میں بھی چین کے کئی جنگی جہاز دیکھے گئے اور اس کا یہ مطلب لیا گیا کہ چین کو ڈوکلام میں ہندوستانی موجود گی پر اعتراض ہے ۔ فروری 2018 کانگریس نے ڈوکلام اور تبت میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر مودی حکومت پر الزام لگایاتھا کہ وہ عوام سے حقیقت حال چھپارہی ہے ۔ کانگریس کا دعویٰ تھا کہ ڈوکلام کے ساتھ تبت میں بھی چین اپنی فضائیہ کو مضبوط کررہاہے ۔اس دوران 3ہفتوں میں چین کے 51جنگی جہازوں کو علاقے میں پہنچانے پرتشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ کانگریس نے پوچھا تھا کہ مودی حکومت وہاں کی صورتحال سے آگاہ کیوں نہیں کرتی؟ وہاں کے زمینی حقائق کی پردہ داری کیوں کرتی ہے ؟
مودی سرکار نے حسبِ عادت اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا مگر جولائی 2018 میں چین کی فوج کے بارے میں ریسرچ کرنے والے ٹوئٹر ہینڈل ڈیٹریسفا (detresfa@) نے سٹیلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر شیئر کرکے کھلبلی مچا دی۔ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا تھا کہ چین 2020-21 میں ڈوکلام کے نزدیکی علاقے میں تعمیراتی کام کر رہا ہے اورفوجی اسٹریکچر تیار کرچکا ہے ۔ اس کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی نے خاموشی اختیار کررکھی تھی۔ اس لیے کانگریس کے ترجمان رند یپ سنگھ سرجیوالا نے چین کے اس ا قدام کو ملک کے لئے بڑا چیلنج بتایا لیکن مودی اس معاملے پر چین کے ساتھ کچھ بھی کہنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ شمالی ڈوکلام میں چینی فوجی سازوسامان اور انفراسٹرکچر کی تصاویر جاری کرکے کانگریس نے دونوں ممالک کے درمیان اس موضوع پر تبادلہ خیال پر مودی کی خاموش رہنے تشویش کا اظہار کیا تھا حالانکہ اسی زمانے میں جوہانسبرگ بریکس اجلاس کے دوران مودی سے چین کے صدر کی ملاقات ہوئی مگر انہوں نے اس موقع یہ معاملہ نہیں اٹھایا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعتراف کرچکے ہیں کہ بھوٹان کی سرزمین پر چینی تعمیرات کے شواہد نے ہندوستان کو فکرمند کر دیا ہے۔ ان تعمیرات کے ذریعہ چین نے ڈوکلام کے قریب اپنا دعویٰ مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی۔بھوٹان کے جب تک ہندوستان کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے اس وقت کوئی خاص فکرمندی کی بات نہیں تھی لیکن اب ایسا لگ رہا ہے چین کے اشارے بھی بھوٹان بھی آنکھیں دکھانے لگاہے ۔ یہ نہایت تشویشناک پہلو ہے کیونکہ اگر بھوٹان بھی قابو میں نہ ہو تو پاکستان افغانستان اور نیپال بھلا ہندوستانی قیادت کو کیونکر تسلیم کریں گے ؟ وقت کے ساتھ بنگلادیش نے بھی چین سے قریبی تعلقات استوار کرلیے ہیں اور سری لنکا کا ارادہ بھی ٹھیک نہیں لگتا ۔ اس طرح دشمنوں کے درمیان گھر جانا خارجہ پالیسی کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اسے نظر انداز کرنا قومی سلامتی کے نکتۂ نظرسے بہت بڑی غلطی ہے ۔
٭٭٭