وسط مدتی انتخابات کا امکان
شیئر کریں
5جون2013 کو جب میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھایا تو وہ ملک کے 20 ویں وزیراعظم بن گئے یہ چوتھا موقعہ تھا جب نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھایا آئینی طور پر حکومت کی مدت کا 5 سال طے ہے اور یہ مدت کار 4 جون 2018 کو مکمل ہوگی، لیکن جو منظرنامہ بن رہا ہے وہ حکومت کی آئینی مدت کو مکمل ہونے دے گا یا وسط مدتی انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا، یہ وہ سوال ہے جس پر غور ہونا چاہیے یوں تو میاں صاحب کے اقتدار کے آغاز کے ساتھ تنازعات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، انتخابی نتائج پر تمام سیاسی جماعتوں کو تحفظات تھے یہاں تک کہ اکثریت حاصل کرنے اور حکومت بنانے والی مسلم لیگ (ن) بھی نتائج سے مطمئن نہیں تھی مسلم لیگ (ن)1997 کی طرح بے لگام اکثریت چاہتی تھی تاکہ اپنی من مانی کاروائیاں جاری رکھ سکے اور اگر کسی مرحلہ پر آئین کی کوئی شق شہنشاہ معظم کی خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو توآئینی ترمیم کے ذریعہ اس کانٹے کو نکالا جا سکے، جیسا کہ 1997-99 کے دوران آئینی ترامیم کے ذریعہ ارکان اسمبلی کو ریلوکٹے بنا دیا گیا، ضمیر اور پارٹی پالیسی میں ٹکراو¿ ہو تو ضمیر کو میٹھی نیند سلا دو اسمبلی کی نشست چھوڑ کر ضمیر کے سامنے سرخرو ہو جاو¿ ،اب ضمیر ایسا بھی معتبر نہیں ہے کہ اس کے لیے شان وشوکت کوچھوڑا جائے 8 ویں ترمیم جس کے ذریعہ ایوان صدر کو بااختیار بنایا گیا تھا کہ دوبارہ 77 جیسی صورتحال پیدا نہ ہو کہ صدر بے اختیار ہو کر ملک اور قوم کے لیے کوئی قدم نہ اُٹھا سکے خصوصاً 8 ویں ترمیم کے ذریعہ آئین میں داخل ہونے والی شق58/B-2 جس کے تحت صدر مملکت کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ واضح الزامات کے ساتھ حکومت کو برطرف اور اسمبلی کو برخاست کر سکتا ہے ۔ 1997 -99 کے دوران حاصل بے لگام اکثریت کے ہاتھوں ختم ہوچکا تھا ایوان صدر ایک مرتبہ پھر پوسٹ آفس کی ڈیلیوری برانچ بن گیا تھا جس کا کام موصولہ خطوط کو منزل تک پہنچانا اور جن خطوط کی منزل نہ ملے یا وصول کرنے والا وصول کرنے سے انکار کر دے تودوبارہ ارسال کنندہ تک پہنچانا ہوتا ہے۔2013 کے انتخابات میں نہ تو چڑیا والے باباکا چمتکار اس طرح سے سرچڑھ کر بولا جس طرح مسلم لیگ (ن)والے چاہتے تھے نہ ہی آراوز اپنا کرتب بھرپور انداز میں دکھا سکے، یوں دو تہائی اور تین چوتھائی کا خواب چکناچور ہو گیا، ورنہ1997 کے انتخابی نتائج دیکھیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیںان انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور پی پی کے درمیان ووٹوں کا فرق5/6 لاکھ کا تھا، لیکن مسلم لیگ(ن) کی 142 نشستوں کے مقابلہ میں پی پی صرف19 نشست حاصل کر پائی تھی، اے این پی کے ووٹ تحریک انصاف سے کم تھے، لیکن تحریک انصاف ایوان میں نمائندگی سے محروم اور اے این پی9 نشستوں کی حامل تھی۔انتخابی نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور انتخابی عذر داریاں داخل ہوئی تھیں جو طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود انجام کو نہیں پہنچی ، عوامی احتجاج بھی ہوا دھرنے بھی ہوئے لیکن پرنالہ وہیں گرتا رہا ،اب پاناما نے معاملہ بہت الجھا دیا ہے اس کیس کا فیصلہ تو آنا ہے کہ عدالت عظمیٰ جون2018 تک تو اس فیصلہ کو محفوظ رکھ نہیں سکتی پھر فیصلہ کچھ بھی آئے نواز شریف کو مسٹرکلین کی چٹ ملے یا ملوث قرار دیے جائیں قبل ازوقت انتخابات یقینی ہیں۔
مسٹرکلین کی چٹ ملی تو اس کو کیش کرایا جائے اور مخالفین کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا جائے اور اگر ملوث قرار دیا جائے تو جذباتی فضا بنا کر قانون کی عدالت کے فیصلہ پر عوامی عدالت کا فیصلہ تھوپنے کی کوشش کی جائے مظلومیت کا ماتم کیا جائے، گزشتہ تقریباً3 ماہ کے دوران سیاسی میدان میں خاصی گرمی آئی ہے، پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری جو اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے اعلان کے بعد سے بیرون ملک تھے وطن واپس آئے ہیں سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن بھی خود ساختہ جلاوطنی کاٹ کرواپس آ گئے ہیں، آصف زرداری نے پنجاب میں ڈیرے ڈال دیے ہیں اور جمہوریت کی بقاءکے لیے جاری مفاہمت کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، نواز شریف جو بیرون ملک زیادہ اور سندھ اور کے پی کے کم کم آتے تھے اور ان کی سندھ یاترا میں بھی منزل گورنرہاو¿س اور اسٹیٹ گیسٹ ہاو¿س ہی ہوا کرتی تھی اب انہیں اندرون سندھ کے باشندوں کا درد ستانے لگا ہے، ٹھٹھہ میں شیرازیوں کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کے بعد حیدرآباد میں ڈاکٹر راحیلہ مگسی کے مہمان بن چکے ہیں اور حیدرآباد کے غیر فعال اور ایسے ایئرپورٹ کو جہاں سے فوکر طیارے کی لینڈنگ اور ٹیک آف مشکل سے ہو پاتی ہے اور آبادی نے ایئرپورٹ کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے یوں اس میں توسیع بھی ممکن نہیں ہے کو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا درجہ دینے حیدرآباد میں یونیورسٹی بنانے کے لولی پوپ دیکر میزبانوں کو شکریہ کا موقعہ فراہم کرچکے ہیں اوراب شدید گرمی میں 14 اپریل کو جیکب آباد میں جلوہ افروز ہونے جا رہے ہیں، ان دوروں میں ناراض حلیفوں کو منانے کی کوشش ہو رہی ہے حیدرآباد کے دورہ کے دوران سردار ممتاز علی بھٹو سے ملاقات ہوئی ممتاز علی بھٹو ڈاکٹر راحیلہ مگسی کے والد رئیس اللہ بخش مگسی کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں یوں انہوں نے سندھ کی روایات کے مطابق دعوت تو قبول کی، لیکن مسلم لیگ سے علیحدگی اور سندھ نیشنل فرنٹ کی بحالی کا فیصلہ واپس لینے سے صاف انکار کر دیا، نواز شریف کے دورہ حیدرآباد کے دوران سردار ممتاز علی بھٹو کے سوا کسی بھی قابل ذکر سیاسی شخصیت نے نواز شریف سے ملاقات نہیں کی، لیکن اس دن اس وقت تک مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر اسماعیل راہو کی عدم موجودگی نے سندھ میں نئی صف بندیوں کی جانب اشارہ کر دیا تھا اسماعیل راہو بھی نبیل گبول کی طرح داخل پی پی ہوناچاہتے ہیں، پارٹی قیادت سے معاملات طے پاچکے ہیں، تحریک انصاف کے نادرا کمل لغاری بھی آصف زرداری کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہوچکے تو دوسری جانب بالائی سندھ کے ایک بڑے وڈیرے لیاقت جتوئی نے بھی مسلم لیگ (ن) سے راہیں جدا کر لی ہیں اور بنی گالہ میں کپتان سے ملاقات کے بعد وہ بھی عمران الیون کا حصہ بننے اور سندھ میں کپتان کا کٹ بیگ اُٹھانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ لیاقت جتوئی سندھ میں کپتان کے نائب ہوں گے یا 12 ویں کھلاڑی۔
بڑی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ شہری سندھ کی نمائندگی کی دعویدار ایم کیو ایم (اب پاکستان)بھی میدان میں نکل آئی ہے اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی بہت نچلی سطح پر گرم ہے، بلدیاتی اداروں میں ایک یونین کونسل کے چیئرمین کی نشست پر ضمنی انتخابات کا مرحلہ ہے 22 اگست2016 سے قبل اس سطح کی انتخابی مہم میں زونل آرگنائزر ہی نہیں زونل کمیٹی کے ممبر بھی شریک ہونا اپنی شان کے خلاف جانتے تھے یہ یونٹ اور زیادہ سے زیادہ سیکٹر کی سطح کا معاملہ ہوتا تھا لیکن اب حالات نے پلٹا کھایا ہے اور اب پتنگ کہیں ہے اور ڈور کہیں اور یوں رابطہ کمیٹی کے سابق ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بھی سرگرم ہیں اور زونل آرگنائزز بھی خالد مقبول صدیقی حیدرآباد سے رکن قومی اسمبلی اور زونل آرگنائز رکن سندھ اسمبلی ہیں، یوں ایم کیو ایم پاکستان کواپنا وجود ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگ رہا ہے، جبکہ اس نشست پر مقابلہ میں کوئی مضبوط امیدوار بھی نہیں ہے، پی ایس پی نے ان انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اسی طرح مسلم لیگ (ن) پی پی نے بھی اس سیٹ پر امیدوار کھڑے نہیں کیے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایم کیو ایم کی اعلیٰ ترین قیادت نے سردھڑ کی بازی لگا دی ہے گویا اس کے لیے موت اور زندگی کا مسئلہ بن چکاہے، ملکی فضا وسط مدتی انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے، تخمینہ ہے یہ وسط مدتی انتخابات اکتوبر/ نومبر میں ہو سکتے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے تو انتخابی مہم شروع کر دی ہے مسلم لیگ کی انتخابی تیاریوں کا اندازہ جہاں نواز شریف کے اندرون ملک دوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد او ر اس میں اعلانات سے کیا جا سکتا ہے وہیں پی پی نے بھی ایک مرتبہ پھر پنجاب کی انتخابی طاقت کو تسلیم کیا ہے اور آصف زرداری نے پنجاب میں ڈیرے ڈال دیے ہیں، لیکن آصف زرداری کو پنجاب اور نواز شریف کو سندھ میں وہ پذیرائی نہیں مل رہی جو مطلوب ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف اپنے دروہ ٹھٹھہ سے تو مطمئن ہیں، لیکن حیدرآباد میں ایک ایسے بنگلہ کی مکین کے مہمان بننے پر جہاں مرکزی دروازے پر پی پی کا ترنگا لہرا رہا ہے عدم اطمینان کا شکار ہیں پھر حیدرآباد میں کسی قد آور شخصیت سے ملاقات ہی نہیں ہوئی سردار ممتاز بھٹو نے بہت واضح انداز میں کہا کہ وہ اپنے مرحوم دوست کے بنگلہ پر دوست کی بیٹی کی دعوت پر آئے ہیں، نواز شریف سے ملاقات رسمی ہے اورسیاسی راہیں جداہیں، لیکن دوسری جانب نواز شریف کو اس دورے کے دوران سندھ کی ایک قدآور سیاسی شخصیت سے محروم ہونا پڑا ہے، محمد اسماعیل راہو اس دورے تک نہ صرف مسلم لیگ سندھ کے صدر تھے، بلکہ نواز شریف کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے کہ سلیم ضیائ، نہال ہاشمی سمیت قدیم مسلم لیگی شخصیات کی موجودگی میں صوبائی صدارت کا تاج اسماعیل راہو کے سرسجا تھا، لیکن نئی صف بندی میںا سماعیل راہو سندھ کی وڈیرہ سیاست کو سمجھتے ہوئے کہ بد ین میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی پارٹی میں عدم موجودگی سے ان کے لیے پی پی میں سارے راستے کھلے ہوئے ہےں، مسلم لیگ (ن) سندھ کے نئے صدر سرفراز جتوئی سیاسی حلقوں میں نووارد تو نہیں، لیکن معروف بھی نہیں یہاں تک کہ اب تک ان کا اپنے حلقہ انتخاب کا علم بھی بہت سوں کو نہیں، سندھ میں جہاں پی پی مہروں کو سوچ سمجھ کر آگے بڑھا رہی ہے، وہیں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے، تحریک انصاف کے لیے الیکشن کمیشن نے ایک نئی الجھن پیدا کر دی ہے کہ انٹراپارٹی الیکشن نہ کرانے پر پارٹی کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی ہے ،اگر کپتان نے فوری انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائے اوران میں شفافیت کو برقرار نہ رکھا جیسا کہ گزشتہ انٹراپارٹی الیکشن میں ہوا تھا تو کپتان کی بلے بازی تو رہی دور کی بات ٹیم کو میدان میں بھی نہ اتار سکیں گے، سندھ میں آئندہ انتخابات کے سلسلہ میں پاک سرزمین پارٹی نے بھی تیاریاں شروع کر دی ہیں ابتدائی ایام میں پی ایس پی کی قیادت کی نظریں ایم کیو ایم کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی پر تھیں، لیکن اسے اندازہ ہو گیا کہ اگرسندھ میں ایم کیو ایم کا مقابلہ کرنا ہے توگراس روٹ لیول کی انتخابی ٹیم تیار کرنا ہو گی، اس کے بعد سے ان کے رابطوں کا رخ سیکٹر اور یونٹ کی جانب ہوا ہے، یہ سیکٹر اور یونٹ کے ذمہ داری ہیں تو پولنگ اسٹیشنوں سے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے ماہر ہیں ان کے پی ایس پی کی لانڈری میں ڈرائی کلین ہونے کے مواقع بھی بہت ہیں یوں انتخابی میدان میں اندرون سندھ پی پی موجود نظر آتی ہے کہ مقابل کوئی ہے ہی نہیں قوم پرستوں کے پرتوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہیں کہ گننا بھی آسان نہیں، پھر ان قوم پرستوں کی اکثریت بھی وفاق کی سیاست کی حامل ہے، یوں پی پی کی پوزیشن مضبوط ہو جاتی ہے اصل مقابلہ شہری سندھ میں ہے جہاں کے بے تاج بادشاہوں کو پی ایس پی ،پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا چیلنج درپیش ہے جماعت اسلامی کی اندرون سندھ تو گرفت نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن گزشتہ مختصر عرصہ میں کراچی میں جس طرح تحرک پیدا کیا ہے وہ عوام کے دل کی آواز ہے، اگر پی ایس پی ،پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کسی انتخابی اتحاد کی جانب بڑھ پاتی ہیں تو ایم کیو ایم پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں، اس طرح انتخابی مرحلہ ہی وہ وقت ہو گا جب ایم کیو ایم پاکستان اور لندن کے تعلقات کی نوعیت کھل کر سامنے آ سکے گی کہ یہ نورا کشتی ہے یا اصل جھگڑا اور عوام ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ہیں یا ” بانی” کے ساتھ۔
٭٭….٭٭