رضا ربانی کی ناراضی دور کرنا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے
شیئر کریں
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے گزشتہ روز سینیٹ سے وزراءکی مسلسل عدم موجودگی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پہلے تو مستعفی ہونے کی پیشکش کی اور بعدازاں پروٹوکول کے بغیر گھر روانہ ہوگئے۔سینیٹ کے اجلاس میں وزراءکی عدم موجودگی پر وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزراءکی عدم موجودگی پر اپوزیشن نے تو بائیکاٹ کیا ہی، لیکن چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی حکومت پر برہم ہوگئے اور مستعفی ہونے کی پیشکش کردی۔چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ حکومتی رویہ درست نہیں، جب تک سنجیدگی اختیار نہیں کی جائے گی معاملات آگے نہیں بڑھیں گے۔جس کے بعد حکومتی اور اپوزیشن ارکان چیئرمین سینیٹ کو منانے کے لیے ان کے چیمبر میں گئے، لیکن قائد ایوان راجا ظفر الحق، وزیر قانون زاہد حامد، شیخ آفتاب، عابد شیر علی، نزہت صادق، محسن لغاری، اعظم سواتی اور الیاس بلور بھی چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو مستعفی ہونے کی پیشکش واپس لینے پر رضامند نہ کرسکے۔ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ نے کام کرنا بند کردیا ہے، انہوں نے پارلیمنٹ ہاو¿س سے گھر جانے کے لیے ذاتی گاڑی منگوالی اور پروٹوکول بھی واپس کردیا، تاہم سینیٹ کے سیکریٹری کی درخواست پر وہ سرکاری گاڑی میں گھر کے لیے روانہ ہوئے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ نے اپنا دورہ ایران بھی منسوخ کردیا ہے۔میاں رضا ربانی نے سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا یہ فیصلہ اچانک نہیں کیاہے بلکہ وہ کافی عرصے سے وزرا کے رویے سے نالاں تھے اور اس پر اپنی برہمی کااظہار کرتے رہے تھے، لیکن وزراءنے ان کی اس برہمی کا نہ تو نوٹس لیا اور نہ ہی اپنی روش تبدیل کی ،جس پر رضاربانی کے صبر کاپیمانہ لبریز ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
جہاں تک میاں رضا ربانی کا تعلق ہے تو ان کے مخالفین بھی ان کی دیانتداری اور اصول پسندی کے قائل ہیں یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے سینیٹ کے چیئرمین کے لےے ان کانام پیش کیا تو کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی، جہاںتک سینیٹ کی چیئرمین شپ کا تعلق ہے تو حالات وواقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ منصب کبھی بھی میاں رضاربانی کے پیش نظر نہیں رہا، ان کی سیاست کا محور کبھی کسی بڑی کرسی کا حصول نہیں رہا ،اگر ایسا نہ ہوتا تومیاں رضا ربانی چھ برس قبل ہی اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی گڈ بک میں شامل ہوکرسینیٹ کے چیئرمین بن جاتے، اگرچہ اطلاعات کے مطابق اب بھی وہ آصف زرداری کے لیے بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں تھے، مگر آصف علی زرداری نے رضا ربانی کو سینیٹ کے لےے چیئرمین کے لیے متفقہ امیدوار کے طور پر نامزد یہ جانتے ہوئے کیا کہ حکمران مسلم لیگ نواز کے لیے رضا ربانی جیسی ساکھ رکھنے والے ایک سیاستدان کی نامزدگی کی مخالفت مشکل ہوجائے گی۔رضا ربانی اور عام عوام کے لیے یہ شریک چیئرمین کی جانب سے ایک اور کامیابی کا تمغہ اپنے سینے پر سجانا ہے، مگر آصف زرداری کے لیے یہ ایک پتھر سے دو پرندوں سے شکار کرنا ہے۔ان کا بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب یقیناً اپوزیشن پی پی پی کے لیے ایک کامیابی ہے اور آصف زرداری کی سیاسی فراست کا ایک اور ثبوت ہے، کیونکہ اس طرح انہوں نے ایوان بالا میں مسلسل تیسری مدت کے لیے بھی اپنا کنٹرول بحال رکھنے میں کامیابی حاصل کی،مگر اس سے ہٹ کر بھی آصف زرداری کو ایک اور فائدہ بھی ہوا ، رضا ربانی پی پی پی کے ان پرانے محافظوں میں سے ایک ہیں جنھیں 27 دسمبر 2007 کے بعد بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری اور ان کی مفاہمتی سیاست کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔وہ پی پی پی کی کور کمیٹی کے اجلاسوں میں باآواز بلند اپنے موقف کا اظہار کرتے خاص طور پر آصف زرداری کے صدر مملکت بن جانے کے بعد اور ان کے مخصوص معاملات میں پارٹی قیادت کے خلاف باغیانہ خیالات سامنے آتے رہے جن میں 21 ویں آئینی ترمیم کی حمایت کا معاملہ بھی شامل ہے جس کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دی گئی۔لاہور میں پیدائش اور کراچی میں پلنے بڑھنے والے 61 سالہ رضا ربانی 1993 کے بعد سے 6 بار سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں، وہ بے نظیر بھٹو کے ایک قریبی ساتھی تھے جنہوں نے انہیں 1997 میں پارٹی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور 2005 میں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تعینات کیا۔بااصول اور پاکستانی سیاست کے ” مسٹر کلین” کے طور معروف رضا ربانی کے بے نظیر بھٹو سے بھی 2007 میں اختلافات ہوگئے تھے، جب پی پی چیئرپرسن نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سے قومی مفاہمتی آرڈیننس پر ایک ڈیل کرلی تھی، اس وقت رضا ربانی کا اصرار تھا کہ یہ میثاق جمہوریت کی روح کے خلاف ہے جس پر پی پی پی اور نواز لیگ نے دستخط کیے تھے۔وہ نہ صرف فوجی آمریت کے سخت مخالف ہیں بلکہ سویلین امور میں فوج کے کسی قسم کے کردار کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور وہ آمریت کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور جمہوریت کی بحالی کے لےے قائم ہونے والے اتحاد کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرچکے ہیں۔ انہوں نے ابتداءمیں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کا حصہ بننے سے صرف اس وجہ سے انکار کردیا تھا،کیونکہ وہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف سے حلف نہیں لینا چاہتے تھے۔پیپلزپارٹی نے انہیں سینیٹ میں قائد ایوان بنادیا اور پرویز مشرف کی روانگی کے بعد وہ بین الصوبائی رابطوں کے وفاقی وزیر بن گئے۔مگر مارچ 2009 میں آصف علی زرداری نے اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک کو منتخب کرتے ہوئے سینیٹ کے چیئرمین کے لیے نامزد کردیا جس کے بعد شکستہ دل رضا ربانی کابینہ اور سینیٹ میں قائد ایوان کے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔تین ماہ بعد آئینی، قانونی اور پارلیمانی امور میں مہارت رکھنے والے رضا ربانی کو آئینی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین بنادیا گیا، اس کمیٹی کی سفارشات کے نتیجے میں 2010 میں 18 ویں آئینی ترمیم وجود میں آئی۔اس ترمیم کی منظوری کے بعد وہ اس کی عملدرآمد کے حوالے سے قائم کمیشن کے چیئرمین بن گئے۔انہیں ایک بار پھر وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا، مگر وہ مئی 2011 میں آصف زرداری کی جانب سے مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے کے فیصلے کے خلاف احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔مہنگے سگاروں سے محبت کے حوالے سے معروف رضا ربانی نجکاری اور ڈاﺅن سائزنگ کے خلاف موقف کی بناپر ملک کے مزدور طبقے میں بہت زیادہ قابل احترام سمجھے جاتے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی میاں عطا ربانی کے صاحبزادے رضا ربانی نے کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں اور 70کی دہائی میں پی پی پی اسٹوڈنٹ ونگ سے منسلک رہے، جبکہ ضیاءدور میں جمہوریت کے لیے جدوجہد پر جیل بھی کاٹی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے قانون کی پریکٹس شروع کردی اور پیپلزلائرز فارم کراچی اور بعد میں سندھ کے صدر منتخب ہوئے۔وہ 1988 میں وزیراعلیٰ کے مشیر بھی رہے، جبکہ پہلی بار 1993 میں سینیٹر بنے جس کے بعد انہیں وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بھی مقرر کیا گیا۔اپنے پارلیمانی کام پر انہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا، جبکہ وہ دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
میاں رضاربانی کے بارے میں اس طویل تمہید کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ اگر میاں رضاربانی واقعی اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتے ہیں اور وزیر اعظم یا صدر مملکت خود اس معاملے میں مداخلت کرکے ان کی شکایات دور کرنے کاوعدہ کرکے انھیں اپنا ارادہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو یہ ہمارے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے اور بحیثیت مجموعی اس ملک کی بدقسمتی ہوگی، جو اس دور میں ایک بااصول سیاستداں کی خدمات سے محروم ہوجائے گا ،اور ملک کے اس اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے کو اپنی صفوں میں ان کاکوئی بدل نہیں مل سکے گا۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اس معاملے پر ذاتی توجہ دیں گے اور میاں رضاربانی کی شکایات کا ازالہ کرنے کے لےے وزراءکو ایوان میں حاضری کاپابند بنانے کے لےے ضروری احکامات جاری کریں گے۔