گوادر کے بغض میں بھارتی تخریبی عزائم
شیئر کریں
شہزاد احمد
چینی اخبار’’گلوبل ٹائمز‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ گوادر پورٹ کے بغض میں بھارت ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو اپ گریڈ کرنا چاہتا ہے ۔ بھارت اس منصوبے کی آڑ میں اپنے دفاعی مقاصد پورے کررہا ہے اور خطے سمیت وسطی ایشیاء تک اپنا اثر و نفوذ بڑھانا چاہتا ہے۔ بھارت ایران کو اپنے منفی عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہا ہے اور پاکستان اور چین کے ترقیاتی منصوبوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
اخبارنے اپنے مضمون میں بھارت کی جانب سے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو توسیع دینے کے اعلان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس بندرگاہ کی تعمیر کے حوالے سے بھارت کے عزائم تعمیری نہیں تخریبی ہیں۔اخبار نے لکھا ہے کہ بھارت نے حال ہی میں ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی توسیع کے لیے چار سو ملین ڈالر کی خطیر رقم کی فراہمی کا اعلان کیا ہے۔بھارت نے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔اگرچہ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ علاقائی تجارت کے فروغ،اقتصادی ترقی ،قدرتی گیس کی فراہمی اور دیگر مقاصد کے لیے اس بندرگاہ کو توسیع دینا چاہتا ہے لیکن اصل میں بھارت کے مقاصد دفاعی اور خطے پر اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے ہیں۔وہ اس منصوبے کی آڑ میں پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبے گوادر بندرگاہ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ بھارت کی جانب سے چاہ بہار بندرگاہ میں دلچسپی گوادر بندرگاہ کے بغض کے باعث ہے۔
بھارت نے پاکستان کو بائی پاس کرنے کے لیے چاہ بہار بندرگاہ کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بھارت ایران اور افغانستان کے ساتھ اپنے بہتر تعلقات کا فائدہ اٹھا کر خطے میں اپنا اثر رسوخ بڑھا رہا ہے اور پاکستان کو کارنر کرنے کے چکر میں ہے۔ایران نے کبھی بھی عوامی سطح پر گوادر بندرگاہ کی مخالفت نہیں کی وہ اس منصوبے کو خطے میں تازہ پانی اور ایندھن کی فراہمی کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔لہذا بھارت کی ایران پر زیادہ توقعات اس کی مایوسی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ایران چین کی موجودگی میں بھارت کے جیو اسٹریٹجک اہداف کے حصول کا حصہ نہیں بن سکتا۔
بھارتی میڈیا جو ہمیشہ پاکستان مخالفت میں اپنی حکومت کی پالیسیوں کے ساتھ چلتا ہے۔ اس میں چاہ بہار بندر گا کے حوالے ایک نیا جوش اور ولولہ دکھائی دے رہا ہے اور ساتھ ہی گوادر بندرگاہ منصوبے پر تنقید کے تیر چلا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا اس معاملے پر کافی شورمچا رہا ہے کہ بھارت نے بندرگاہ بنائی ہے جو گوادر پورٹ سے 75کلو میٹر دوری پر چاہ بہار میں ہے اور بھارت نے آفر کی ہے کہ آپ افغانستان اور پاکستان کو چھوڑیں۔ بائی پاس کریںاور آپ سنٹرل ایشیاء اور روس سے سیدھا آئیں ایران میں اور ایران سے چاہ بہار کی بندرگاہ میں اور پھر یہاں سے آپ عربیہ ٹریڈ کریں۔ایشیاء میں ٹریڈ کریں، افریقہ میں ٹریڈ کریں۔
اسکا مطلب ہندوستان نے 75فیصد لوگوں تک رسائی کا سادہ اور محفوظ راستہ دے دیا۔لیکن یہ حقیقت ہے چاہ بہار کی بندر گاہ 11میٹر سے گہری نہیں ہے اور 11میٹر گہری بندر گاہ کے اندر بڑے کنٹینر اور بحری جہاز آکر رک ہی نہیں سکتے لنگر انداز نہیں ہوسکتے۔ یہاں دوہزار ٹن سے لیکر ڈھائی ہزار ٹن تک بحری جہاز لنگرانداز ہوسکتے ہیں۔ اسکے علاوہ چاہ بہار کی بندرگاہ کی برتھوںپر ایک ٹائم میں منفرد قسم کے جہاز وں کے لنگر انداز ہونے کی گنجائش نہیں ہے جب وہ آہی نہیں سکتے تو ٹریڈ کا کیا سوال ہے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ یہاں ٹریڈ ہوسکے۔ تو بھارت جو ایران کو بندر گاہ بنا کردے رہا ہے اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارتی فوج افغانستان میں ہے اور بھارت اپنا فوجی حجم( تعداد)کو بڑھانا چاہتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے ایک اور چال چلی۔ گوادر اور سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں حائل کرنے کے لیے بھارت کا ایک اور منصوبہ سامنے آیا ہے جس کے تحت سی پیک روٹ، گوادر کے ذریعے ہونے والی تمام تجارت، اس سے نکلنے والے تمام تجارتی جہازوں، پاکستانی اور چینی بحریہ پر چیک رکھنے اور گوادر پورٹ کی اہمیت ختم کرنے کے لیے بحیرہ عرب میں دو نئے سمندری پورٹ بنائے جائیں جن پر بھارت کا کنٹرول اور اثر ورسوخ ہوگا۔
حال ہی میں بھارتی وزیراعظم مودی اور اومان کے سلطان قابوص کے مابین ایک ایم او یو پر دستخط کیے گئے جس کے تحت اومان کی سمندری بندرگاہ دکم پر بھارتی بحریہ کے جہازوں کو فری آف کاسٹ تیل بدلوانے اور لنگر انداز ہونے کی اجازت ہوگی جس سے بحیرہ عرب کے اس علاقے میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا۔ اس کے علاوہ بھارت اس ایم او یو کے دستخط ہونے کے بعد اس کو ایک معاہدے میں بدلنے کی کوشش تیز کردے گا جس کے تحت بھارت اومان کی اس بندرگاہ دکم کو نہ صرف ترقی دے گا بلکہ مستقبل میں اومان سے اس کا کنٹرو لینے کے لیے بات چیت بھی کرے گا اور اس معاہدے کی روشنی میں پہلے مرحلے پر بھارتی بحریہ اس پورٹ کو استعمال کرے گی اور دوسرے مرحلے میں اس پورٹ کا کنٹرول حاصل کرے گی۔
گوادر سے دکم کا فیصلہ 436 میل ہے۔ اس خوفناک بھارتی منصوبے کا انکشاف ہو اہے کہ ان دونوں بندرگاہوں کو بھارت نہ صرف گوادر پورٹ کو ناکام کرنے کے لیے استعمال کرے گا بلکہ گوادر پورٹ پر آنے والے تجارتی جہازوں، ان کی آمدورفت کے علاوہ پاکستانی بحریہ اور چین کے جنگی جہازوں پر اس کی کڑی نظر ہوگی۔
بھارت کے بحری ماہرین نے اس سلسلے میں اپنی حکومت کو خبردار کیا تھا جب چند ماہ قبل پاکستانی چینی مشترکہ بحری مشقیں گوادر کے ساحلوں کے قریب ہوئی تھیں۔ اسی سلسلے میں اومانی بندرگاہ دکم کا معاہدہ اور اس سے قبل ایران میں چابہار پورٹ کو حاصل کرنا بھارت کی پاکستان دشمنی، گوادر پورٹ کو ناکام کرنے اوربحیرہ عرب کے اس حصے میں بھارتی بحریہ کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی ایک سازش کا واضح ثبوت ہے۔
حال ہی میں دوقم بندرگاہ پر بھارت کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گذشتہ سالبھارت نے عرب سندر کے مغرب میں اپنی آبدوزاسی بندرگاہ پر تعینات کی تھی۔ دوقم کی بندرگاہ عمان کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے۔
بھارت کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق بھارتی وزیر مملکت منیش تیواڑی نے کہاہے کہ ایک چیز جو ہمیں واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایران میں چاہ بہار بندرگاہ ایک کمرشل انٹرپرائز ہے جبکہ گوادر بندرگاہ چین کا ایک خطرناک اسٹرٹیجک اقدام ہے، اس لحاظ سے ان دونوں پروجیکٹ میں واضح فرق ہے۔ چین ایسے اقدامات کے ذریعے خطے میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ بھارت بھی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہوئے حالات کے مطابق اقدامات کے لیے سرگرم ہے۔