میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایک سال میں 3گنا اضافہ‘امریکا میں نسل پرست گروہوں کا جادوسرچڑھ کر بولنے لگا

ایک سال میں 3گنا اضافہ‘امریکا میں نسل پرست گروہوں کا جادوسرچڑھ کر بولنے لگا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۶ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

لیم اسٹیک /ڈینئل وکٹر
امریکا میں نسل پرستی کی بنیاد پر نفرتوں کاپرچار کرنے والے گروپ یوں تو ہمیشہ ہی سے سرگرم رہے ہیں ، یہ کبھی” اسکن ہیڈ “کے نام سے سامنے آتے ہیں اور کبھی ”لیو امریکا“ کے نام پر مہم چلاتے نظر آتے ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ان نسل پرست نفرت کے پرچارک گروپوں کی سرگرمیوں اورتعداد دونوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے،سدرن پاورٹی لا سینٹر کی رپورٹ کے مطابق نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران جس طرح تارکین اور خاص طورپر اسلام کو ہدف تنقید بنایا اور اپنی تقریروں میں امریکا میں بیروزگاری اور شدت پسندی کا سارا ملبہ، ساری ذمہ داری ان پر ڈالنے کی کوشش کی، اس سے نسل پرست گروپوں اور انتہائی دائیں بازو کے نفرت کے پرچارکوں کو شہ ملی اور ان کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ۔
رپورٹ میں کہاگیاہے کہ یوں تو امریکا میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا گروپ ہمیشہ ہی سے تارکین وطن اوریہاں تک کہ ملک کی سیاہ فام آبادی کے خلاف رہاہے اور موقع ملتے ہی ان کے خلاف کوئی نہ کوئی تخریبی کارروائی کر گزرتاہے ، جس میں مساجد کے سامنے یا مساجد کے دروازے پر خنزیر کا سر رکھ دینا، مساجد کو آگ لگانے کی کوشش ، مساجد پر اشتعال انگیز نعرے لکھنا جیسے قبیح عمل شامل ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اب وہ حکومت کو اپنی ان حرکتوں کاسرپرست تصور کرنے لگے ہیں۔
سینٹرکی سالانہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں برسر عمل مسلم دشمن یا مسلم مخالف گروپوں کی تعداد 2015ءمیں 34 تھی لیکن 2016ءمیں ان گروپوں کی تعداد بڑھ کر 101 ہوگئی،یعنی ان کی تعداد میں کم وبیش 3 گنا اضافہ ہوگیا ۔ان گروپوں کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگانے کی تجویز تھی،ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ءمیں شام کے پناہ گزینوں کے بحران اوراس کے بعدسان برنارڈینو اوراورلانڈو میں دہشت گردوں کے حملے کے واقعے کے بعد شامی پناہ گزینوں کو امریکا میں داخلے کی اجازت دینے کی مخالفت کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کامطالبہ کیاتھا اور کہا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پرپابندی عائد کردیں گے بلکہ امریکا میں موجود مسلمانوں کو اپنے آبائی وطن واپس بھجوا دیں گے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق2016ءمیں امریکا میں برسرعمل مسلم مخالف 101 گروپوں کے علاوہ پورے امریکا میں مجموعی طورپر 917 نسل پرست گروپ کام کررہے تھے جبکہ 2015ءمیں ان کی مجموعی تعداد 892 اور 2014ءمیں 784 تھی۔
رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ امریکا میں حکومت مخالف منظم گروپوں، جن میں مسلح انتہا پسند گروپ بھی شامل ہیں، کی تعداد میںکم وبیش 40 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے، ان کی تعداد2015 ئ میں 998 تھی جو 2016ءمیں کم ہوکر 628 رہ گئی تھی۔اس کمی کی وجوہات میں حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلیاں اور تارکین اور مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ جذبات کاپرچار شامل ہے۔سینٹر کے ایک بنیادی رکن مارک پوٹوک کاکہناہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب نے امریکا میں انتہا پسند دائیں بازو کے خیالات رکھنے والوں میں بجلی دوڑادی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کئی معاملات میں انتہا پسند دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے ہم خیال اور ہم نوا ہیں۔جس کی وجہ سے حکومت مخالف گروپوںکی سرگرمیوں میں کمی اور نسل پرستانہ اور نفرت پر مبنی گروپوں کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔پوٹوک کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں نفرت کے پرچارکوں اور انتہا پسند بائیں بازو کے گروپوں کو جس طرح بڑھاوا دیاہے امریکا کی تاریخ میں اس کی کوئی نذیر نہیں ملتی۔
پوٹوک کاکہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ہی تفرقہ ڈالنے والی باتوں سے کیاتھا۔ مثال کے طورپرجون2015 ءمیںانہوں نے اپنی تقریر میں میکسیکو سے تعلق رکھنے والے تارکین کو جرائم پیشہ اورزنا کار قرار دیاتھا۔اس کے بعد دسمبر میں اپنی تقریر میں انہوںنے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کے لیے مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگانے کی تجویز دی اور اس پر اصرار کیا۔جبکہ اس سے قبل جارج بش اور بارک اوباما یہ واضح اعلان کرچکے تھے کہ مٹھی بھر جہادی گروپ کے ارکان تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تقریروں اورٹوئٹر پیغامات میں مسلسل مختلف گروپوں کو نشانہ بناتے رہے اور اس طرح ان کا ہدف بننے والے گروپوں کی تعداد سیکڑوں سے بھی تجاوز کرگئی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے مختلف گروپوں کے خلاف اپنے خیالات اور جذبات کااظہار صرف اپنی تقریروں اور ٹوئٹس تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ ایسی امیجز ، خاکے اور دیگر اشیا بھی ٹوئٹر پر ڈالیں جن سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ یہودیوںکے خلاف بھی جذبات مشتعل ہوئے،اور سفید فاموں کی برتری کے خیالات اورجذبات میں اضافہ ہوا۔
اس حوالے سے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ ملک میں مختلف گروپوں اور کمیونیٹیز کے درمیان نفرتیں بونے میں مصروف ہیں بلکہ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کی بیٹی ایوانکا اور ان کاداماد جرید کشنیٹ قدامت پسند یہودی ہیں۔
ایف بی آئی کی 2015ءکی رپورٹ کے مطابق مسلم مخالف گروپوں کی تعداد میں 67 فیصد اضافہ ہوا جس کے ساتھ ہی مسلم مخالف جرائم میں بھی تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیاجارہاہے،ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 267 مسلم مخالف جرائم ریکارڈ کئے گئے،جو کہ 2001ءکے مقابلے میں سب سے زیادہ تھے۔ٹرمپ کے انتخاب کے بعد پہلے 10 دن کے دوران مسلم مخالف 867 جرائم ریکارڈ کئے گئے جن میں 300 سے زیادہ میں براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیاتھا۔
ایف بی آئی کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ نفرت انگیز جرائم کی تعداد میں حالیہ برسوں کے دوران نمایاں اضافہ ہواہے۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ نسلی اورمذہبی اقلیتوں کے خلاف 2015 ءکے دوران مجموعی طورپر 5 ہزار818 جرائم ریکارڈ کئے گئے جس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب سے امریکا میں نسل پرستی کو بڑھاوا ملا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں