میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انسان کی پہلی اڑان کا تاریخی تجربہ

انسان کی پہلی اڑان کا تاریخی تجربہ

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۶ فروری ۲۰۲۵

شیئر کریں

ڈاکٹر جمشید نظر

دبئی میں ابن بطوطہ نام سے ایک شاپنگ مال بہت مشہور ہے یہ مال مشہور سیاح ابن بطوطہ کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے 14ویں صدی میں دنیا بھر کا سفر کیا۔مال کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو ابن بطوطہ کے سفر کے دوران مختلف ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں۔اسی شاپنگ مال کی چھت پر ایک انسان کا پرندوں کے پروں کے ساتھ فضاء میں اڑتے ہوئے ماڈل لٹکایا گیا ہے۔مال میں آنے والے سیاح اس ماڈل کو دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ یہ ماڈل انسان کی پہلی پرواز سے منسوب ہے لیکن اکثریت یہ بات نہیں جانتی کہ اس ماڈل کاابن بطوطہ سے کیا تعلق ہے دراصل یہ ماڈل مسلمان سائنس دان عباس قاسم ابن فرناس کا ہے جنھوں نے فضاء میں اڑنے کاکامیاب تجربہ کیا ۔عباس ابن فرناس ہسپانیہ کے صوبہ قرطبہ میں رہتے تھے اسی بناء پر ان کا ماڈل دوبئی قرطبہ مال میں لٹکایا گیا ہے جسے دیکھ کر ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے عباس ابن فرناس ہوا میں اڑ رہے ہیں۔ان کی ایجاد کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔
خلیفہ عبد الرحمان دوئم کے دور 852ء میں ایک بہادر شخص جس کا نام ارمن فرمن تھا نے اعلان کیا کہ وہ پرندوں کی طرح فضاء میں اڑ کر دکھائے گااس دعوی پر اس نے لوگوں سے شرط بھی لگائی۔چناچہ مقررہ دن ارمن نے پرندوں کے پروں کی طرح ایک بڑی سی چادرلی اور قرطبہ کی ایک اونچی عمارت سے چھلانگ لگاکراڑنے کی کوشش کا مظاہرہ کیاتو نیچے گر گیا خوش قسمتی سے اسے معمولی چوٹیں آئیں اور وہ زندہ بچ گیا۔ارمن فرمن کا تجربہ دیکھنے والوں میں عباس ابن فرناس بھی شامل تھااس نے تہیہ کیا کہ وہ فضاء میں اڑ کر دکھائے گا چناچہ اس نے انسانی اڑان پر تجربات کرنا شروع کر دئیے ، وہ ہر وقت پرندوں کو محو پرواز دیکھتارہتا اور ان کے اڑنے کی تکنیک کو سمجھنے لگا۔کئی برس پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ایروڈائنامیکس کا بغور مطالعہ کرنے کے بعدایک دن اس نے اعلان کیا کہ انسان بھی پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے۔عباس ابن فرناس نے یہ دعوی ارمن فرمن کے تجربہ کے تئیس سال بعد کیا تھا جس پرلوگوں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کردیا کیونکہ ارمن بھی اڑنے کا دعوی کرکے ناکام ہوچکا تھا۔عباس ابن فرناس نے اپنی تھیوری کا عملی مظاہرہ بذات خود کرنے کا اعلان کر دیا۔اس نے پرندوں جیسے دو”پر” سائز میں اپنے وزن کے مطابق تیار کیے اور ان کے فریم ریشم کے کپڑے سے منڈھ دیے اور پھر قرطبہ سے دو میل دور شمال مغرب میں ایک پہاڑی پر چڑھ کر دونوں” پر” اپنے جسم کے ساتھ باندھ لیے۔اس کا تجربہ دیکھنے کے لئے کئی سوتماشائی اکٹھے ہوگئے اورچہ میگوئیاں کرنے لگے کہ اڑنے کے چکر میں پاگل سائنس دان کی ہڈیاں تک سلامت نہیں بچیں گی۔ ابن فرناس نے اڑنے سے قبل تماشائیوں کی جانب ایک نظر دیکھا اور پھر پروں کو لہراتے ہوئے پہاڑی سے چھلانگ لگا دی۔روایات کے مطابق وہ اپنے پروں کی مدد سے ہوا میں دس منٹ تک اڑتا رہا اورپھر پہاڑ سے کچھ فاصلے پر ایک میدان میںاتر گیا۔ زمین پر لینڈنگ کرتے وقت ہوا کے دباو کی وجہ سے اس کی کمر تھوڑی بہت متاثر ہوئی کیونکہ اس کی عمر اس وقت 68سال کے لگ بھگ تھی۔ اس طرح وہ انسانی تاریخ کا ہوا میں اڑنے والا پہلاانسان بن گیااس کی ایجاد آج ہوائی جہاز کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
عباس ابن فرناس نے لینڈنگ کے حوالے سے اپنے تجربہ پر غوروغوص کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ پرندے لینڈنگ کرتے وقت اپنی دم کی جڑ کا سہارا لیتے ہیںاگر اس کے فریم میں دم لگی ہوتی تو اس کی مدد سے وہ باآسانی لینڈنگ کرسکتا تھا۔قدامت پرستوںنے اس کی چوٹ کی وجہ سے معذوری پر کہنا شروع کردیا کہ خدا نے اس کو سزا دی ہے کیونکہ اس نے فانی انسان ہوتے ہوئے خدا کی دوسری مخلوق کی طرح بلندی پر جانا چاہا ۔عباس ابن فرناس کو یہ طعنے مرتے دم تک ملتے رہے لیکن اس نے اپنے تجربات نہ چھوڑے ۔ اس نے شیشے اور مشینوں سے ایک ایسا پلانیٹیرئم بنایا جس میں بیٹھ کر لوگ ستاروں اور بادلوں کی حرکت اور ان کی گرج چمک کا مشاہدہ کرسکتے تھے اس نے ریت سے بلور اور پانی کی گھڑی ایجاد کی اور کرسٹل بنانے کا فارمولا بنایا۔عباس ابن فرناس کی ایجاد پر اس کے نام سے چاند کے ایک گڑھے کا نام بھی رکھا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں