عالمی عدالت ِ انصاف :سرکس کا وہ شیر
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے 13فروری کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے زیر حراست 3 اسرائیلی قیدی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ یہ تینوں قیدی ان آٹھ قیدیوں میں شامل تھے جو گذشتہ دنوں اسرائیلی بمباری میں شدید زخمی ہوگئے تھے ۔ دو روز قبل القسام نے جو بیان جاری کیا تھا اس کے مطابق پچھلے 96 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج کی لگاتار بمباری نے 2 اسرائیلی قیدی ہلاک ہوئے اور 8 دیگر زخمی ہوگئے ۔اس طرح جملہ پانچ قیدیوں کو اسرائیل نے اپنی بمباری سے ہلاک کردیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر قیدیوں کو چھڑانے کے لیے زبردست دباو ہے ، ایسا لگتا ہے کہ ان کی حکمت عملی اب یہ ہے اگر قیدی چھڑائے نہیں جا سکتے تو انہیں مارڈالو تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ اس بیچ یہ خبر بھی آئی کہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹے حازم ہنیہ اسرائیلی فوج کے ایک فضائی حملے میں شہید ہوگئے ۔ صیہونی حکومت کے لڑاکا طیاروں نے غزہ میں ایک گھر کو نشانہ بنایا جس سے عمارت مکمل طور پر تبا ہوگئی۔مقامی میڈیا کے مطابق ممکنہ طور پر اس عمارت میں حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے کچھ افراد مقیم تھے ۔ان میں اسماعیل ہنیہ کے بیٹے حازم ہنیہ کی غیر مصدقہ اطلاع ہے ۔
حازم ہنیہ کی عمر محض 22 سال تھی اور وہ کالج کے طالب علم تھے ۔ 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی غزہ جنگ میں حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے 14 افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ فی الحال ملک سے باہر ہیں وہ چاہتے تو اپنے اہل خانہ کو ساتھ رکھ سکتے تھے لیکن یہ بات انہوں نے گوارہ نہیں کی اور اپنے خاندان والوں کی شہادت کا نذرانہ پیش کرکے دنیا والوں کو بتا دیا کہ اسلامی قیادت کیسی ہوتی ہے ؟ فلسطین میں غزہ پر اسرائیل کی مسلط کی گئی وحشیانہ جنگ اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف یورپی ممالک میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جن میں جنگ کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔جرمن دارالحکومت برلن میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور دوسرے شہروں کے مظاہرین کی شرکت کے ساتھ 3 بڑے مظاہرے ہوئے ۔پیرس میں ایک زبردست مظاہرہ پیلس ڈی لا ریپبلک سے شروع ہوا اور پیلس ڈی لا نیشن کی طرف ایک جلوس کی شکل میں گیا۔ ہالینڈ کے شہر یوٹریکٹ میں بھی درجنوں افراد نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ جاری رکھنے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ آسٹریا کے دارالحکومت، سویڈن کے شہر مالمو اور آرہس، ڈنمارک میں مظاہرے ہوئے لیکن ان کا اقوام متحدہ یا عالمی عدالت پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔
شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے لیکن وہی سرکس میں جوکر کے سنگ شائقین کا دل بہلاتا ہے ۔ عالمی عدالت انصاف کا یہی حال ہے جس نے بالآخر اسرائیل کو یہ حکم دے ہی دیا کہ وہ غزہ میں نسل کشی روکنے ، نسل کشی پر براہ راست اکسانے کا عمل روکنے اور اس ضمن میں سزا دینے کے لیے اقدامات کرے لیکن جوکر کے حکم پر عمل نہیں ہوتا بلکہ قہقہہ لگایا جاتا ہے ۔ یہ نہایت مضحکہ خیزاور دلچسپ فیصلہ ہے کہ جس میں مجرم سے خود کو سزا دینے کے لیے کہا جارہا ہے ۔ وہ مجرم بھی اتنا ڈھیٹ ہے کہ اس نے پہلے تو مقدمہ مسترد کرنے کی درخواست کی اور جب بات نہیں بنی تو پیشگی اعلان کردیا کہ وہ عدالت کے فیصلوں کا پابند نہیں ہے ۔ اس کا معطلب ہے اسرائیلی حکمرانوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ عدالت کا فیصلہ ان کے خلاف ہوگا۔ اسی کو چور کی داڑھی میں تنکا کہتے ہیں۔ نیدرلینڈ کے شہر دا ہیگ میں واقع آئی سی جی نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقدمے میں فوری اقدامات پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پر عالمی سطح کی قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بینچ کی کرسیٔ صدارت پرفائز امریکی جج جون ای ڈوناہیو نے غزہ میں جاری انسانی جانوں کے ضیاع پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست ٹھکرا تے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت کے پاس اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی کے مقدمے میں ہنگامی اقدامات کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیارہے ۔ یہ دعویٰ تو درست ہے مگر چونکہ فیصلے نافذ کروانے کی سکت نہیں ہے اس لیے ان کا ہونا یا نہ ہونا بے معنیٰ ہے ۔ویسے اسرائیل جیسی سفاک ریاست پر تو علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے
پھُول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اس صدی کے سب سے بڑے مقدمے کی سماعت 11 جنوری کو شروع ہوئی ۔پہلے مدعی جنوبی افریقہ کے نمائندوں کو اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع دیا گیا اور اگلے دن مدعا الیہ اسرائیل کو جواب دینے کے لیے کہا گیا ۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز نہیں بن سکتی ۔جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف رونالڈ لامولا کی دلیل یہ تھی کہ: ‘کہیں پر کوئی مسلح حملہ چاہے جتنا سنگین کیوں نہ ہو، کنونشن کی خلاف ورزیوں کا نہ جواز فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے ۔ان کے مطابق ‘سات اکتوبر کے حملے پر اسرائیل کا ردعمل نسل کشی کے حوالے سے کنونشن کی خلاف ورزی ہے ۔جنوبی افریقہ کی وکیل عدیلہ ہاشم نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسرائیل کی بمباری کا مقصد ‘فلسطینیوں کی زندگی کو تباہ کرنا’ ہے اور اس نے انہیں ‘قحط کے دہانے پر’دھکیل دیا ہے ۔جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے طرز عمل ، ارادوں اور کارروائیوں کو نسل کشی کا مترادف بتایا کیونکہ کنونشن کے مطابق ایسا عمل نسل کشی قرار پاتا ہے جس کا "ارتکاب کسی قومی، نسلی، ثقافتی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کیا گیا ہو”۔جنوبی افریقہ نے الزام لگایا کہ اسرائیل کے اقدامات نسل کشی پر مبنی ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنا ہے ۔
ان سنگین الزامات کے جواب میں اسرائیلی وکلا نے اپنی مضحکہ خیز منطق سے غزہ میں ہلاکتوں کے لیے الٹا حماس کو ہی ذمہ دارٹھہرا دیا ۔ اسرائیل نے اپنا حق دفاع کا راگ چھیڑنے کے بعد حماس پر اسپتالوں اور دیگر شہری مقامات کو استعمال کر نے کا بے تکا الزام لگا یا۔جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل کے وکلا نے اپنے موکل کی کارروائیوں کے نسل کشی ہونے سے انکار کے بعد نہ صرف جنوبی افریقہ کی درخواست رد کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار پر بھی سوال اٹھائے ۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر ٹال بیکر نے آئی سی جے میں جنوبی افریقہ کے مؤقف کو بالکل بے بنیاد ، انتہائی مسخ شدہ اور بدخواہی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس حقیقت کا انکار کردیا کہ وہ
فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اسرائیل کی ڈھٹائی کا بنیادی سبب اس کے اتحادی امریکہ کا اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرکے عالمی عدالت میں مضبوط دفاع کا عزم ظاہر کرنا ہے ۔
اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر نے اس دوران غیر وابستہ ممالک کی تحریک کے 120 رکن ممالک سے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل سے قراردادیں منظور ہونے کے بعد بھی جنگ بندی کا ہونا مشکل ہے ۔ اسرائیل فلسطینیوں کے نسلی امتیاز کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ وہ اسرائیل کے استعماری قبضے میں ہیں اور اپنے لوگوں کی نسل کشی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی عدالت برائے انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ لڑنے پر جنوبی افریقہ کا شکر یہ ادا کیا ۔ اس کے برعکس اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے عالمی عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت کے کسی فیصلے کے بعد بھی باز نہیں آئے گا، غزہ میں جنگ جاری رکھی جائے گی۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ جب تک اسرائیل حماس کو ختم یا شکست نہیں دے دیتا اس وقت تک دنیا کی کوئی عدالت، شیطانی چکر یا کچھ اور، انہیں نہیں روک سکتا۔یاہو نے درست کہا کیونکہ ابلیس کے پیروکار یہی سمجھتے ہیں کہ ان کو روکنا ناممکن ہے لیکن یہی کبر وغرور انہیں تباہو برباد کردیتا ہے ۔عالمی عدالتِ انصاف سے جہاں ایک طرف کافی امیدیں وابستہ کی گئی ہیں وہیں یک گونہ مایوسی بھی پائی جاتی ہے ایسے میں اس کا مقصد اور طریقۂ کار سے متعلق معلومات ضروری ہے ۔یہ اقوام متحدہ کے ٦ بنیادی اداروں جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، معاشی و سماجی کونسل ، تولیتی کونسل اور سیکرٹریٹ میں سے ایک ہے ۔ اس کا دفتر نیویارک سے باہر نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ کے اندر واقع قصرِ امن میں ہے ۔ 1945 میں مختلف ممالک کے مابین تنازعات کے تصفیے کی غرض سے اس کو قائم کیا گیا تھا تاکہ اس سے قانونی سوالات پر مشاورتی رائے لے کر اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کو بھیجا جائے یعنی عام طورپر اس کے فیصلوں کی حیثیت مشورے سے زیادہ نہیں ہے ۔ ایک یا اس سے زیادہ ممالک کی درخواست پروہ کسی تنازع کی سماعت کرتی ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نو سالہ مدت کے لیے اس کے 15 ججوں کا تقرر کرتی ہیں۔ یہ خودمختار جج اپنی حکومتوں کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ آزادانہ حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ساری دنیا کو امید تھی اس کے ذریعہ جنگ بندی کی کوشش ہوگی مگر اس نے بھی ابھی تک مایوس ہی کیا ہے لیکن بقول اقبال ”پیوستہ رہ شجر سے امید ِ بہار رکھ ” کی مصداق یہ کوشش بھی جاری و ساری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔