میں کون ہوں؟
شیئر کریں
میرا پوائنٹ زیرو ہے، مگر میں زیرو نہیں۔ کیا تم مجھے جانتے ہو، میں کون ہوں؟
میں وہ الفاظ بیچتا ہوں، جس کی تھاہ میں معنی نہیں، پیٹ کی آوازیں ہیں۔ میرے فقرے، سودے ہیں۔ میری ملاقاتیں بیسوائی طبیعت کی تسکین ہے۔ حکمرانوں سے میری محبت اُن کی عطا کے پیمانے سے ہے۔ اشرافیہ جہاں کی ہو، مجھے عزیز ہے، وہ بھلے میرے لیے نہ ہوں، مگر میں اُن کا ہوں، اگر یہ اپنی تجوریوں سے مجھے نیوتے بھیجیں، مجھے فروختنی صحبتیں دیں۔ میں اُن کی منحوس صحبتوں کی معیوب سرسراہٹ میں ہم بستر رہتا ہوں۔ یہاں کی کروٹیں مجھے ساز گار ہیں۔ میری ایک کروٹ میں دَروغ و مکر و فُسوں کی ایک پوری دنیا آباد اور نفاق وعناد کی نگری بسی ہے۔ میری دوسری کروٹ میں اخفا و کتِمان کا ایک جہان سجا ہے۔ میں ان خبیث وغلیظ صحبتوں کو عزیز و لذیذ بنا تا ہوں۔ میں حرام کو حلال کرتا ہوں، مکروہات و منکرات کو مباح اور روا بناتا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو، میں کون ہوں؟
میں ایک متروک غار کا قیدی ہوں، جس پر جھوٹ کی کالک ملی ہوئی ہے۔ جہاں چوبیس گھنٹے رات رہتی ہے۔ جہاں آوازیں اُدھار لی جاتی ہیں۔ اور اُن آوازوں سے رات کی تقدیس کے گیت گائے جاتے ہیں۔ میں اُن گیتوں کا گَوَیّا ہوں۔ سنو! سنو! میں نحوست بھری زندگی کو توقیر دیتا ہوں۔ مکروفریب کو نئے معنی دیتا ہوں۔ نفاق کو دین بناتا ہوں، فساد کو روح افزا کرتا ہوں۔ عناد میری رگوں کا خون ہے۔ میں نے ایمانداری کا سبق کنچن سے لیا۔ اُس کی ایمانداری کا میں دل سے قائل ہوں۔ میرے سودے اُس کی پیروی میں ہیں۔ میں الفاظ سے فقروں کے بستر سجاتا ہوں۔ اُس پر حیا کو سلاتا ہوں۔ میں خونی نم زدہ زمین پر کھیتی باڑی کرتا ہوں، جہاں موت مقتولوں کی کھوپڑیاں بوتی ہیں۔ میرے معبد کی اعلیٰ ترین عبادت شیطانوں کا وحشیانہ ناچ ہے۔ جب مقتولین کی بیوائیں غم کی چادر سے چہرہ ڈھانپتی ہیں تو میں سرخوشی میں قاتلوں کے ساتھ شیطانوں کی عبادت میں شریک ہوتا ہوں۔ میں مفلوک الحال مسخروں کے ایک ٹولے سے اُٹھ کر حرص کی رتھ پر سوار ہوا۔ اب میں زمین پر پاؤں رکھنے کو تیار نہیں، اڑنا ہی میری خواہش ہے چاہے مجھے تاریخ کے زہریلے الاؤ سے اُٹھنے والے دھوئیں میں رہنا پڑے۔
تو کیا ہوا؟ لعنت میرے گلے کا طوق ، غلاظت میرے چہرے کا غازہ ہے۔
مجھے گلیلیوکی دوربین اور عمر خیام کی رصد گاہ سے نہیں بلکہ ’’ اُس بازار‘‘ کی برائے فروخت مخلوق کے حقے سے رغبت ہے، جس پر ہاتھ لگا کر میں قلم پکڑتا ہوں اور مخالف آوازوں کو راکھ کرتا ہوں۔ میں اجالوں کے پیغام بروں سے کوئی نسبت نہیں رکھتا، سو چھچوندر کے بل کی تاریکی مجھے پسند ہے۔ میں آئندہ میں نہیں جیتا، مجھے اپنے آج سے پیار ہے۔ اسی لیے تارِ عنکبوت کی بے ثباتی مجھے پسند ہے۔ مجھے قوم کے مستقبل کی کیا پروا، اسی لیے قوموں کی آبرو کے نیلام گھر میں اپنی منڈی سجاتا ہوں۔ میری منڈی میں سچ برائے فروخت ہے۔ جہاں انسانی نسلوں کی جنگ آزما تاریخ کھوٹے سکوں میں بکتی ہے۔ جدوجہد اور جرأت کے لفظ کچرے میں پڑے رہتے ہیں۔ آزادی ملاوٹ شدہ ملتی ہے۔ انصاف دُکان میں چھپے چوہے کترتے رہتے ہیں۔ یہاں سب سے بیش قیمت شے بندوق کی نالی ہے، بارود کی بھینی بھینی خوشبو اشتہا انگیز ہے۔
میرا ہنر کیا ہے؟
میرا ہنر غلاظت پر زرق برق ورق ڈالنا ہے۔ میں عَیّار زندگی کو سادہ وعِیار بناتا ہوں۔ میں رہزن کو رہبر دکھاتا ہوں۔ میرے قلم سے بے شرم حیا دار نظر آتے ہیں۔ خاروخس، لعل وگہر کا فریب پیدا کر لیتے ہیں۔ میں بے شرمی پر حیا کا دھوکا ڈالتا ہوں۔ میرا ہنر جنس ارزاں ہے، مگر اس کی بولیاں لگانے والے بہت ہیں۔ لچے، لقندرے، لفنگے، اُچکے، کٹنے، درمیانے، اُٹھائی گیرے، یک لباسے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگاتے ہیں۔ میں جن کے لیے بِکتا ہوں ، اُن کے لیے بَکتا ہوں۔ میں انصاف کے مندر وں میں گھنٹے بجاتا ہوں، دفاعی حصار وں میں پنپتا ہوں۔ سیاسی چوکھٹوں پر ماتھا ٹیکتا ہوں۔ امراء کے کوٹھوں پر ڈکارتا ہوں۔ میں ان کے انحراف کی روش کو صراط مستقیم بناتا ہوں۔ یہاں کے کم اصلوں کو عالی مرتبت دکھا تا ہوں۔ پھوہڑوں کو نیوٹن باور کراتا ہوں۔ مجھے دیکھو! میں مقتول نقیب اللہ محسود کے والد کو تسلی دینے والے منصب دار کا بغلچی، طبلچی اور ڈھنڈورچی ہوں۔ بازؤں کی قوت کے آگے ڈھیڑ۔ میرا قلم اور ذہن اس چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے۔ مظلوموں کو روندنے والے سکندر کے گھوڑے مجھے پسند ہیں۔ پہلوانوں کے کمزوروں پر غلبے سے مجھے پیار ہے۔ سڑکوں پر سرکاری بندوقوں کے آگے گڑگڑانے والوں پر میں اپنے قہہقے اچھالتا ہوں۔ کمزوروں پر مقدمات مجھے خوش آتے ہیں۔ میں’’ فرشتوں‘‘ کی دید کا دعوے دار ہوں، جن کو میں نے اپنی ذہانت پر مختلف ملمع چڑھا کر متاثر کیا۔ میں تمہارے نزدیک حقارت آمیز نقالی کا ماہر ہوں، مگر میں فرشتوں کی دید میں گم اُن کی صفات کا ناقل ہوں۔ تم کیا جانو؟ میں جن فرشتوں کو مانتا ہوں، اُن سے آسمان کے فرستادے بھی اُلوہیت کا سبق لیتے ہیں۔ میرے لیے ان کے نام علیہ السلام کہے بغیر لینا توہین آمیز ہے۔ تم، کیا تم ان سے لڑوں گے؟ جن کا بارود پیمبروں کے ورثے کو دھوئیں میں اڑا دیتا ہے۔ جن کے ہاتھ حضرت ابراہیم ؑ کے لیے الاؤ جلانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ جو موسیٰ کے سامنے خدا بننے کی جرأت دکھا سکتے ہیں۔ کون ہو؟ تم کون ہو؟ جوہڑ پر جمی کائی میں پلتے کیڑے، بُھربُھری دیواروں پر چپکی ہوئی بیمار چھپکلیاں اور گھوڑے پر بھنبھناتی ہوئی مکھیاں! تمہاری اوقات ہی کیا ہے؟ بس ووٹ کی پرچی کے علاوہ تمہاری بِساط ہی کیا ہے؟ سنو! میں اُن کی راتوں کا راز دار ہوں، جو تمہاری مسجودیت مستور کرنے کی قوت رکھتے ہیں، تمہارا پتہ تمہارے پتوں سے گم کر دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔ میں اپنی جاہلانہ بے شرمی سے ان ستم ظریف آقاؤں کا دل بہلاتا ہوں، ان دیوتاؤں کی چوکھٹ پر صداقت، دیانت اور شرافت کی بھینٹ چڑھاتا ہوں۔
تم کیا جانو، میں کون ہوں؟ الفاظ کی جگالی میرا پیشہ ہے، جس سے میں پیشہ کرتا ہوں، ہزار شوہروں کی بیوی نے حیا کا سبق مجھ سے لیا ہے۔
٭٭٭