کراچی اسپتالوں کا10فیصد فضلہ انتہائی خطرناک قرار
شیئر کریں
شہری انفیکشن میں
مبتلاہونے لگے
یومیہ ڈھائی کلو فضلہ نکلتا ہے، ایک کلو انفیکشن پھیلانے والا فضلہ شامل ہوتا ہے، مریضوں کے طبی فضلے کے اعدادوشمار دستیاب نہیں
طبی فضلے کو اگر سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے نہ لگایا جائے تو پھر 100 فیصد خطرناک ہوجاتا ہے،عالمی ادارہ صحت کاانتباہ
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ سمیت پاکستان کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں مریضوں کے بستروں سے نکلنے والے طبی فضلے کے اعدادوشمار دستیاب نہیں جس سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ ایک مریض کے بستر سے یومیہ کتنا طبی فضلہ نکلتا ہے اور نکلنے والے طبی فضلے (ڈسپوزایبل)میں کتنے فیصد انفیکشن پھیلانے کا باعث بنتا ہے اور انفیکشن پھیلانے والا طبی فضلہ یومیہ، ماہانہ کتنے فیصد صحت مند افراد کو متاثر کرتا ہے۔ سندھ کے قوانین کے مطابق محکمہ ماحولیات کے ماتحت سیپا اسپتالوں کے فضلے کی درجہ بندی کرنے اور اسپتال انتظامیہ سے فضلہ ٹھکانے لگوانے کا ذمہ دار ہے، عالمی ادارے کی رپورٹ نے سیپا کی قلعی کھول دی۔ عالمی ادارے نے بڑا انکشاف کرتے ہوئے تحریر کیا کہ صوبائی محکمہ صحت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت اسپتالوں میں ایسے اعدادوشمارہی نہیں جبکہ انفیکشن کنٹرول ڈیزیزکے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایک مریض کے بستر سے یومیہ ڈھائی سے تین کلو طبی فضلہ نکلتا ہے، اس میں ایک کلو انفیکشن پھیلانے والا طبی فضلہ شامل ہوتا ہے جس میں مریض کی استعمال شدہ سرنج، ڈراپس سیٹ،کینولا، بلڈ بیگ کا فضلہ شامل ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں سے نکلنے والا طبی فضلے کو صرف 5 ٹی چینگ اسپتالوں میں سائنسی بنیادوں پر تلف کیا جاتا ہے، یومیہ بنیادوں پرنکلنے والا طبی فضلے کو کہاں اور کیسے ڈمپ کیا جارہا ہے یہ کسی کو بھی نہیں معلوم، اس وقت کراچی میں محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے سندھ گورنمنٹ نیو کراچی اسپتال، سندھ گورنمنٹ اربن ہیلتھ سینٹر نارتھ کراچی، سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال، سندھ گورنمنٹ ابرائیم حیدری اسپتال، سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال نارتھ کراچی، انسی ٹیوٹ آف اسکن ڈیزیز کراچی، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سوبھراج اسپتال، کراچی انسی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز سمیت دیگر اسپتالوں میں طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر تلف کرنے کیلئے ڈیپ ہیٹ اسٹیلایزیشن پلانٹ موجود ہی نہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ان اسپتالوں کے بعض اہلکاروں کی مدد سے اسپتالوں سے نکلنے والے طبی فضل کو نامعلوم ٹھیکے داروں کے ذریعے نامعلوم افراد سے اٹھوایا جاتا ہے اور نہ جانے اس فضلے کو کہاں پھنکا جاتا ہے۔ دریں اثنا عالمی اداراے صحت کے مطابق اسپتال کے ایک مریض کے ایک بستر سے 10 فیصد طبی فضلہ انتہائی خطرناک نکلتا ہے جو مختلف انفیکشن کا باعث بنتا ہے جبکہ باقی 90 فیصدفضلہ نارمل تصور کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارے صحت کے مطابق 10 فیصد انفیکشن پھیلانے والے طبی فضلے کو اگر سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے نہ لگایا جائے تو پھر 100فیصد طبی فضلہ انتہائی خطرناک ہوجاتا ہے۔ محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن اتھارٹی (سیپا ) نے دسمبر 2014 میںسرکاری، غیرسرکاری اسپتالوں، لیباٹریوں اور ڈسپنسریوں سے نکلنے والے طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے کیلئے اسپتال، ویسٹ مینجمنٹ رولز بنائے تھے، اسپتال ویسٹ مینجمنٹ رولز اور تحفظ ماحولیات ایکٹ 1997ترمیم شدہ 2012کے تحت محکمہ ماحولیات کے عملہ کو خصوصی اختیارات بھی دیے گئے تھے، اس رولز کے مطابق اسپتالوں سے نکلنے والے طبی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر ٹھکانے لگانے اور محفوظ مناسب جہگوں پر ڈمپ کیا جائے، اسپتال انتظامیہ فضلہ ڈمپ کرنے کا پلان جو کہ عالمی معیار کے مطابق ہو جمع کروائے گی جس کے تحت انتہائی خطرناک فضلہ علیحدہ کیا جائے گا ، سیپا کے افسر اسپتالوں کا دورہ کرکے فضلہ کے پلان کا جائزہ لے گا، سیپا قوانین کے مطابق اسپتال میں 10 اقسام کا فضلہ ہوتا ہے جس میں سے 6 اقسام کا فضلہ زیر زمین دفن کرنا ہے ، عالمی ادارے کی رپورٹ نے سیپا اور اسپتالوں کے پلان کی قلعی کھول دی ہے۔