میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کوروناوائرس کی حقیقت

کوروناوائرس کی حقیقت

ویب ڈیسک
منگل, ۱۶ فروری ۲۰۲۱

شیئر کریں

کورونا وائرس سے بچاو ٔکے لیے ویکسین دینے کا آغاز دنیا کے بیشتر ممالک میں ہوچکا ہے جس پر لوگوں میں قدرے اطمینان ظاہرکیاہے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹریاسمین راشد نے کہاہے کہ عوام یہ ویکسین اپنی ذمہ دارپر لگوائیں شایداس کی وجہ یہ ہوسکتی ویکسین کی ایجادکے ابتدائی مرحلہ میں ایک نرس سیکنڈوںمیں جاں بحق ہوگئی تھی بہرحال ماہرین ِصحت کا یہ کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین آنے کا مطلب یہ نہیں کہ وبا کے دوران کی جانے والی احتیاطی تدابیر ترک کردی جائیں اور یہ لوگ موجیں کرتے پھریں کہ اب خطرہ ٹل گیا ہے۔ کوویڈ 19 سے بچاؤ کے لیے کیا جانے والی احتیاطی تدابیر جن میں سماجی فاصلہ، ہاتھ دھونے اور جراثیم کش محلول سے صاف رکھنا، کھانسی یا بخار کی علامات پر گھر رہنا، غیر ضروری میل جول اور بوقت ضرورت چہرے کے ماسک کا استعمال احتیاط جاری رکھنا ہوگا۔اب یہ سوال کہ ویکسین تو کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کرتی ہے تو پھر احتیاطی تدابیر کیوں اختیار کرنا ہوں گی۔طبی ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ ویکسین دینے کا عمل تمام ممالک میں مکمل ہونے میں ایک سال یا اس سے بھی زائد عرصہ درکار ہو گا لیکن اس دوران وائرس تو موجود ہو گا جس سے بیماری پھیلنے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ دیگر وجوہات میں یہ بھی شامل ہیں کہ یہ معلوم نہیں ہو گا کس نے یہ ویکسین لی ہے اور کس نے ابھی نہیں لی۔چونکہ یہ ویکسین ابھی نئی ہے اس لیے کے موثر ہونے کا مکمل یقین نہیں اور نہ ہی حتمی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتنا عرصہ عرصہ تک جسم میں قوت مدافعت رکھے گی۔

اب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو کورونا کا حملہ دوبارہ بھی ہوا ہے اس لیے ویکسین لینے کے باوجود احتیاط بہت ضروری ہے۔کورونا کی ویکسین لگوانے کے بعد ناروے میں کچھ معمر افراد کی ہلاکت افراد کی خبریں عالمی سطح پر گردش میں رہیں اور کئی لوگوں کو پھر سے ویکسین کے خلاف مہم چلانے کا موقع مل گیا۔اس صورت حال کی وضاحت ناروے میں مقیم ایک میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر ندیم حسین سید نے کرتے ہوئے کہا کہ ناروے کہ حکومت نے سب سے پہلے عمر رسیدہ افراد کو ویکسین دینا شروع کی اور 85 سال سے زائد افراد کو یہ ویکسین دی۔ ان عمر رسیدہ افراد میں سے جو ویکسین لگنے کے بعد جاں بحق ہوئے ان کے بعد از موت طبی معائنہ سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ ان کے مرنے کی وجہ ویکسین نہیں بلکہ دیگر بیماریاں ہیں جن میں وہ پہلے سے ہی مبتلا تھے۔ویکسین لگنے کے بعد مدافعاتی نظام میں تبدیلی ان کے لیے قابل برداشت نہ تھی اور دیگر بیماریوں کی موجودگی ان کی موت کا باعث بنی۔ ناروے کے محکمہ صحت کے مطابق ان افراد کو اگر ویکسین نہ بھی دی جاتی تو یہ موت کے قریب ہی تھے۔ لیکن اب ناروے کے محکمہ صحت نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے اور ایسے معمر افراد کو ویکسین نہیں دی جائے گی جو پہلے سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔بدل دی ہیں۔ اور اب ایسے لوگوں کو ویکسین نہیں دی جائے گی۔ سویڈن میں بھی ایک 97 سالہ شخص کی ویکسین لگوانے کے بعد موت ہوئی ہے لیکن اس کے شخص کے پوسٹ مارٹم رپورٹ نے بھی یہ ظاہر کیا ہے کہ وجہ موت ویکسین نہیں ہے۔ یہاں یہ وضاحت پھر ضروری ہے کہ کورونا کے خلاف ویکسین محفوظ اور موثر حفاظت ہے۔ ہمیں خود بھی لگوانی چاہیے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہیے۔یہاں یہ اصول بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ویکسین بیماری کے علاج کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس کی روک تھام کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ویکسین کا عمل شروع ہونے کے باوجود برطانیا، آئیرلینڈ، ناروے اور دیگر کئی ممالک میں لاک ڈائون بھی جاری ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے برطانیا میں شرح اموات آبادی کے تناسب سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اب برطانیا نے سویڈن کو بھی اس نئے وائرس سے بچاو ٔکے لیے اقدامات کرنے کامشورہ دیا ہے۔سویڈن نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ اپنی سرحد ناروے کے ساتھ بند کردی ہے۔ یہ قدم کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ سویڈن نے ڈنمارک اور برطانیا سے بھی آمدورفت پر پابندی عائد کی ہے۔ کورونا وائرس نے دیگر وائرس کی طرح اپنے جینیاتی مادے میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور اب اس وائرس کی یہ تبدیل شدہ (Mutated) اقسام دریافت ہوئی ہیں۔ برٹش 2021/01 VOC، برازیلین P.I، ساوتھ افریقنV2 .501 اور کیلیفورنیا 20C CAL کوویڈ 19 چونکہ ایک عالمی وبا ہے اس لیے جب تک دنیا کے تمام ممالک میں اس سے بچاو ٔکی ویکسین وہاں کے لوگوں کو نہیں دی جاتی، اس سے مکمل تحفظ ممکن نہیں۔ کورونا کی وبا پر عالمی سطح پر قابو پانے کے لیے ویکسین ایک موثر ہتھیار ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں اس کا آغاز ہوچکا ہے لیکن اس مہم پر بھی امیر ممالک کی اجارہ داری ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے اس پر بہت تشویش اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا اخلاقی زوال کی صورت بن چکی ہے۔ دنیا کے 49 ممالک نے کورونا ویکسین کی 90 لاکھ آپس میں تقسیم کرلی ہیں جبکہ مغربی افریقی ملک گنیا کو صرف پچیس(25) خوراکیں مل سکی ہیں۔ انہوں گلوگیر آواز میں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے ہوئے خبردار کیا کہ اس طرز عمل سے عالمی سطح پر اس وبا پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔یورپی یونین نے رکن ممالک میں کورونا ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں پر یہ پابندی بھی عائد کردی دی ہے کہ وہ یورپی یونین سے باہر کورونا وائرس کی ویکسین فروخت نہیں کرسکیں گی۔ عالمی ادارہ صحت نے اسے ایک المیہ قرار دیا ہے۔ یورپی ممالک پر کورونا وائرس کی ویکسین کی یورپی حدود سے باہر برآمد پر پابندیاں عائد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات سے وبا پر قابو پانے میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔ کافی لوگوںمیں ان خدشات پائے جارہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین کی آڑمیں لوگوںمیں کوئی مائیکروچپ داخل کردی جائے گی جس سے ان کے رویے کو کنٹرول کیاجاسکے گا ایک طرح سے ان کے دماغ پر کنٹرول حاصل کرلیاجائے گا یا پھردنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ویکسین استعمال کرنے والے بانجھ پن کا شکارہوسکتے ہیں یہ تووقت ہی بتائے گا کہ کروناویکسین کی آڑمیں انسانیت کا بھلاہوتاہے یا پھرعالمی طاقتیںکوئی نیا گل کھلاناچاہتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں