میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈکیت کا پارٹی سربراہ بننا قبول نہیں،سپریم کورٹ

ڈکیت کا پارٹی سربراہ بننا قبول نہیں،سپریم کورٹ

منتظم
جمعه, ۱۶ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحاتی ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دور ان ججز نے ریمارکس دیے ہیں کہ انتخابی اصلاحات قانون کی آئین کیساتھ وفاداری نہیں لگتی ٗ اداروں پر حملہ کرنے پر آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے، خدا نہ کرے کوئی جھوٹا چور اچکا اور منشیات فروش پارٹی صدر بن جائے ٗکسی کی ذات سے کوئی غرض نہیں ٗ پاکستان کے سارے سیاسی رہنما اچھے ہیں ٗپارلیمنٹ کو قانون بنانے کااختیار ہے، تاہم ایسے قانون بنانے کااختیار نہیں، جو باطل ہوں ٗپارٹی سربراہ کے آلودہ ہونے سے پوری پارٹی کا ڈھانچا بھی آلودہ ہو جاتا ہے ٗنااہل شخص اراکین پارلیمنٹ سے وہ سب کروائے گا جو وہ خود نہیں کرسکتا ٗمیں نہیں مانتا کہ کوئی ڈکیت پارٹی صدر بن کرملک پر حکومت کرے ۔ نجی ٹی وی کے مطابق جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پاکستان تحریک انصاف ، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر 10 افراد کی جانب سے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی۔ سماعت شرو ع ہوئی تو چیف جسٹس نے سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ مشاہد حسین سید کیلیے پارٹی ٹکٹ پر نوازشریف نے دستخط کیے ٗپیپلز پارٹی کی جانب سے بحیثیت سیکریٹری جنرل فرحت بابر اور پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹ پر چیئرمین عمران خان کے دستخط ہیں۔وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 62، 63 کا تعلق اہلیت اور نااہلیت سے ہے، آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ اور اراکین سے متعلق ہے جبکہ الیکشن ایکٹ 2017 آئین سے متصادم نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں ان کے وزیراعظم وہی ہیں ٗہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پارٹی صدر کی حیثیت کیاہوتی ہے۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرے خیال میں پوری پارلیمنٹ نوٹس لے رہی ہو گی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم بھی نوٹ کررہے ہیں، پارلیمنٹ کو قانون بنانے کااختیار ہے، تاہم ایسے قانون بنانے کااختیار نہیں جو باطل ہوں جبکہ میں نہیں مانتا کہ کوئی ڈکیت پارٹی صدر بن کرملک پر حکومت کرے اور وزیراعظم کہتے ہیں میں تو صرف نمائندہ ہوں۔جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرے خیال سے پوری پارلیمنٹ نوٹس لے رہی ہو گی۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نیلسن منڈیلا بھی کئی سال جیل میں رہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیلسن منڈیلا پر سیاسی کیس تھا فوجداری نہیں تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک مثال دے دیں کہ نااہل شخص نے پارٹی ٹکٹ تقسیم کیے ہوں۔انھوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات قانون کی آئین کے ساتھ وفاداری نہیں لگتی، اداروں پر حملہ کرنے پر آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آرٹیکل 63 ون کو آرٹیکل 17 میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں نااہل شخص پارٹی صدر بن سکتا ہے، جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی نااہلی پارلیمنٹ کے حوالے سے ہے لہٰذا آرٹیکل 63 ون کو آرٹیکل 17 میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ بعد ازاں سماعت 21فروری کے لیے ملتوی کردی گئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں