کیا نئے صوبے انتظامی ضرورت ہیں؟
شیئر کریں
مشرقی پاکستان کو ہمارے فوجی آمر یحییٰ، بیورو کریٹوں اور مغربی پاکستان میں زیادہ سیٹیں جیت جانے والے مسٹر بھٹو کی اقتداری بندر بانٹ پر ضدوں نے ہاتھ سے گنوادیا اور 1970کے انتخابات میں کلی اکثریت حاصل کرنے والے مجیب کو اقتدار منتقل نہ کیا گو اس سے قبل بھی ہمارے حکمرانوں اور بیورو کریٹوں نے مشرقی پاکستانیوںکوان کا حصہ بقدر جسہ نہ دینے کا ایسا تاثر قائم کردیا تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو محرومیوں کا شکار سمجھتے تھے پھر مخلوط طریق انتخاب کی وجہ سے 1970کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کے رہائشی ہندوئوں نے (جو کہ ہر حلقہ انتخاب میں14تا43فیصد تک بھی موجود تھے ) سبھی ووٹ مجیب کو دے ڈالے کہ وہ ان کے ناپاک مقصد ملک توڑنے کے لیے آلۂ کار بن سکتا تھا ۔
ہندوئوں نے تعلیمی اداروں میں ایسا غلیظ پراپیگنڈا کیا کہ مشرقی پاکستانی اپنے آپ کو اقتدار سے محروم سمجھنے لگ گئے، اس وقت مشرقی پاکستان کے علاوہ مغربی پاکستان کے صرف چار صوبے موجود تھے ۔پاکستان بنتے وقت ہمارے ملک کے 16صوبے بشمول انتظامی ریاستیں موجود تھیں۔پنجاب میں دو صوبے لاہور اور بہاولپور تھے ۔ کوئٹہ ،قلات ،لسبیلہ اور مکران بلوچستان کے چار صوبے /اسٹیٹس تھیں۔مشرقی پاکستان ایک صوبہ تھا صوبہ سندھ کے بھی تین صوبے کراچی پھر خیرپوراور اندرونی سندھ موجود تھے ۔اور سرحد صوبوں/ریاستوں میں منقسم تھا جو کہ سوات چترال دیر ہنزہ گلگت اور پشاور تھے ۔ ون یونٹ کے نام پر 1955میں تمام صوبے ختم کردیے گئے یحییٰ خان آیا تو اس نے مغربی پاکستان کے چار اور مشرقی پاکستان کو بطور صوبہ بحال کیا ہم نے کئی نئے اضلاع بنائے ہیں تو اسی طرح پرانے صوبے ریاستیں بحال کر دی جاتیں اور صوبہ پنجاب کے بہاولپور کے علاوہ مزید صوبے بن جاتے تو لوگ خوامخواہ محرومیوں کا رونا نہ روتے اور موجودہ صوبوں کے درمیان نفرتیں اور کدورتیں قطعاً جنم نہ لیتیں ۔
ضیاء الحق کے دور میں انصاری کمیشن نے 17صوبوں کی بشمول اسلام آباد کی تجاویز تیار کرلیں تھیں مگر اس کا طیارہ کریش ہوگیا اور بعد ازاں جاگیرداروں وڈیروں ،نودولتیے سود خور سرمایہ داروں اور ڈھیروں ناجائز منافع لوٹنے والے صنعتکاروں نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ملک کو صوبوں میں منقسم کرنے کی تجاویز سرد خانے میں ڈال دیں بھارت میں ابتدائی طور پر صرف 13صوبے تھے مگر آج تک 36صوبے بن چکے ہیں اب بھی سکھ و دیگر کئی اقلیتیں اپنے اپنے خود مختار صوبوں کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں ۔ہم نے بھارت کی طرح انگریزوں کے ٹوڈی جاگیرداروںکی راجدھانیوںکو بے زمین کاشتکاروں ،ہاریوں میں تقسیم نہ کیا اسی لیے ان سبھی طبقات کی اولادیںاب معمولی سنپولیوں سے بڑھ کر اژدھوں کا روپ دھار چکی ہیںاور سبھی بڑی مقتدر سیاسی پارٹیوں کے اہم کلیدی عہدوں اور وزارتوں پر قابض ہیں بھٹو مرحوم نے کوشش تو کی مگر بڑے تمندار زمینداروں نے جعلی کاغذات کے ذرریعے اپنے ہی عزیزوں ،نوکروں و منشیوں کو تمام زمینیں لینڈ ریکارڈ افسروں،پٹواریوں سے مل کر بانٹ ڈالیں خود بھٹو صاحب ان کا خاندان اور عزیز و اقارب بھی بدستور ہزاروں ایکڑ کے مالک رہے ۔
1977تک تو سبھی ٹوڈی جاگیردار وڈیرے پی پی پی پر بھی قابض ہوچکے تھے اور انتخابات میں 92فیصد انتخابی ٹکٹوں پر بھی نامزد ہوگئے چاروں صوبوں کے گورنر وزیر اعلیٰ بھی جاگیردار ٹولوں سے تعلق رکھتے تھے۔بھٹو کے بقول پی پی پی کے عدالتی قتل (پھانسی ) کے بعد کسی تحریک کا نہ چلنا اور اس کے جنازہ تک میں بھی کسی کا شامل نہ ہوسکنا اسی لیے تھا کہ اہم عہدوں وزارتوں پر تو وڈیرے قابض رہے تھے ورکر خود کو کیوں ریاستی پولیس کی دہشت گردیوں کا تر نوالہ بناتے اس لیے اس کی پھانسی پر بقول ان کے "ہمالہ قطعاً نہ رویا "بھٹو ادوار ہی میں معیشت کو قومیانے کی ناکام پالیسی بنی ۔حتیٰ کہ چھوٹے کارخانے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی قومیائے گئے ۔اگر ضیاء الحق آکر ان اداروں کی واپسی نہ کرتے تو تعلیمی نظام کا تو ویسے ہی مکمل طور پر بھٹہ بیٹھ جاتا آئندہ آمدہ انتخاب 2018 چونکہ خالصتاً روپے پیسے کا کھیل ہو گا اور قابل اہل ایماندار افراد اور انتخابی مشینری منہ دیکھتی رہ جائے گی ۔