میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا لوگ ہیں ہم؟

کیا لوگ ہیں ہم؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۶ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

جب یہ سطور آپ کی نظروں سے گزریں گی تو عدالتِ عظمیٰ کے سامنے زیر سماعت پاناما لیکس کی بنا ءپر شروع ہونے والے کیس کی سماعت کا وقفے کے بعد دوبارہ آغاز ہوچکا ہوگا۔ جنوبی امریکا میں واقع ریاست پانامہ میں ٹیکس بچانے کے لئے قائم کی جانے والی آف شور کمپنیوں کو رجسٹر کرنے والے ادارے ’موساک فونیسکا‘ کے ایک ناراض کلرک نے کم تنخواہ کی وجہ سے غصے میں ادارے کا ریکارڈ چوری کر کے جرمنی کے ایک اخبار کو کیا بیچا کہ دنیا بھر میں فارغ صحافیوں کو نیا کام مل گیا۔اس چوری کر کے لیک کیے گئے ریکارڈ کی بنیاد پر شروع ہونے والی یہ سماعت ایک مرتبہ پھر اپنے فطری انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اس دوران میں ایک خبر بین الاقوامی میڈیا میں تو چھپی لیکن پاکستانی اخبارت میں خاطر خواہ جگہ نہیں پاسکی، اور شاید چھپی بھی تو کسی کونے کھدرے میں ہی ،اور وہ یہ کہ موساک فونیسکانامی ادارہ جس نے دنیا بھر میں (ٹیکس بچانے والی)آف شور کمپنیاں بنانے کے حوالے سے شہرت پائی تھی، اس کے دونوں ساجھے دار، جورگن موساک اور ریمن فونیسکا نامی افراد کو دھوکا دہی اور ٹیکس چوری کی سہولت کار ی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان دونوں پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے برازیل کی تاریخ کے سب سے بڑے رشوت ا سکینڈل میں لی گئی رقوم کی پاناما کی آف شور کمپنیوں میں منتقلی اور برازیل میں اس رقم کی وصولی کے ثبوت کو ختم کرنے میں سہولت فراہم کی تھی۔ یاد رہے کہ اس رشوت اسکینڈل کے نتیجے میں برازیل کی خاتون صدر کا مواخذہ ہوا تھا ، اور موصوفہ کو اولمپکس سے عین پہلے اپنی صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
پاکستان میں پاناما کی حکومت کے حوالے سے ایک خبر اس سے قبل بھی سامنے آئی تھی کہ جب ہمارے ٹیکس وصولی کے وفاقی ادارے ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ، سپریم کورٹ کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اپنے ہم منصب پانامی ادارے کو ایک خط لکھا جس میں گزارش کی گئی تھی کہ چوں کہ موساک فونیسکا کی دستاویزات پر انحصار کرکے بنایا گیامنی لانڈرنگ کے حوالے سے ایک مقدمہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت (سپریم کورٹ) میں زیرِ سماعت ہے۔ اور چوں کہ عدالت اصل (تصدیق شدہ) دستاویزات کو بنیاد بنا کر ہی کسی مقدمے کا فیصلہ سنا سکتی ہے، اس لیے ایف بی آر کو ان دستاویزات تک رسائی کا اہتمام کیا جائے۔ اس طرح کے خطوط بہاماس، برٹش ورجن جزائر، سمیت تقریباً درجن بھر ملکوں کی حکومتوں کو بھی روانہ کیے گئے تھے۔ باقی ممالک نے تو ان خطوط کو کوئی گھاس نہیں ڈالی اور لکھ بھیجا کہ ان کے ملکی قانون میں ایسا کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے لیکن پاناما کی حکومت نے لکھا تھا کہ اس طرح کی دیگر شکایات کے بعد برازیل کی سپریم کورٹ اس معاملے کا پہلے ہی نوٹس لے چکی ہے اور برازیل کی اٹارنی جنرل کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے جو اس کے بارے میں ایک رپورٹ جمع کرائے گی۔ ہم بھی اس رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں،آپ بھی انتظار کریں۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئیں اور پاناما کے اٹارنی جنرل نے اس پر ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی جس میں اس ادارے کے خلاف کارروائی اور اس کے ڈائریکٹر سے ان کی گرفتاری کی استدعا کی گئی تھی، جس کے بعد ان دونوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب ان دونوں افراد کے مستقبل کا فیصلہ پاناما کی سب سے بڑی عدالت کرے گی اور چوں کہ استغاثہ وہاں کے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے کہنے پرہی داخل کیا ہے۔ اس لیے ان دونوں افراد کو سزا ہونے میں اب محض ضابطے کی کارروائی ہی حائل ہو گی۔
یاد رہے کہ ان دستاویزات کی مصدقہ نقول کے حصول کی ایک ایسی ہی کوشش بھارتی سرکار کی طرف سے بھی کی گئی تھی کیوں کہ وہاں پر بالی ووڈ کے بگ بی (امیتابھ بچن) کے خاندان پر پاناما میں کمپنی بنا کر ٹیکس بچانے او رمنی لانڈرنگ کا الزام لگا تھا، لیکن بھارتی حکومت کی اس درخواست کو خاطر خواہ گھاس نہیں ڈالی گئی تھی۔ حالاں کہ بھارتی حکومت کی طرف سے ان دستاویزات کے عوض خطیر رقوم کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔ پاناماحکومت کے اس کورے جواب کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے ان مقدمات پر مزید سماعت نہ کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔ اس سے قبل یہ بات بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہے کہ شریف خاندان کا کاروباری پارٹنر اور ساجھے دار حماد الثانی (یا حمدالتھانی) جس نے شریف خاندان کی مدافعت میں عدالتِ عظمیٰ کو خطوط لکھے ہیں ، ان پر اُس وقت امریکا میں منی لانڈرنگ کا الزام لگا تھا جب وہ قطر کی وزارت عظمیٰ پر فائز تھے۔ امریکی عدالت سے ان کو سزا بھی ہوگئی تھی جس کے بعد انہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ اور موصوف نے اس سزا کوکچھ یوں قبول کیا کہ اس کے خلاف اپیل بھی نہیں کی۔ اسی بناءپر موصوف کو اپنی وزارتِ عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے ۔دنیا کے کسی بھی قانونی نظام کو اٹھا کر دیکھ لیں ، عدالت سے کسی بھی جرم میں سزا یافتہ شخص کی گواہی کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوتی۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پاکستان میں چلنے والے پاناما کیس میں مدعی اور مدعا علیہ دونوں نے جو دستاویزی ثبوت (یاگواہیاں ) عدالت کے روبروپیش کی ہیں ، وہ ایسے افراد کی طرف سے تیار یا پیش کی جا رہی ہیں جو دنیا کی کسی نہ کسی عدالت سے یا تو سزا پا چکے ہیں یا پھر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ ایسے میں کیا یہ لازم نہیں کہ ہم کچھ دیر میں سوچیں کہ ہم کس طرف بھاگے چلے جا رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟
ہم بھی کیا قوم ہیں کہ چور اچکوں اور دنیا کے ثابت شدہ جھوٹے افراد کی کہی گئی باتوں کی بنا پر اپنے ملکی معاملات کا گزشتہ آٹھ ماہ سے بیڑہ غرق کیے بیٹھے ہیں۔ خود ترحمی کا شکار، تماش بین اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا، کیا لوگ ہیں ہم؟
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں