کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم ( چوتھا حصہ )
شیئر کریں
کراچیکے شہریوں پر ایم کیو ایم منفی طور پر اثر انداز ہوئی، تعلیم کا ذکر ذرا تفصیل سے کردیا ہے کیونکہ تعلیم ہی قوموں کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے ۔ باقی ایشوز بھی اہم ہیں ان پر اگر تفصیل سے لکھا جائے تو کئی کالم چاہئیں اس لیے مختصراً بیان کر کے موضوع سمیٹتے ہیں ۔ سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد ایم کیو ایم نے سرکاری محکموں میں اپنے لوگوں کو کھپانا شروع کیا بالخصوص تمام بلدیاتی اداروں میں اپنے لوگوں کو ملازمتیں دلائیں ۔ اس معاملے میں ایم کیو ایم کی ترجیحات کیا رہیں ؟ انھوں نے ملازمتوں کے لیے اپنے رہنماﺅں ، کارکنان اور ان سے وابستہ لوگوں کا انتخاب کیا ۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف اور میرٹ کے لیے لڑنے والوں نے خود اختیارات حاصل کر کے میرٹ کی دھجیاں بکھیردیں ۔ کراچی کے شہریوں کو میرٹ پر نوکریاں دینے کے بجائے ایم کیو ایم سے تنظیمی وابستگی کی بنیاد پر نوکریاں دی گئیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو خود ایم کیو ایم کی قیادت چاہتی بھی تھی، کہ تنظیم کو مفت کے کُل وقتی کارکنان میسر آگئے جو تنخواہیں سرکار سے لیتے تھے اور حاضری ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر لگاتے تھے۔ ان کارکنان کے اپنے محکموں کے افسران بھی ان کی تنظیمی وابستگی اور جارحانہ رویوں کی وجہ سے خاموشی اختیار کرتے رہے۔ ایسے ہزاروں کیسز موجود ہیں جب ایک دن بھی ملازمت پر جائے بغیر گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کی جاتی رہیں ۔ بیگمات کو سرکاری تعلیمی اداروں میں نوکریاں دلائی گئیں، ہیڈ ماسٹر اور بورڈ کے افسران بھی انھیں ڈیوٹی دینے پر مجبور نہیں کر سکے البتہ الیکشن ڈیوٹیز میں ملازمین کا یہ گروہ پیش پیش رہتا تھا ۔
بلدیاتی اور دیگر سرکاری محکموں میں ایم کیو ایم سے وابستگی رکھنے والے ملازموں کی موجود گی سے کیا کراچی کے شہریوں کو فائدہ پہنچا ؟ کیا ان کے کام رشوت اور سفارش کے بغیر ہونے لگے؟ کیا ہسپتالوں ، تعلیمی اداروں ، کے ڈی اے ، کے ایم سی ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور تھانوں وغیرہ کا رویہ عوام دوست ہوا ؟کیا ان محکموں میں عوام کے ساتھ عزت دارانہ سلوک شروع ہوا ؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے کراچی کے شہریوں سے رجوع کر لیا جائے تو مرتب ہونے والی سروے رپورٹ حیران کردے گی ۔ ایک عام سرکاری ملازم کی رشوت کا ریٹ کم اور اس کا رویہ محتاط ہوتا ہے جبکہ سیاسی پشت پناہی رکھنے والا ملازم پوری دیدہ دلیری سے کرپشن کرتا ہے ۔ کراچی کے شہریوں کو سرکاری محکموں میں نہ عزت ملی نہ ان کی داد رسی ہو سکی ۔ ایم کیو ایم کی سرپرستی میں بلڈر ز مافیا نے غیر قانونی تعمیرات کر کے کراچی کا حسن تباہ کر ڈالا اور پراپرٹی کے ریٹ غریب عوام کی دسترس سے آگے پہنچا دیئے جبکہ اپنے پلاٹ پر اپنا گھر تعمیر کرنے کے لیے شہریوں کو تھانے سے لے کر کے ڈی اے ، کے ایم سی اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کے رشوت کے ذریعے منہ بند کرنا مجبوری بن گیا ۔ چائنا کٹنگ، پارکوں اور پلاٹوں پر قبضے یہ سب سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے سرکاری ملازموں کا کیا دھرا ہے ۔ کئی ٹارگٹ کلرز بھی ایسے سرکاری ملازم نکلے جنھیں حاضریوں کے بغیر ہی تنخواہیں ملتی رہی تھیں ۔
ماضی میں کراچی کے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی ایسی سہولیات حاصل تھیں جس پر ملک بھر کے لوگ رشک کرتے تھے ۔ اگرچہ بسیں ، ویگنیں اور مزدائیں آبادی کے تناسب سے کم تھیں لیکن شہر کے لوگوں کو سستی ، کشادہ اور نسبتاً آرام دہ سروس دستیاب تھی ایک ایک روٹ پر دو ، دو تین تین سو گاڑیاں چل رہی تھیں، شہری رات گئے تک ان میں سفر کرتے تھے۔ جو لوگ لاہور اور دیگر شہروں میں آتے جاتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں لاہور میں تانگے ، چنگچی رکشے اور چھوٹی ہائی ایس اور چند روٹوں پر بڑی بسیں چلا کرتی تھیں ۔ رکشے ، تانگے اور ہائی ایس والے عوام کو سواریوں کے انتظا ر میں خوار کرتے تھے ۔ چند ایک بسیں تھیں ان میں بھی عورتوں کے لیے علیحدہ انتظام نہیں ہوتا تھا ،کرائے بھی کراچی کے مقابلے میں زیادہ ہوتے تھے ۔ کراچی کے لوگ وہ مناظر دیکھ کر شکرادا کرتے تھے کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ سروس بہت اچھی ہے ۔ لیکن اب کیا ہوا ؟ ایم کیو ایم کے سیاسی اقتدار میں کراچی کے شہری ٹرانسپورٹ کی مزید سہولتیں حاصل کرنے کے بجائے پرانی سہولتوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ بڑی پبلک ٹرانسپورٹ کی جگہ چنگچی رکشوں نے لے لی ہے، خواتین مردوں کے برابر بیٹھنے پر مجبور ہیں ، تنخواہ دار مزدور اپنی ملازمت پر جانے کے لیے سو سو روپے تک روزانہ صرف کرائے پر خرچ کر رہے ہیں ، ہڑتالوں اور یوم سوگ کی آڑ میں لا تعداد بسیں جلائی گئیں ، ٹرانسپورٹرز کو بلیک میل بھی کیا گیا ،نتیجتاً انھوں نے کرائے بھی بڑھائے اور گزشتہ چند سالوں سے تعصبات نے یہ دن دکھائے کہ بڑی ٹرانسپورٹ جن کے مالکان زیادہ تر پٹھان اور غیر مقامی تھے انھیں ناکام کرنے کے لیے بڑی گاڑیوں کے متبادل کے طور پر چنگچی رکشوں کو کراچی شہر میں فروغ دیا گیا یہ رکشے ایک طرف کراچی کے شہریوں کے لیے مہنگی اور تکلیف دہ سواری ہیں اور دوسری طرف کراچی کے ٹریفک کا ڈسپلن مزید خراب کرنے میں ان کے غیر تربیت یافتہ ڈرائیوروں کا بڑا دخل ہے ۔
ایم کیو ایم کے راج میں کیا کراچی کے شہریوں کو جمہوری آزادی ملی ہوئی تھی ؟ بد قسمتی سے یہ دور سیاسی جبر و تشدد کا دور بھی قرار پاتا ہے، نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ ان کی دیکھا دیکھی ایم کیو ایم حقیقی ، اے این پی ، پیپلز امن کمیٹی ، سنی تحریک اور آخری سالوں میں طالبان نے بھی کراچی کے مختلف علاقوں کے شہریوں کو یرغمال بنائے رکھا ۔ جبر ، تشدد ، ہڑتالوں اور بھتے کی پرچیوں نے کراچی کے شہریوں کا جینا حرام کردیا ۔ وطن عزیز کی معاشی شہ رگ کراچی صنعت و تجارت اور کاروبار کے لیے انتہائی ناموزوں ہوگیا ۔ صنعتیں بند ہونے اور تجارت و کاروبار کم ہونے سے شہریوں کو غربت اور بے روز گاری کا سامنا کرنا پڑا ی۔ہ سلسلہ تا حال جاری ہے ۔ ماضی میں بدمعاشی سسٹم ہوا کرتا تھا ایک بد معاش بھتہ ضرورر لیتا تھا لیکن اس بھتے کے بدلے دیگر بدمعاشوں کے مقابلے میں تحفظ بھی دیتا تھا لیکن کراچی کے کاروباری حضرات کی حالت بالخصوص رمضان میں قابل ترس ہو جایا کرتی تھی جب بڑے کاروباری مراکز میں کئی کئی گروپوں کی طرف سے فطرے اور زکوة کے نام پر بھتے کے مطالبات آتے تھے ۔ عید الاضحیٰ پر تو لوگوں نے اپنے گھروں میں قربانیاں کرنا چھوڑ رکھی تھیں کہ آخر ایک کھال سے کس کس کا منہ بند کرینگے ۔ ایم کیو ایم کی منظم تنظیم سے وابستہ لوگ تو بہت فائدے میں رہے جسکا ذکر آئندہ آئے گا لیکن کراچی کے شہری اس حالت کو پہنچے جیسے اندرون سندھ و پنجاب کے عوام جاگیرداروں کی غلامی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں یعنی جاگیر دار مسائل حل نہیں کرتے اور اگر عوام انھیں بائی پاس کر کے اپنے مسائل کو حل کرانا چاہیں تو ان کی جان و مال عزت آبرو غیر محفوظ ہو جاتی ہے ۔ ( جاری ہے )
٭٭