لاس اینجلس پلک جھپکتے راکھ میں بدل گیا!
شیئر کریں
جاوید محمود
ایک ہفتہ قبل لاس اینجلس میں لگنے والی آگ عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔متاثرہ علاقوں سے سامنے آنے والی تباہی کے مناظر پر تبصرہ کرتے ہوئے لاس اینجلس کاؤنٹی کے پولیس چیف رابرٹ لونا نے شہر کا موازنہ ایٹم بم کے بعد کی تباہی کے منظر سے کیا ۔پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لگ رہا ہے جیسے ان علاقوں پر کسی نے ایٹم بم گرایا ہے۔ خیال رہے کہ اب تک ان علاقوں میں رہنے والے ایک لاکھ 80 ہزار افراد کو نقل مکانی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اس آگ کی لپیٹ میں ا کر اب تک 11 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہوئے آگ کے بھڑکنے سے اڑنے والی چنگاریاں ایسے مناظر پیش کر رہی تھیں کہ جیسے بارش ہو رہی ہو،جبکہ آسمان کو چھوتے شعلوں کو دیکھ کر اس بات کی تمیز کرنا مشکل تھا کہ وہ آسمان سے برس رہے ہیں یا زمین سے اوپر کی جانب جا رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پہ تبصرہ کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ غزہ کو تباہ ہونے میں ڈیڑھ سال لگا جبکہ لاس اینجلس پلک جھپکتے ہی غزہ کے مناظر پیش کرنے لگا۔ ریاست کی اتھارٹی کیل فائر کے مطابق اب بھی چھ مقامات پر لگنے والی آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا ۔سب سے بڑ ی آگ پبلکسٹر کے علاقے میں لگی جس نے تقریبا 22 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اس پر اب تک صرف آٹھ فیصد قابو پایا جا سکا ۔جبکہ اٹین کے علاقے میں لگنے والی آگ نے 14ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین کو متاثر کیا۔ کیتھ میں لگنے والی آگ نے ایک ہزار ایکڑ کے علاقے کو متاثر کیا جبکہ بریسٹ کے علاقے میں لگنے والی آگ نے 770ایکڑ کے علاقے کو متاثر کیا۔ لڈیا فائر جو لاس اینجلس کی شمالی پہاڑوں پر لگی ہے نے اب تک 395 ایکڑ کی زمین کو متاثر کیا۔ کیلیفورنیا کے گورنر کیون نیوسم نے پانی کی قلت کے باعث آگ بجھانے کے عمل میں مشکلات کی اطلاعت کے بعد اس حوالے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں سے ایک کلائمیٹ رپورٹر لوسی شہرایف بھی شامل تھیں وہ کہتی ہیں کہ لاس اینجلس کو ایک دوزخ نما مقام میں تبدیل ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔ لیکن میرا گھر اب بھی دہکتے انگاروں کا ڈھیر ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں اب شہر کے شمال میں ایک علاقے میں اپنی دوست کے گھر پر موجود ہوں جو پبلسٹیٹیز جہاں اب تک کی سب سے بڑی آگ لگی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ ہم یہاں محفوظ ہوں گے لیکن کیونکہ پورے شہر میں اب بھی چھ مقامات پرآگ لگی ہوئی ہے، جو پھیل رہی ہے اس لیے کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بہت سے لوگوں کو بھی جانتی ہوں جنہوں نے سوچا تھا کہ انہیں پناہ مل گئی لیکن انہیں دوبارہ نقل مکانی کرنی پڑی۔ ہمیں اپنے بیگ پیک کر کے دروازے کے پاس رکھنے پڑے ہیں تاکہ اگر کوئی نئے احکامات آئیں تو ہم 48 گھنٹے میں دوسرے مرتبہ نقل مکانی کر سکیں ،وہی ہوا جس کا ڈر تھا ہمیں فوری طور پر نقل مکانی کا حکم دیا گیا ۔وہ بتاتی ہیں کہ ہم گھبرا گئے اور گاڑیاں سامان سے بھرنے لگے۔ میں نے اپنی گاڑی میں ایندھن دیکھا تو وہ کم تھا اور پھر مجھے اپنے پارٹنر کو ایندھن کی تلاش میں بھیجنا پڑا، اسے چارفیول ا سٹیشن کے بعد آخر کار ایندھن مل سکا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تاہم یہ الارم غلط ثابت ہوا۔ ایک ایسی غلطی جس نے امریکہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر کو ہلا کر رکھ دیا جو پہلے ہی مشکلات کا شکار تھا ۔کلائمیٹ رپورٹر کے طور پر میں سنگین موسمی صورتحال پر رپورٹ کرنے کی عادی ہوں کچھ روز پہلے تک میں مالیوں میں لگنے والی آگ کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کا انٹرویو کر رہی تھی ۔اب میں کہانی کی دوسری طرف ہوں دو روز بعد جب ہمیں لوٹ مار کے بارے میں معلوم ہوا جو پبلسٹیٹیز میں ہو رہی تھی تو ہم نے سوچا کہ ہمیں واپس جا کر اپنے گھر کو دیکھنا چاہیے اور اہم اشیاء اٹھا لینی چاہیے ،جیسے فوٹو گراف جنرل اور خاندانی سونا دوپہر میرے صحافی ہونے کے باعث واپس جانے کا موقع ملا اور ہم اپنے گھر جاتی سڑک کے قریب پہنچے تو اپنے گھر کے سامنے آگ کے شعلے اور فائر انجن دیکھ کر میرا دل ڈوب گیا ۔ہم اپنے گھروں کے سامنے سے گزرے تو پورے کے پورے گھر ہی زمین بوس ہو چکے تھے ہم نے اپنی گاڑی پارک کی اور پیچھے کی طرف آکے جیسے ہی میں نے وہ منظر دیکھا میں ایسے کچھ قدم پیچھے ہوئی جیسے مجھے سے کوئی چیز ٹکرائی ہو جہاں ایک وقت تک 20گھر کھڑے تھے ،اب صرف انگاروں کے ڈھیر تھے۔ فائر فائٹرز جن کے چہرے راکھ سے اٹے ہوئے تھے ہم سے معذرت کر رہے تھے کہ وہ ہمارا گھر نہیں بچا پائے۔ میں رو رہی تھی اور ان کا شکریہ ادا کر رہی تھی کہ انہوں نے ہمارے لیے اتنا کچھ کیا ہے۔ میرے علاقے کا 90 فیصد حصہ زمین بوس ہو چکا ہے ۔سب ختم ہو چکا ہے ۔میں اب بھی اس دھچکے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اس تباہی سے اور خیال سے کہ میری کمیونٹی نے سب کچھ کھو دیا ۔میں شہر چھوڑنے کا منصوبہ رکھتی ہوں اور اپنے دوستوں کے پاس شمال میں جانے کے بارے میں سوچ رہی ہوں ،جہاں تحفظ بھی ہوگا اورآگ بھی نہیں ہوگی۔ میرے خیال میں اب مجھے لاس اینجلس واپس آنے میں کافی وقت لگے گا ۔یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ میرے پاس واپس جانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، نہ کوئی گھر نہ کوئی لائبریری نہ اسٹور نہ تھیٹر نہ کمیونٹی سینٹر یہ سب ہی ختم ہو چکا ۔میں یہی سوچتی رہتی ہوں کہ مجھے بھاگنے سے پہلے مزید سامان اٹھانا چاہیے تھا۔ مجھے وہ واضح لمحہ یاد آیا جب اپنے گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے بیڈ روم میں کھڑے ہو کر میں فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ مجھے اپنے ساتھ کون سی بالیاں لے کر جانی چاہیے پھر میں نے خود کو بآواز بلند کہا صرف وہی لے کر جاؤں جو تمہیں چاہیے تمہیں کیا چاہیے اور مجھے اپنے پسندیدہ کپڑوں جوتوں اور جیولری کو دیکھتے ہوئے لمحے میں خیال آیا کہ مجھے اس میں سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ میں نے اپنی نانی کی انگوٹھی پاسپورٹ اور برتھ سرٹیفکیٹ اٹھائے اور باقی سب جلنے کے لیے چھوڑ دیا۔
دنیا کا سب سے خوبصورت ترین شہر اس وقت راکھ میں بدل چکا ہے ۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ان لوگوں کے لیے جو تکبر میں ڈوبے ہوئے رہتے ہیں۔ امریکہ کی ساری ہالی وڈ انڈسٹری، امریکہ کی فلمیں ، دنیا کے ہر امیر ترین شخص کی خواہش اس کا گھر ہوتا اور گھر تھے جوسب جل کے ختم ہو گئے۔ اس کو لوگ جوڑ رہے ہیں جو کچھ غزہ کے ساتھ ہوا ، اس پر امریکہ اور امریکہ کے بااثر لوگ اسی لاس اینجلس شہر میں رہنے والے بلکہ دنیا کی سب سے بڑی بڑی سلیبرٹیز خاموش تھے۔ جو کچھ غزہ میں ہو رہا تھا سب امریکہ کے ذریعے ہو رہا تھا۔ اسرائیل خود سے کچھ نہیں کر سکتااگر امریکہ اسرائیل کو پیسے نہ دیتا،اگر امریکہ اسرائیل کو اسلحہ نہ دیتا، جہاز نہ دیتا ،بحری بیڑے اس کی حفاظت نہ کرتے تو اسرائیل کبھی بھی فلسطینیوں پرغزہ پر یہ ظلم ڈھا سکتا تھا جو وہ ڈھا رہا ہے۔ آج امریکی دربدر ہیںجنہوں نے فلسطینیوں اور اہل غزہ کے بچوں کو سڑکوں پر کھڑا کیا تھا ۔آج بغیر چھت کے اس شدید سردی کے اندر پناہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں کیمپس میں جا چکے ہیں جنہوں نے فلسطینیوں کو اور اہل غزہ کو کیمپس میں بھیجا تھا ۔یہ قانون قدرت ہے یہ جس طرح آگ لگی کوئی سوچ نہیں سکتا تھا ۔آج امریکہ جیسی عالمی طاقت سپر پاوربے بس صرف ایک آندھی چلی ، اس آندھی نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا ۔تصور کریں گے آگ 10مربع ایکڑ پہ لگی تھی اور پھیلتے پھیلتے یہ 36مربع ایکڑتک پھیل گئی ۔10ہزار فائر فائٹرآگ بجھانے میں مصروف رہے ،جبکہ دوسری ریاستوں سے بھی آگ بجھانے کے لیے فائر فائٹرز کو بلایا گیا۔ تقریبا ایک ہزار قیدیوں کوآگ بجھانے کے لیے وقتی طور پر رہا کر دیا گیا ۔اس آگ نے 12ہزار عمارتوں کو را کھ میں بدل دیا۔ ماہرین کے مطابق اس آگ سے 150ارب ڈالر سے لے کر 200 ارب ڈالر تک کا نقصان ہوا ہے ۔یہ ابتدائی تخمینہ ہے جبکہ نقصان اس سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔ دنیا کے لیے یہ ایک سبق ہے کہ امریکہ کا خوبصورت ترین شہر لاس اینجلس پلک جھپکتے ہی راکھ میں بدل گیا۔