وضع دار آدمی
شیئر کریں
سیاست کو مفادات کا کھیل کہا جاتا ہے اور سیاست کے بابت یہ تاثر ایسا کچھ غلط بھی نہیں۔ سیاست ایک علم ہے فن ہے جس کا جاننا نظام مملکت چلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے لیکن یہ تب ہوتا ہے جب اقتدار کی غلام گردشوں کے مسافر ذاتی مفادات کے اسیر نہیں عوامی حکومت کے حریص ہوتے ہیں اقتدار کے ایوانوں کے ایسے مکینوں کو گزرے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا بلکہ ایک عرصہ تو مختصر وقت ہے ایسے حکمرانوں کا دور صدیوں قبل بھی ختم ہوچکا ایسے حکمراں تو اس وقت ہوتے تھے جب حکم وقت دراصل خادم وقت ہوتا تھا ۔ جب سے خلافت کی جگہ بادشاہت نے لی ہے اور جمہوریت کے نام پر جمہور کو دھو کردیا جارہا ہے اسے حکمراں عنقا ہوگئے ہیں۔
ماضی پر نظر ڈالیں تو ایوان اقتدار کے مکینوں کی سنگ دلی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ جہاں اختیار کی خواہش اور اقتدار کی ہوس انسان کو جانوروں سے برتر بنا دیتی ہے ۔ انسانیت دم توڑ دیتی ہے ۔ انسان سانپ کا روپ دھار کر اپنے ہی بچوں کو نگلنے لگتا ہے۔ باپ اژدھا اور ماں ناگن بن جاتی ہے۔ تاریخ کے اور اق پلٹیں تو یہاں ایسے واقعات درج ہیں جنہیں دیکھ کر پڑھ کر انسانیت شرما جاتی ہے تاریخ بتاتی ہے کہ اقتدار کی ہوس میں باپ بیٹے کا دشمن ہوجاتا ہے۔ اپنی نسل کو ختم کرکے اپنا اقتدار بچاتا ہے اولاد کو ذنداں میں ڈال کر بھول جاتا ہے وہیں یہ ہولناک منظر بھی سامنے آتا ہے کہ بیٹا حصول اقتدار کی ہوس میں اندھا ہو کر باپ کو قید کرا دیتا ہے اس کی آنکھیں نکلوا دیتا ہے رشتوں کی حرمت کو بھلا کر حقیقی بہن کے ساتھ شادی رچا لیتا ہے کہ اس کو اس کے جوتشیوں نے بتایا تھا کہ اقتدار کی دیوی اس کی بہن کے شوہر پر مہربان ہے اور بہن کا شوہر کی وقت کا حاکم بنے گا۔
اقتدار اختیار اور ملک گیری کے لیے انسانوں کے سروں کے مینار تعمیر کرائے جاتے ہیں ڈیڈی کو ـــ”ڈوگی” بنا دیا جاتا ہے گالی اور گولی وقت کی زبان قرار پاتی ہے ہندی کہاوت کو عملی رنگ دیا جاتا ہے ہندی کہاہت ہے "خصم مار ستی ہوئی” کسی فرد کا نام لے کر چنے کھانے کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے اور خواہش سننے والے اس کی تعمیل میں ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں اس خواہش کا اظہار مذکورہ شخص کے لیے بلیک وارنٹ کا درجہ رکھتا ہے اور جب ان بلیک وارنٹ پر عمل ہوجاتا ہے تو مگرمچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں مقتول کے قتل کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیا جاتا ہے تعزیتی بیان جاری ہوتے ہیں فاتحا خوانی کرتے تصاویر ذرائع ابلاغ کی زینت بنائی جاتی ہے اور پھر اس شخص کی تلاش کا کام شروع ہوجاتا ہے جو اقتدار و اختیار کے لیے خطراہ بن سکتا ہے اور پھر تاریخ دہرائی جاتی ہے اور پھر ماضی قریب میں تو یہ عمل اس تسلسل کے ساتھ ہوا کہ ایک ایک د ن میں درجنوں افراد کے چنے پڑھائے گئے لیکن ہر عروج کو زوال ہے اور بزرگ کہتے ہیں کہ جب مشکل وقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ۔
جہاں اقتدار کے ہوس اور اختیار کی حرص سر چڑھ کر بول رہی ہے وہیں سیاست ریگزاروں میں ایسے گوہر نایاب بھی موجود ہیں جو وعدے کے سچے اور زبان کے دھنی ہیں سیاست اور روحانی گدی کا تعلق بھی ایک عرصہ سے قائم ہیں سندھ میں دو معروف گدی ہیں ایک پیر صاحب پگارا کی گدی اور دوسری مخدوم سرور نوح کی گدی پیر صاحب پگارا کی گدی سے تعلق رکھنے والے حر جماعت کہلاتے ہیں اور مخدوم سرور نوح کی گدی سے تعلق رکھنے والے سروری جماعت ، سروری جماعت کے قیام کو صدیاں گزر چکیں اس گدی سے وابستہ گدی نشین گزشتہ پانچ دہائیوں سے ایک ہی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں اور وہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی۔
29نومبر 1967کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسین کی حویلی میں جنم لینے والی پاکستان پیپلز پارٹی کا خاکہ مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ کی ہالا میں واقع حویلی میں تیار کیا گیا تھا اس خاکہ کی تیاری کے لیے ہونے والے اجلاس میںشرکت کے لیے ذوالفقار علی بھٹو حیدرآباد سے سینکڑوں تانگوں بگھیوں کے جلوس میں ہالا تشریف لائے تھے اس جلوس کا اہتمام میر رسول بخش تالپور مرحوم نے کیا تھا میر رسول بخش تا لپور مرحوم تانگہ مزدور یونین کے صدر اور درویش منش آدمی تھے ان کے فرزند میر رفیق تالپور سیاست سے کنارہ کش ہوچکے اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔
مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ سندھ کی دوسری بڑی گدی کے گدی نشین تھے جن کے اشارہ ابرہ پر سندھ کی سیاست کا رخ بدل سکتا تھا لیکن وہ وضع دار آدمی تھے ذوالفقار علی بھٹو سے جس دوستی کا عہد کیا وہ نہ صرف انہوں نے اپنی پوری زندگی میں نبھایا بلکہ مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ کے جا نشین اور بڑے فرزند مخدوم محمد امین فہیم نے بھی اپنے باپ کے قول کو نبھایا اور مخدوم خاندان کی تیسری نسل بھی اپنے بڑوں کے قول پر قائم ہے۔
1985میں جب ضیا ء الحق مرحوم نے غیر جماعتی انتخابات کرائے تو اس دوران شنیدہے کہ مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ سے رابطے کیے گئے اور نہ صرف وزارت اعظمیٰ کی پیشکش ہوئیْ بلکہ ساتھ ہی سندھ کی وزارت عالیہ بھی فرزند کے حوالہ کرنے کا عندیہ دیا گیا اس پوری پیشکش کے پس پردہ ایک ہی مطالبہ تھا کہ پیپلز پارٹی سے غیر اعلانیہ کنارہ کشی اختیار کرلی جائے پیشکش بظاھر بہت پرکشش تھی اور پیشکش کرنے والے بہت پراعتماد تھے کہ اس سے بہت کم پیشکش پر بھٹو کے پسینہ کی جگہ خون بہانے اور اولاد کو قربان کرنے کے دعویٰ دار بھٹو کا ساتھ چھوڑ چکے تھے اور ان میں بھٹو سے قرابت کے بہت سے دعویدار شامل تھے ْ۔ لیکن مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ نے پیشکش کرنے والے کو واضح جواب دیا تھا کہ مخدوم کی ایک زبان ہوتی ہے میں نے بھٹو سے ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا اب اس کی اولاد کا ساتھ چھوڑنا ممکن نہیں پھر 90کی دہائی کے اوائل میں مخدوم طالب المولیٰ نے داعی حق کو لبیک کہا اور اسکے ساتھ آپ کے فرزند مخدوم محمد امین فہیم گدی نشین ہوئے وقت گزرتا رہا اور ایک آمر کے بعددوسرے آمر کا دور آگیا 2002میں انتخابات کے بعد جنرل مشرف نے بھی پیپلز پارٹی میں شگاف ڈالنا چاہا لیکن منہ کی کھائی ہے۔
2002کے انتخابات میں محترمہ بے نظیربھٹو خود ساختہ جلاوطنی گزار رہی تھیں اور پیپلز پارٹی کے اتنے ارکان قومی اسمبلی موجود تھے کہ حکومت سازی آسان کام تھا ان حالات میں ذرائع حرکت میں آئے ایسے انتظامات کیے گئے کہ جہاں مخدوم امین فہیم کافی پی رہے ہوتے یاعشائیہ میں موجود ہوتے وہاں جنرل مشرف بھی پہنچ جاتے یوں ملاقاتوں کا غیر رسمی انتظام ہوجاتا ہے پھر 2002انتخابات نے ایک مزید آسانی کردی تھی کہ اب مخدوم محمد امین فہیم ہی پارٹی کے سربراہ تھے کہ الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ پارٹی کی سربراہی مخدوم امین فہیم کے ہاتھوں میں تھی لیکن مخدوم محمد امین فہیم کو اپنا قول یاد تھا بھٹو خاندان سے وفاداری کا قول۔ ایک جانب ذوالفقار بھی بھٹو کی بیٹی تھی تو دوسری جانب مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ کا فرزند، اقتدار کی چمک پر زبان کا وزن بھاری رہا۔ دو نسلوں نے اپنا اپنا قول نبھایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2008کے انتخابات سے قبل مخدوم محمد امین فہیم کو اپنا وزیر اعظم قرار دیا تھا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد اگرچہ اس اعلان پر عمل نہ ہوسکا اور محمد خان جونیجو کی کابینہ کا وزیر ضیاء الحق کی سیاسی نرسری کا لگایا ہوا پود ا وزیر اعظم بن گیا لیکن مخدوم محمد امین فہیم کی پیشانی پر بل تک نہ آیا ورنہ الیکشن کمیشن کو ایک مراسلہ ان تمام ارکان کی رکنیت ختم کراسکتا تھا۔ لیکن مخد وم محمد امین فہیم نے اقتدار پر قدیم تعلق کوترجیح دی۔ مخدوم محمد امین فہیم بھی گذشتہ سال اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کی گدی پر اب ان کے فرزند مخدوم جمیل الزماں گدی نشین ہیں دوسری جانب محترمہ بے نظیر بھٹو کی کرسی بھی بلاول زرداری نے سنبھالی ہوئی ہے یوں یہ تعلق اب تیسری نسل میں منتقل ہوا ہے مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ اور مخدوم محمد امین فہیم تو وضع دار آدمی تھے مخدوم جمیل الزماں میں بھی وہی خون دوڑ رہا ہے۔ اب بلاول زرداری کی ذمہ داری ہے کہ اس تعلق کو چوتھی اور پانچویں نسل تک منتقل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دیں ورنہ سب کے صبر کا پیمانہ مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ اور مخدوم محمدامین فہیم جیسا گہرا نہیں ہوتا۔