میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بے غیرت کے الفاظ اور دشنام طرازی

بے غیرت کے الفاظ اور دشنام طرازی

منتظم
جمعه, ۱۵ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کے سب سے پاپولر لیڈر کی حیثیت سے اور پنجاب کے سب سے ہر دلعزیز لیڈر کی حیثیت سے نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ میں یہ علم اُٹھا کر آیا ہوں کہ پارلیمان کی بادشاہی ،آئین اور قانون کی بالادستی ہو گی جو پشتون ان کا(میاں نواز شریف) کا ساتھ نہیں دے گا وہ بے غیرت ہے۔‘‘ یہ الفاظ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین ، رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی کے ہیںجو انہوں نے 2دسمبر کو کوئٹہ میں اپنے والد عبدالصمد خان اچکزئی کی 44ویں برسی پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ادا کیے۔جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اس عوامی اجتماع میں میاں نواز شریف خصوصی دعوت پر شریک ہوئے تھے اور تقریر بھی کی تھی۔ جلسہ میں مسلم لیگ نواز نے بھی بقدرِ جُثہ اپنا حصہ ڈال رکھا تھا۔ لفظ ’’بے غیرت ‘‘ کی ادائیگی محمود خان اچکزئی کے گلے پڑ گئی ہے۔ پاکستان ،سعودی عرب، خلیجی ممالک اور جہاں جہاں اُن کی تقریر کا یہ حصہ دیکھا یا سنا گیا وہاں سے چند ہی لمحوں میں شدید رد عمل کا اظہار بھی ہوا۔ چونکہ زمانہ سوشل میڈیا جیسے آزاد و غیر سنجیدہ فورم کا ہے۔اس فورم کے ذریعے ہر شخص کے الفاظ آن میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ گویا محمود خان اچکزئی اور اُن کی جماعت کو شدید کا تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن انجینئر زمرک خان اچکزئی نے خفگی کا اظہار کیا۔ اس ذیل میں لوگوں نے مغلظات بھی بکے ، بڑے عجیب اور نا زیبا الفاظ ادا ہوئے۔چناں چہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ گالم گلوچ اور بُرے القابات بالخصوص کسی قومی و سیاسی رہنماء کے بارے میں مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کو زیب نہیں د یتے۔ البتہ اختلاف رائے کا حق کسی کو بھی حاصل ہے ۔
محمود خان اچکزئی پر تنقید ہونی چاہئے تھی مگر اخلاق و تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ محمود خان اچکزئی کے ان الفاظ سے ہمیں بھی اختلاف ہے،ان کو ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔ کیونکہ ہر شخص سیاسی فیصلہ اپنے فہم و ادراک کے مطابق کرتا ہے۔ لہذاہونا یہ چاہئے تھا کہ پشتون عوا م سے اپیل کی جاتی کہ وہ آئین و قانون کی بالادستی کیلیے میاں نواز شریف کا ساتھ دیں۔ یقینا پارلیمان کی حکمرانی آئین و قانون کی بالادستی ہر چیز پر مقدم ہے اس کے خلاف کوئی بھی اقدام نا رواہے ۔ آمریت جمہوریت کی ضد ہے ۔ غیر جمہوری حکومتوں اور رویوں سے ملک کو نقصان سے دوچار ہونا پڑاہے ۔ سیاست و سیاسی نظام آلودہ ہوا ہے ۔ بلا شبہ ایسی کسی کوشش و اقدام کی حمایت نہیں کی جا سکتی جو جمہور کی رائے و منشاء کے خلا ف ہو۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی میاں نواز شریف اور ان کی جماعت پارلیمان کی بادشاہی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے معیار پر پورا اُترتی ہے ؟۔ میرے خیال سے مسلم لیگ نواز ،پیپلز پارٹی یا پھر تحریک انصاف کسی نے بھی اس ضمن میں فریضہ کما حقہ ادا نہیں کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتیں اور شخصیات کیا کیا گل کھلا رہی ہیں۔
بلوچستان کی حکومت کا جائزہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملات و امور میں کتنی شفاف اور کہاں تک آزاد ہے ؟۔محمود اچکزئی نے اس جلسے میں آئی جے آئی کے قیام کے دنوں میں ان کے قائدین کی کوئٹہ آمد کے موقع پر کالی جھنڈیوں سے استقبال کی وضاحت بھی پیش کی ہے ۔کہ تب اور آج کے نواز شریف میں بڑا فرق ہے ۔ گویا آئی جے آئی خفیہ اداروں کا بنایا ہوا انتخابی اتحاد تھا۔ اس اتحاد کی تشکیل پریقینا اُنگلیاں اُٹھی تھیں،مگر اس میں شامل دوسری جماعتوں کی نیت،آئین و جمہوریت پسندی پر شک نہیں ہونا چاہئے۔لیکن کیا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے افغانستان بارے پرویز مشرف کی پالیسیوں کی بادی النظر میں حمایت نہیں کی؟۔ جس نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اتحادی بنایا اور ملک کے ہوائی اڈے امریکیوں کے حوالے کر دئیے ،ہزاروں حملے افغانوں پر پاکستان کی سرزمین سے ہوئے اور افغان کٹتے اور مرتے ر ہے ۔جب عوامی نیشنل پارٹی میاں نواز شریف کے ساتھ اتحاد میںتھی تو تب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے ان کے اس فیصلے کو پشتون دشمنی کہہ ڈالا تھا۔ مجھے وہ نعرہ یاد ہے کہ جب اُن دنوں ایک احتجاجی جلوس میں ’’د پنجاب سرہ یاری ، د پشتون سہ بیزاری‘‘یعنی پنجاب سے یاری اور پشتون سے بیزاری کا سلوگن بلند کیا گیا تھا۔ پنجابی سامراج و استعمار کا نعرہ ویسے بھی پشتون و بلوچ ان جماعتوں کے ذریعے بڑا معروف بن چکا ہے ۔ ان نعروں کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔بلوچستان کے درو دیوار صوبائی و نسلی تعصبات کے الفاظ سے رنگین تھے ۔ ستر کی دہائی میں بلوچ قوم پرست تحریک کے ذریعے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نکالنے کی مہم بھی شروع کی گئی تھی۔ ایسے رویے پشتون قوم پرستوں میں بھی بدرجہاپائے جاتے تھے۔ 1958ء کے مارشل لاء میں عبدالصمد خان اچکزئی گرفتار ہوئے ، 1968ء میںرہا کر دئیے گئے۔ یعنی ایک لمباعرصہ پابند سلاسل رہے ۔رہائی کے بعد بذریعہ طیارہ پہنچے ، کوئٹہ ایئر پورٹ پر شاندار استقبال ہوا ۔ عبدالصمد خان اچکزئی جلوس کی شکل میں شہر لائے گئے ۔شرکاء شہر میں’’ پنجابی سامراج مردہ آباد‘‘اور’’ پنجابیو بلوچستان سے نکل جائو‘‘کے نعرے لگاتے رہے۔
غرضیکہ سیاست میںکوئی کسی بھی وقت کسی بھی سیاسی جماعت سے انتخابی و سیاسی اتحاد کر سکتا ہے ۔ اور ایسا ہونا بھی چاہئے تاہم ایسا نہ ہو کہ جب دوستی ہو تو دنیا جہاں کی خوبیاں دوست میںڈھونڈی جائیں۔اوردوری ہوتو اُس سے برا کوئی نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ساتھ کام کیا ہے اوران کے اختلافات بھی ڈھکے چھپے نہیں۔ جیکب آباد میں ہونے والی تین روزہ (27,28,29دسمبر 1932ء) کل ہند بلوچ کانفرنس کی صدارت عبدالصمد خان اچکزئی نے کی تھی ۔ اس کانفرنس کی صدارت خیر پور کے حاکم میر علی نواز خان تالپور نے کرنی تھی ۔ وہ بوجہ علالت نہ آسکے یوں یہ ذمہ داری عبدالصمد خان اچکزئی کو دی گئی ۔عبدالصمد خان اچکزئی 1933ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ اُس وقت علامہ محمد اقبال ؒ اس کانفرنس کے صدر تھے ۔1938ء میںانجمن وطن کے نام سے الگ جماعت قائم کی۔ اس جماعت کا مطالبہ ہندوستان میں قومی و لسانی بنیادوں پر وحدتوں کا قیام کا تھا۔ اور ’’ورورپشتون‘‘ کے نام سے بھی عبدالصمد خان اچکزئی نے سیاسی تحریک چلائی۔ ان کی قیدو بند کا دورانیہ تقریباً بائیس سال ہے ۔ ون یونٹ کے خلاف نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے مؤثر تحریک چلی ۔ اس تحریک کے سرکردہ رہنمائوں میں عبدالصمد خان اچکزئی شامل تھے ۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبے کے پشتون آبادی و علاقے بلوچستان میں مدغم کر دئیے گئے۔ یہ فیصلہ عبدالولی خان کی رضا و مرضی سے ہوا ۔ جس پر عبدالصمد خان اچکزئی شدید برہم ہوئے۔ وہ الگ پشتون صوبے یا وحدت کے خواہشمند تھے۔ کہ بلوچستان کے پشتون علاقے یعنی برٹش بلوچستان اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) پر مشتمل پر ایک صوبہ بنایا جائے۔ یہاں سے عبدالصمد خان اچکزئی کا بلوچ قوم پرستوں اور عبدالغفار خان کے خاندان سے سیاسی، فکری اور ترجیحات کا اختلاف پیدا ہوا۔اس طرح انہوں نے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے اپنی الگ جماعت بنائی۔
میں ذاتی طور پر عبدالصمد خان اچکزئی کا مطالبہ درست سمجھتا ہوں جس کی تائید آج خود عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کے اس اعلان سے بھی ہوا ہے کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام کے بعد وہ بلوچستان کے پشتون حصوں کو بھی خیبر پختونخوا میں شامل یا ضم کرنے کی تحریک چلائیں گے۔بلوچ سیاسی جماعتیں بھی گاہے گاہے الگ پشتون صوبے کے قیام کی حمایت کرتی رہتی ہیں۔مگروہ کوئٹہ کواس وحدت کا حصہ نہیں سمجھتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئٹہ کو پشتون وحدت سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ عبدالغفار خان کانگریس میں باضابطہ طور پر شامل ہو گئے تھے۔ البتہ عبدلصمد خان اچکزئی کانگریس سے فکری اشتراک عمل رکھتے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی یعنی نیپ کی بھی انڈین نیشنل کانگریس سے سیاسی ہم آہنگی تھی۔ پشتون جماعتیں اس نسبت سے آج بھی بھارت کیلیے وا لہانہ جذبات رکھتی ہیں۔اس تعلق کی بنیاد پر عبد الغفار خان کے لیے’’ سرحدی گاندھی ‘‘اور عبدالصمد خان اچکزئی کے لیے’’ بلوچی گاندھی ‘‘کے القابات وضع کیے گئے ہیں۔ بات آگے نکل گئی ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی کے ’’بے غیرت ‘‘ والے الفاظ قطعی نامناسب ہیں۔ اور وہ حلقے و افراد جنہوں نے بے لگام ہو کر دُشنام طرازی کی، کا فعل و حرکت قابل مذمت و نفرت ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں