میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیارے پاکستان میں روایتی سیاست کی ہنرکاریاں ۔۔۔۔!

پیارے پاکستان میں روایتی سیاست کی ہنرکاریاں ۔۔۔۔!

منتظم
جمعرات, ۱۵ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

bukhari-1

اسرار بخاری
سیاست کا مقصد تو متعین ہے مگر اس کے طریقہ کار میں تغیر و تبدیلی کی نئی نئی کونپلیں پھوٹتی رہتی ہیں ، سیاسی دانش میں اتار چڑھاو¿ بھی غیر معمولی بات نہیں ہے ، سیاستدان قائداعظم محمد علی جناح بھی تھے، سیاستدان میاں نوازشریف ، عمران خان ، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن بھی ہیں ، لیکن سیاست میں مضبوطی ¿ کردار اور پختگی نظریات کا جو بانکپن قائد کا طرہ امتیاز رہا ہے وہ آج کے سیاست دانوں میں خوردبین سے بھی نظر نہیں آئے گا ، وہ اتنا بلند معیار ہے کہ آج کے سیاستدانوں کو اس معیار پر پرکھنا اور اس معیار کا تقاضہ کرنا بلاشبہ زیادتی کے زمرے میں آئے گا ۔ آج کے سیاستدانوں کا سیاسی دانش ، سیاسی رویوں اور سیاسی نظریات کے حوالے سے موازنہ کیا جائے تو یہ ہی مناسب ہے ۔
پیپلزپارٹی کی سیاست کے انداز ،سیاسی نظریات میرے لئے کبھی متاثر کن نہیں رہے ، نہ تب جب 70ءسے 74ءتک اس پارٹی کی مقبولیت کا سورج نصف النہارپر تھا ۔البتہ اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ بے نظیر بھٹو کی زندگی تک یہ پارٹی چاروں صوبوں کی زنجیر رہی ہے ۔ بے نظیر کے سانحہ کے بعد اس پارٹی سے بھٹو کا سایہ بھی ختم ہوگیا ، اگرچہ آصف زرداری نے اپنی نسل کشی کرکے بلاول کو زرداری سے جعلی بھٹو بنانے کی کوشش کی مگر اس مصنوعی عمل سے حقیقی بھٹو کا کرشمہ بیدار نہیں ہوسکا ، پیپلزپارٹی کا کسی مداخلت کے بغیر پانچ سالہ اقتدار جس کا لمحہ لمحہ ناقص ترین کارکردگی سے عبارت ہے۔ آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات ، سرے محل، سوئس اکاو¿نٹس ،پیرس میںشاہی محل ڈائمنڈ ہار اور ہنڈرڈ پرسنٹ کی کہانیوں کا آسیب بلاول کا پیچھا کرتا رہے گا۔ آج شاید کوئی یقین کرنے کو تیار نہ ہو مگر ایک دن لوگ یہ چاند چڑھتا ہوا دیکھیں گے کہ آصف زرداری کے معاملات کا اونٹ سیدھی کروٹ بیٹھتے ہی بلاول کی سیاست اور قیادت کا ©چاند زرداری ہنرمندیوں کے بادلوں میں جا چھپے گا۔ بہرحال آصف زرداری کو میاں نوازشریف پر ساتھیوں پر اعتماد کے حوالے سے برتری ضرور حاصل ہے ،جو خود اپنی ذات پر اعتماد کامظہر ہے ۔ آصف زرداری نے جس طرح حکومتی عہدیداروں اور اختیارات کی تقسیم میں فراخدلی کا مظاہرہ کیا میاں نوازشریف کا اس حوالے سے باب خاموش ہے ، حالانکہ حکومتی عہدوں اور اختیارات کی تقسیم کے باوجود انہیں حکومت اور پارٹی پر اس طرح برتری حاصل رہی جس طرح آصف زرداری کا حکومت اور پارٹی پر غلبہ رہا ہے ۔ آصف زرداری کی صورت میں ایک ماڈل ان کے سامنے تھا ۔ وہ اپنا کر بہت سی قباحتوں سے بچ سکتے تھے ، ان کی جگہ کوئی وزیراعظم ہوتا حکومتی اقدامات اور کارکردگی کے منفی پہلو سب اس کے کھاتے میں جاتے ، پارٹی کے لوگوں کو حکومتی ، سیاسی اور پارٹی کے معاملات میں سرگرم شرکت کا احساس پارٹی کو ہر لمحے ہر آن فعال ، متحرک اور توانا رکھتا ۔
ان سطور میں متعدد بار نشاندہی کی گئی ہے کہ حکومتی معاملات کو چند من پسند افراد تک محدود کرنے کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پارٹی کے بہت سے اہم اور سیاسی دانش ، ویژن اور اثرورسوخ رکھنے والے لیڈر کچھ مایوس ہوکر اور رد عمل کے طور پر پیچھے ہٹ جائیں گے ۔ اور ان میں کسی مشکل کے وقت شعوری یا لاشعوری طور پر یہ سوچ جنم لے سکتی ہے کہ اب ایسے مرحلے میں بھی چہیتے ہی بروئے کار آئیں ۔ پاناما کیس کے مشکل مرحلے میں ایسی نشانیاں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ پارٹی کے بہت مخلص، تجربہ کار اور صاف ستھری شہرت کے حامل سیاستدان جن کی تعداد کم نہیں ہے خاموشی کے صحرا میں کہیں گم ہیں ، مشاہد اللہ ، نہال ہاشمی ، دانیال عزیز، طارق فضل چودھری ،مائرہ حمید اور وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب ہی سارا دفاعی بوجھ کیوں اٹھائے ہوئے ہیں ۔
پنجاب کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی اختیارات کا ارتکاز منہ چڑاتا نظر آئے گا۔ساتھ ہی ”کوئی نہ سر اٹھاکے چلے “کی پالیسی گل کھلاتی نظر آتی ہے ، (ن) لیگ کے ایم پی اے اور ایم پی اے کی جانب سے شرف باریابی اور حسرت دیدار کی کہانیاں تو ہیں ہی ،کیا تعجب نہ ہونا چاہیے کہ صوبائی وزرا بھی اختیارات کی محرومی کا شکار ہیں؟ پنجاب کابینہ میں توسیع نے بھی بعض سوالات اٹھائے ہیں بالخصوص زعیم حسین قادری اور سلمان رفیق کا وزیر بنایا جانا توقعات کے عین مطابق ہے لیکن انہیں جو وزارتیں دی گئی ہیں اس پر چہ مگوئیوں کا سلسلہ گرفتاری کے دوران بالخصوص بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد کے عرصے میں بنیامین رضوی کے بعد مسلم لیگ پنجاب کے ترجمان کے فرائض فرخ شاہ جدہ جلاوطنی تک انجام دیتے رہے۔ جلا وطنی کے دوران جو لوگ (ن)لیگ کا پرچم تھامے رہے ان میں زعیم حسین قادری اور سلمان رفیق بھی شامل ہیں، 2013ءکے الیکشن میں دونوں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ، وزیر اعلی شہبازشریف نے زعیم قادری کو پنجاب حکومت کا ترجمان مقرر کیا ۔اس حیثیت میں وہ جلسوں ، پریس کانفرنسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں شریف برادران کا دفاع اور پنجاب حکومت کی ترجمانی کرتے رہے ۔ وزیر اعلی شہباز شریف کی کانفرنسوں اور دیگر تقاریب کی کوریج کے سلسلے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے قریبی رابطے میں رہے ، اس لیے عمومی تاثر تھا کہ صوبائی وزارت اطلاعات کا قلم دان ان کے سپرد کیا جائے گا۔مگر لوگ ششدر رہ گئے جب یہ سنا گیا کہ انہیں مذہبی امور کا وزیر بنادیا گیا ہے ۔
اسی طرح خواجہ سلمان رفیق جو وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے چھوٹے بھائی ہیں انہیں وزیر اعلی نے مشیر صحت کا منصب دیا اس حیثیت میں اس نوجوان نے ہسپتالوں ، ڈاکٹروں ، پیرامیڈیکل اسٹاف اور ادویات وغیرہ کے حوالے سے دن رات کام کیا ، ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی آئے روز ہڑتالوں اور مظاہروں کو کنٹرول کرنے میں وزیراعلی کی بھرپور معاونت کی ، لیکن جب وزیر بنانے کا موقع آیا تو ان کی جگہ عمران نذیر کو وزیر صحت بنادیا گیا ، جب کہ عام طور پر یہ ہی سمجھا جارہا تھا کہ صحت کے شعبے میں مسلسل خدمات کے پیش نظر مشیر صحت سے وزیر صحت کا درجہ دیا جائے گا کیونکہ وہ اس شعبے کے حوالے سے خاصہ تجربہ حاصل کرچکے ہیں ، اگرچہ انہیں ہیلتھ کئیر کے شعبے کا وزیر بنایا گیا ہے مگر مکمل وزیر صحت نہ بنایا جانا ناقابل فہم ہے ۔
یہ سوال فطری ہے کہ وزیر اعلی شہباز شریف نے یہ فیصلہ کیوں کیا ؟ اس حقیقت سے تو وہ خود ہی آگاہ ہیں مگر سیاسی ، صحافتی اور عوامی حلقوں میں اسے ایک خاص سوچی سمجھی حکمت عملی سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ بعض یہ کوڑی لائے ہیں کہ اگر ان دونوں کو متعلقہ محکموں کا وزیر بنادیا جاتا تو ان کی شخصیتوںکو زیادہ ابھرنے کا موقع ملتا ، جبکہ شریف برادران کو ہر شخص کا ایک خاص حد تک جانا ہی گوارا ہے ، بالخصوص زعیم حسین قادری کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے پہلے ہی رابطہ تھا ،وزیر اطلاعات کی حیثیت میں یہ رابطہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوجاتا میڈیا میں انہیں زیادہ جگہ ملتی یہ خصوصی اہمیت ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافے کا باعث بنتیں جبکہ شریف برادران کی قیادت اس درخت کی طرح ہے جس کے تلے دوسرے پودوں کی نشونما ممکن نہیں ، کہ کل وہ اس کی” بلندی “ کے منہ لگنے لگیں ۔ پیارے پاکستان کی روایتی سیاست کا معروف چلن یہ ہی ہے ۔
زعیم حسین قادری اور خواجہ سلمان رفیق ن لیگ کے کارکن ہیں اس روایتی سیاست میں تو آصف زرداری کو بھی گوارا نہیں کہ بیٹا سیاسی قد کاٹھ میں آگے بڑھ جائے، بلاول زرداری کی بڑھتی ہوئی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو بار بار دبئی کے پھیرے لگوانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ عوام اور ریاستی طاقت کے سرچشموں پر واضح ہوجائے کہ پیپلزپارٹی کا اصل مرکز ثقل کہاں ہے ، اور پھر چشم فلک یہ نظارہ بھی کرسکتا ہے کہ جس گھڑی آصف زرداری کے” معاملات سیدھے “ہوئے پیپلزپارٹی کی سیاسی راجھ دھانی پر زرداری کا پھریراہی لہرائے گااور فیصلہ کن حیثیت ”ادی“ کو ہی حاصل ہوگی ۔ پیارے پاکستان کی روایتی سیاست کی یہ کرشمہ سازیاں ہرگز اچھنبے کی بات نہیں ہے ۔
روایتی سیاست کی نذر ہوجانے والا ایک اور کردار عمران خان کا بھی ہے۔ نئی امنگوں اور آرزو¿ں کو جگا کر انقلابی پروگرام کا پرچم تھامے سیاسی میدان میں اترنے والے عمران خان کو بھی حقیقی منزل نظام میں انقلابی تبدیلی کی بجائے جلد اور جیسے بھی اقدار ہی منزل مراد نظر آئی اور اس نے جان لیا کہ روایتی سیاست کو چیلنج کرنے کی بجائے حصول اقدار کے لیے” چلو تم ادھر کو ،ہوا ہو جدھر کی “ بہتر حکمت عملی ہے ۔ تب ہی تو دل کی بات بے ساختہ زبان پر آئی کہ مجھے” الیکٹ ایبل “ لوگ چاہئیں ، یعنی جو پارٹی یا پارٹی قائد کی حمایت اور پروگرام کی بجائے از خود الیکشن جیتنے کی اہلیت اور قوت رکھتے ہوں ۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ” الیکٹ ایبلز “سے عمران خان کا گھیرا تنگ ہوگیا ، ”اسٹیٹس کو “توڑنے والے ہاتھ ”اسٹیٹس کو “ کا ”کوڑا کرکٹ“ جمع کرنے میں مصروف ہوگئے ، اور” چہرے نہیں نظام بدلو “ کی حسرت ناتمام کے اسیر عوام پتھرائی آنکھوں سے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ ہاں وہ شب انتظار جس کی سحر ابھی بے یقینی کی دھند میں گم ہے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں