کراچی کو کب تک لوٹو گے؟
شیئر کریں
مجھے اب کراچی کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے ڈر لگتا ہے، چلتے چلتے اچانک کوئی گڑھا، گٹر ، سڑک کے بیچوں بیچ رکھا گملا، کسی گٹر میں کھڑا ہوا بانس ، فٹ پاتھ پر رکھا ہوا، صوفہ ، یا سڑک کے درمیان میں رکھا ہوا کمبوڈ ،یا پلاسٹک کا بڑا سا باتھ ٹب ، سڑک کے درمیان اگا ہوا درخت مجھے خطرہ کا نشان نظر آتا ہے۔ایک بار ہم گلشن اقبال میں ڈینٹسٹ کے پاس گئے، میرے بچے اس وقت چھوٹے تھے، بیٹے نے گاڑی کاایک طرف کا پچھلا دروازہ کھولا اور نیچے پیر رکھتے ہی غائب ہوگیا۔ اس سے بڑی بیٹی دوسرے دروازے سے اتری ، اور اس نے اپنے بھائی کو نیچے ہوتے ہوئے دیکھا، وہ بھاگ کو دوسری جانب پہنچی تو ایک گٹر کھلا ہوا تھا ، اور اس کا بھائی اس میں گر چکا تھا، میں گاڑی پارک کرنے میں مصروف تھا، جوں ہی گاڑی بند کی، مجھے میری بیٹی کی چیخوں کی آواز آئی، میں جب تک گاڑی سے نکلا ایک مجمع جمع ہوچکا تھا، اور ایک نیک دل شخص نے گٹر میں اتر کر فوراً ہی بچے کو باہر نکال لیا تھا۔ کیچٹر اور غلاظت اور کاکروچ اس کے جسم پر نظر آرہے تھے، اس ہولناک حادثے کا میری بیٹی پر شدید اثر ہوا، اور اس کی چیخیں اب بھی مجھے اس واقعہ کی یاد دلاتی ہیں۔ خود میں بھی ایک بار ایسے ہی حادثے میں زخمی ہوچکا ہوں، ناظم آباد کے علاقے میں جہاں میں نے گاڑی کھڑی کی تھی، واپسی پر ایک بند گٹر کے ایک حصے پر میرا پاؤں پڑا اور گٹر کا ڈھکن اٹھ گیا اور میں اس کے اندر گر گیا۔ لوگوں نے میری مدد کی اور مجھے نکال لیا، لیکن چوٹیں کئی دن تک اس حادثے کی یاد دلاتی رہیں۔کراچی میں کتنے بچے اور خواتین ، موٹر سائیکل سوار ایسے حادثوں کا شکار ہوچکے ہیں، کراچی میں ہر ایک موٹر سائیکل سوار اپنی زندگی میں کم و بیش ایک دو بار ایسے حادثوں سے دوچار ہوتا ہے۔ آرتھوپیڈک کے کیسیز کراچی میں بہت زیادہ ہیں۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کم و بیش چالیس برس سے اس شہر پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ درمیان میں دو تین بار بلدیات اور مئیر شپ جماعت اسلامی کے حصے میں بھی آئی ہے، لیکن مئیر عبدالستار افغانی ، اور نعمت اللہ خان نے جو خدمت کا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے، ایم کیو ایم کے میئرزاور پارٹی کے ایڈمنسٹریٹرز اس کے پاسنگ کو بھی نہ پہنچ سکے، رہی سہی کسر پیپلز پارٹی نے موجودہ دور میں پوری کردی ، اب سندھ کے دیہات اور کراچی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے، دونوں اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں، کراچی میں ٹرانسپورٹ کا بدترین نظام ہے، چنگ چی رکشوں ، موٹر سائیکلوں کی کثرت، پانی کے ٹینکروں کی مسلسل آمد و رفت نے پورے کراچی کے مواصلاتی نظام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات اس شہر کی ضرورت ہیں، بہت سے ایسے مسائل جو تھوڑی بہت توجہ سے حل ہوسکتے ہیں، وہ ایماندار اور خدمت کرنے والے نمائندوں کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں۔ کراچی میں صفائی کا نظام ابتر ہے، حکومت نے جس کمپنی کو کروڑوں روپے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے، اب اس کی کچرا اٹھانے والی گاڑیاں کہیں نظر نہیں آتی، کچرے کے پلاسٹک کے بڑے ڈرم بھی غائب ہوگئے ہیں، اب کچرا اٹھانے کے لیے موٹر سائیکلوں پر لگے ٹھیلے نما سائکل رکشہ استعمال ہوتے ہیں، وہ بھی کہیں کہیں کچر اٹھاتے اور اسے شہر ہی میں کسی جگہ ڈمپ کرتے نظر آتے ہیں، تین ہٹی سے گرومندر تک شہر کی اہم اور مصروف ترین دو طرفہ سڑک جہانگیر روڈ برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لیکن سندھ حکومت یا بلدیاتی ادارے اسے مکمل طور بنانے کو تیار نہیں، گذشتہ دنوں سڑک کے ایک حصے کی مرمت کی گئی تھی، جو ایک ہی بارش میں بہہ گئی۔ اسی طرح گرومندر اور لسبیلہ چوک پر گہرے گہرے گڑھے پڑ گئے ہیں، جنہیں پر کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ جیل چورنگی پر بنے فلائی اورر سے جب یونیورسٹی روڈ پر اترا جائے تو یونیورسٹی روڈ اور فلائی کے ملاپ کے مقام پر سڑک مکمل طور پر ٹوٹ گئی ہے، جس کے باعث ہروقت یہاں کسی جان لیوا حادثے کا خطرہ موجود ہے۔ کشمیرروڈپر پڑھے گڑھے اور یونیورسٹی روڈ سے سر شاہ سلیمان روڈ کی جانب مڑنے والی سڑک پر ٹوٹ پھوٹ بھی ٹریفک کی روانی کو حسن اسکوائر کے قریب شدید متاثر کرتے ہیں، جہاں ایک سڑک دوسری سے قریباً 4سے6انچ نیچے ہوگئی ہے، اس کے باعث یہاں ٹریفک جام رہنے کے ساتھ ساتھ حادثے کا خطرہ بھی ہر وقت موجود ہے، مگر کوئی اس پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔لیاقت آباد سے کریم آباد کی طرف جاتے ہوئے لیاقت فلائی اوور پر اور شہید ملت روڈ پر بنے عمر شریف انڈر پاس میں کئی جگہ گڑھوں کی موجودگی سے بھی ٹریفک کی روانی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ حادثات کا امکان ہر دم رہتا ہے۔یہ کراچی کے پوش علاقے ہیں ، باقی علاقوں کی تباہی تو دیکھی نہیں جاسکتی۔
کل سے کراچی میں چار روزہ بین الاقوامی دفاعی نمائش آئیڈیاز 2022 کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ہونے جارہی ہے، جس کا افتتاح وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کریں گے۔ اس نمائش کے لیے حسن اسکوئر کے اطراف میں سڑکوں کو جس جادوئی طریقہ پر راتوں رات اپ ڈیٹ کیا گیا ہے، وہ ہماری بیوکریسی کا شاہکار ہے، ایکسپو کے سامنے سوک سینٹر کے چوراہے سے سارا کچرا صاف کردیا گیا ہے، بلکہ پودے اور گھاس بھی لگا دی گئی ہے، تاکہ وزیر اعظم کو بتایا جاسکے کہ کراچی بہت ترقی یافتہ ہے۔ وزیر اعظم کو مزار قائد اعظم پر آنا چاہیے اور گرومندر کے اطراف کا بھی دورہ کرنا چاہیے، اگر وہ اس کا صرف اعلان کردیں تو صبح کو آپ کو صاف ستھرا چمکتا دمکتا گرومندر کا علاقہ دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ چار روزہ دفاعی نمائش ڈیفنس ایکسپو سینٹر میں ہوگی۔ اور یہ چار دن ایکسپو کے آس پاس رہنے والوں کے لیے کس قدر عذاب ناک ہوں گے، اس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ پورے شہر کا ٹریفک درہم برہم ہوگا۔ لوگ گھنٹوں ٹریفک میں چار دن تک بار بار پھنسے رہیں گے۔ دل تو چاہتا ہے کہ یہ ایکسپو سینٹر اور کراچی اسٹیڈیم یہاں سے اٹھا کر بلاول ہاوس کے سامنے منتقل کرادوں۔
اب کراچی میں چوتھی بار بلدیاتی انتخابات ملتوی ہورہے ہیں۔ سندھ کابینہ نے کراچی ڈویژن میں بلدیاتی الیکشن 90 روز کے لیے ملتوی کرنے کی منظوری دیدی ہے سندھ کابینہ کی منظوری سے متعلق الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا۔ پیپلز پارٹی کا ساتھ متحدہ بھی دے رہی ہے، اور سابق ناکام ، اور 12 مئی کے ماسٹر مائنڈمیئر نے عدالت میں ان انتخابات کے التوا کی درخواست دی ہے۔ ایک سے ایک بہانے اورطریقے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس بار بلدیاتی الیکشن آگے بڑھانے کے لیے سندھ حکومت نے بلدیاتی ایکٹ میں ملنے والے اختیارات کا استعمال کیا ہے۔بلدیاتی ایکٹ میں شق 34 کو تبدیل کرنے سے 120 دن میں الیکشن ہر صورت کرانے کی پابندی ختم ہوگئی۔ اب تبدیلی کے بعد انتخابات 90 دن یا غیر معینہ مدت تک بھی نہیں کرائے جاسکیں گے۔
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی میں عوامی مسائل کو جس طرح اٹھایا، لوگوں میں اپنے حقوق کا شعور بیدار کیا، اس سے حکومت اور متحدہ کو خطرہ ہے کہ انتخابات کا یہ میدان حافظ نعیم الرحمان جیت لیں گے۔ اس لیے انھوں نے ہر طرح عوام کے عوامی نمائندوں کو آنے سے روکنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت ، اور متحدہ ملے ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سیاسی اور غیر قانونی ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کراچی سے جو خیر کی امیدیں تھیں وہ بھی یہ دیکھ کر ختم ہوگئی ہیں کہ سڑکوں کی استرکاری کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن، ناقص میٹریل کا استعمال سب کچھ ان کے دور میں ہورہی ہے۔
کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اس سال بھی اس شہر کے باسیوں نے 42فیصد زیادہ ٹیکس جمع کروایا ہے لیکن اس کے باوجود کراچی کے مسائل سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔