اپوزیشن کاایم کیوایم ،ق لیگ سے رابطے کافیصلہ ،قانون سازی میں حکومت کاساتھ نہ دینے کااعلان
شیئر کریں
متحدہ اپوزیشن نے اہم قومی معاملات پر قانون سازی کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں کہا ہے کہ شخصی بنیادوں پر قانون سازی کے لیے حکومت کا ساتھ نہیں دیا جا سکتا۔ اپوزیشن جماعتوں کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا ورچوئل اجلاس ہوا جس میں یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، مریم اورنگزیب اور شزا فاطمہ شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ ورچوئل اجلاس میں شیری رحمان، شازیہ مری اور کامران مرتضیٰ بھی شریک شریک ہوئے۔اسٹیرنگ کمیٹی کے ورچوئل اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے اپوزیشن کو لکھے گئے خط کے جواب کے لیے متن کے نکات پر غور کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ قانون سازی ایسی ہو جو آئین اور قانون کے مطابق ہو۔کمیٹی اراکین کا کہنا تھا کہ حکومت چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملے میں آئین کی خلاف ورزی چاہتی ہے، شخصی بنیادوں پر قانون سازی کے معاملے میں حکومت کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا تاہم حکومت کے ساتھ قانون بہتربنانے پربات ہو سکتی ہے۔اسٹیئرنگ کمیٹی نے چیئرمین سینیٹ کا کمیٹی ارکان کی تبدیلی کا نوٹیفکیشن مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جان بوجھ کر کمیٹی میں 2 ایسے ارکان کو شامل کیا جو الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دیتے رہے، حکومت کی جانب سے کمیٹی میں ایم کیوایم اور ق لیگ کی نمائندگی ختم کرنے پربھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔اس حوالے سے ذرائع کا بتانا ہے کہ اسٹیئرنگ کمیٹی اس معاملے پر ق لیگ اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ بھی رابطہ کرے گی۔ورچوئل اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی کے خط کے جواب میں کہا گیا کہ گزشتہ 8 ہفتوں میں پارلیمانی کمیٹی ایک بھی اجلاس نہیں ہوا، کمیٹی کے 3 اجلاس 9 جون، 30 اگست اور 9 ستمبر کو ہوئے، حکومتی ارکان کے عدم تعاون کے باعث ضابطے کی شرائط کو حتمی شکل نہ دی جا سکی۔اپوزیشن کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اس دوران مجوزہ مسودات کی قانونی مدت پوری ہو گئی یا پھر سینیٹ نے انہیں مسترد کر دیا، یہ مجوزہ قانونی مسودات پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس کے حوالے ہو چکے ہیں، ان حالات میں قانون سازی کیلئے تشکیل کردہ آپ کی کمیٹی کا مقصد فوت ہو چکا ہے۔اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ قومی مفاد کی حامل قانون سازی اتفاق رائے اور مشاورت سے ہونی چاہیے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل کمیٹی انتخابی اصلاحات کے پورے پیکج کو زیر غور لائے، پارلیمانی کمیٹی انتخابات (ترمیمی) بلز 2021 سمیت انتخابی اصلاحات کا پیکج اتفاق رائے سے تیار کرے۔ اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ایوانوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹی اصلاحات کا جائزہ لیکرمتفقہ منظوری دے، پارلیمانی کمیٹی 25 جولائی 2014 کو تشکیل کردہ کمیٹی کی بنیاد پربنائی جائے، 25 جولائی 2014 کو تشکیل کردہ کمیٹی نے 117 اجلاس کیے، کمیٹی نے متفقہ طورپر20 نومبر2017 کو انتخابی اصلاحات منظور کیں۔متحدہ اپوزیشن کے خط میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی سے منظور اور سینیٹ سے مسترد ہونے والے بل کمیٹی برائے قانون سازی میں زیر غور لائے جائیں، ہم سمجھتے ہیں کہ قومی اہمیت کے امور پر اتفاق رائے درکار ہے، پارلیمانی طریقہ کار اور روایات کو اپنایا جائے۔