پاناما زدہ حکمرانوں کو اقامہ زدہ بنانے والے عدالتی فیصلے کا جائزہ
شیئر کریں
قانون کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نوز شریف کے خاندان کی سیاست کا اعلیٰ عدلیہ نے دھڑن تختہ کردیا ہے۔ فوجی آمروں کے خلاف پیپلز پارٹی نے جنگ لڑی جس کی وجہ سے یہ پارٹی کافی مرتبہ اقتدار میں رہی۔ لیکن بعد ازاں زرداری صاحب کی قیادت میں اِس پارٹی کا بھی صفایا ہوگیا ہے کم ازکم پنجاب خیبر پی کے اور بلوچستان میں تو یہی صورتحال ہے۔ جناب نواز شریف کی جانب سے بارہا کہا گیا کہ مجھے کیوں نکالا۔ اور اُن کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک ریویو پٹیشن بھی دائر کی گئی جس میں تو پھر سپریم کورٹ نے نواز شریف کو کھری کھری سُنا دیں کہ آپ نے تو پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر عوام کو بے وقوف بنایا۔ اِس عہد کی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے شریف فیملی کے مقدمات کے جو فیصلہ جات آئے ہیں اُن کا تصور نواز شریف کبھی خواب میں بھی نہ کر سکتے تھے۔ اِس لیے نواز شریف گلہ پھاڑ پھاڑ کر کہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔ بہرحال نواز شریف جو محاذ آرائی کا ماحول بنا رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کوئی ایسا اقدام اُٹھانے پر مجبور ہو جائے جس کا وہ بعد میں فائدہ اُٹھا سکیں۔
مریم نواز شریف بنام عمران خان نیازی کیس جس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا تھا بعد ازاں اِس فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ جس کا فیصلہ سُنایاگیا۔ کیونکہ اِس کیس نے پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کردیا اور نواز شریف اِس کیس کے فیصلے بعد شدید غصے میں آئے۔ اُن کا یہ مکالمہ زبان زدِ عام ہوگیا کہ مجھے کیوں نکالا۔ کیس پانامہ کا تھا نکالا اقامہ پہ گیا۔سول ریویو پٹیشن نمبر 297/2017 اِن کانسٹی ٹیوشن پٹیشن آف 29, 30 /2016 کیس بنام یم نواز شریف وغیرہ بنام عمران خن نیازی وغیرہ۔اِس اپیل کا فیصلہ 15-9-2017 کو سُنایا گیا۔ کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد،شیخ عظمت سعید، اعجاز الحسن اور اعجاز افضل خان نے کی ۔جبکہ پٹیشنرز کی جانب سے خواجہ حارث ، شاہد حامد ، سلمان اکرم راجہ ایڈوکیٹس پیش ہوئے ۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نیب اِس فیصلے کی تاریخ سے چھ ہفتوں کے اندر اندر احتساب عدالت راولپنڈی/ اسلام آباد میں درج ذیل ریفرنسز دائر کرئے اور یہ ریفرنس اُس مواد کی بنیاد پر ہوگا جو کہ جے آئی ٹی نے اکٹھا کیا ہے یا جس کا حوالہ جے آئی ٹی نے دیا اور دوسرا مواد وہ جو ایف آئی اے اور نیب نے درج ذیل اثاثہ جات کے حوالے سے اکھٹا کریں گے یا کوئی بھی مواد جو قانون کی مدد کے لیے دستیاب ہو۔ ریفرنس میں میاں محمد نواز شریف جو کہ ریسپاونڈنٹ نمبر 1 ہیں مریم صفدر جو کہ ریسپونڈنٹ نمبر 6، حسین نواز شریف ریسپاونڈنٹ نمبر 7 اور حسن نواز ریسپانڈنٹ نمبر 8 محمد صفدرریسپاونڈنٹ نمبر 9جن کا تعلق ایون فیلڈ پراپرٹی فلیٹ نمبر 16,16-A,17, 17-A ایوین فیلڈ ہاوس ، پارک لین لندن یوکے سے ہے۔اِس ریفرنس کی تیاری اور اِس کو دائر کرنے کے لیے جو مواد پہلے سے ہی انوسٹی گیشن کے دوران حاصل ہوا۔اُس کو دیکھا جائے گا اِس کا ذکر تفصیلی فیصلے میں موجود ہے۔کیس کے فیصلے میں جیسے کہ بتایا گیا ہے کہ ریسپانڈنٹ نمبر ایک سا ت اور آٹھ کے خلاف ریفرنس دائر ہوگا جو کہ عزیزیہ سٹیل کمپنی اور ہل میٹل اسٹیبلیشمنٹ کے بارے میں ہے۔ ریسپانڈنٹ نمبر ایک ، سات اور آٹھ کے خلاف ریفرنس اُن کمپنیوں کی بابت دائر ہوگا جن کے متعلق متفقہ رائے سے مسٹر جسٹس اعجاز افضل خان ، مسٹر جسٹس عظمت سعید اور مسٹر جسٹس اعجاز الحسن نے فیصلہ دیا۔
ریسپانڈنٹ نمبر دس کے خلاف اِسی طرح ریفرنس دائر ہوگا جن کے پاس اُن کی ظاہر کردہ آمدنی سے زائد کے اثاثہ جات ہیں جس کو اِس کیس کے فیصلے کے پیراگراف نمبر نو میں بیان کیا گیا ہے۔ جن کے متعلق متفقہ رائے سے مسٹر جسٹس اعجاز افضل خان ، مسٹر جسٹس عظمت سعید اور مسٹر جسٹس اعجاز الحسن نے فیصلہ دیا ۔ نیب کیس کی سماعت کے دوران دوسرے تمام افراد جن میں شیخ سعید، موسی گیلانی، کاشف مسعود قاضی،جاوید کیانی اور سعید احمد کو بھی شامل کیا جائے گا ۔ کیونکہ اِن افراد کا ڈائرکٹ یا ان ڈائرکٹ تعلق ریسپاونڈنٹ نمبر ایک چھ ، سات آٹھ اور دس کے ساتھ ہے۔ نیب جب محسوس کرئے تو کسی اور اثاثے کی بابت سپلمنٹری ریفرنس دائر کرئے جب یہ محسوس ہو کہ بہتر طور پر اثاثہ جات کی چھان بین نہیں کی گئی ہے۔ احتساب عدالت ریفرنس دائر ہونے کے چھ ماہ کے اندر اندر اِن ریفرنسز کا فیصلہ کرئے۔اگر احتساب عدالت کے سامنے ایسے کاغذات، معاہدہ یا بیان حلفی ہوں اور یہ حقیقت آئے کہ یہ جھوٹ فراوراڈ پر مبنی ہیں تو احتساب عدالت ریسپاونڈنٹ کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کرئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکسان میاں محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دئیے جانے کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرئے۔جس کے بعد اُن کی بطور وزیر اعظم نااہلی ہوجائے گی۔ صدر پاکستان تمام ضروری اقدامات کریں۔ جو کہ جمہوری نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں ہونے والی کاروائی کو سپروائز کرنے کے لیے جناب چیف جسٹس آف پاکستان ایک محترم جج صاحب کو مقرر فرمائیں۔
(جاری ہیں)