ایم کیو ایم …پی ایس پی اتحاد!
شیئر کریں
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ 8 نومبر 2017ء کو کراچی پریس کلب میں پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال کے ساتھ ان کا ملاپ اور اس کے دوسرے ہی دن جدائی ڈرامہ نہیں تھا لیکن ان کی اس بات کا یقین بہت کم لوگوں کو آیا ہے ۔ بات ہی ایسی ہے کہاں پاکستان کی سب سے بڑی میڈیا ٹیم اور ٹی وی کیمروں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی اور اتحاد کا دعویٰ کہ دونوں پارٹیاں آپس میں ضم ہوکر نئی پارٹی تشکیل دیں گی ۔ نئے منشور اور نئے انتخابی نشان کے تحت الیکشن 2018ء میں حصہ لیں گی ۔ کراچی اور حیدر آباد کا ووٹ بینک تقسیم نہیں ہونے دیں گی ۔ لیکن 24 گھنٹے بعد ہی دونوں پارٹیوں میں اتنا فاصلہ کہ سارا منظر دھندلا گیا ڈاکٹر فاروق ستار کو مصطفی کمال میں خامیاں نظر آگئیں ۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں پی ایس پی کے رہنما سے ان کی نئی پراڈو اور پراپرٹی کا حساب مانگ لیا اور سب کچھ میڈیا کے سامنے بیان کردیا ۔ ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر مصطفی کمال نے ہماری 6 ماہ سے جاری مشاورت کے حوالے سے دوبارہ بات کی تو وہ ان تمام باتوں کو منظر عام پر لے آئیں گے جو ہمارے درمیان ہوئی تھیں ۔
یہ ایک خوشگوار شادی کا افسوسناک انجام ہے ۔ اتنی جلدی کایا پلٹ کی تو کسی کو بھی امید نہیں تھی ۔ اس لیے ڈاکٹر فاروق ستار کی الٹے قدموں واپسی پر کسی کو یقین نہیں آرہا ہے ،انہوں نے سیاست اور پارٹی سے دستبرداری کا فیصلہ سنانے کے لیے اپنی والدہ بیگم عبدالستار اور اہلیہ افشاں فاروق کا سہارا لیا ۔ جمعرات کی شب پی آئی بی میں واقع ان کی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کے جذباتی مناظر میڈیا پر سامنے آچکے ہیں ۔ اس پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما عامر خان کے علاوہ والدہ اور اہلیہ ڈاکٹر فاروق ستار بھی نمایاں تھے ۔ صاف نظر آرہا تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار دو کشتیوں میں سوار ہیں ۔ ایک طرف وہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی اور کارکنوں کے دبائو میں نظر آئے جو انہیں پارٹی کا سربراہ دیکھنا چاہتے ہیں اور پارٹی کا نام ‘ منشور اور انتخابی نشان پتنگ تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار پی ایس پی کے ساتھ اتحاد اور مل کر عام انتخابات میں حصہ لینے کے وعدے پر بھی قائم ہیں یہاں ان سے یہ چوک ہو گئی کہ پی ایس پی سے اتحاد کے معاملے میں وہ تنہا نظر آئے ۔ اگر چہ وہ یہ مسئلہ رابطہ کمیٹی کے سپرد کردیتے تو ایک جانب رابطہ کمیٹی کی عزت افزائی ہوتی اور دوسری طرف وہ کسی بھی جگہ جوابدہی سے بچ جاتے ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن اب انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال کے بقول ایم کیو ایم اس کے بانی الطاف حسین کی ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ جہاں بھی ایم کیو ایم کا نام آئیگا ۔ الطاف حسین کا ذکر بھی ہوگا ۔ جس طرح سے پاکستان اور قائد اعظم کے ذکر کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے اسی طرح ایم کیو ایم اور الطاف حسین لازم و ملزوم ہیں ۔
سید مصطفی کمال اور انیس احمد قائم خانی کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے نام سے سیاست کرنے کا مقصد الطاف حسین کو مضبوط کرنا ہوگا لہٰذا نئے نام سے سیاست کی جائے اور الیکشن لڑا جائے تاکہ نئے مینڈیٹ پر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی چھاپ نہ ہو ۔ یہ وہ تحفظات اور محسوسات ہیں جو ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی کے الائنس میں رکاوٹ بن گئے ہیں اور رابطہ کمیٹی و کارکنوں کا موڈ دیکھ کر ڈاکٹر فاروق ستار کو الٹے قدموں واپس ہونا پڑا ہے ۔ وہ اس معاملے میں کافی آزردہ اور پشیمان نظر آتے ہیں ۔ متحدہ پاکستان اور پی ایس پی کی صف اول کی قیادت کے درمیان ’’نامعلوم تیسری جگہ‘‘ پر جو مذاکرات ہوئے ‘ ان کے بارے میں پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال نے بالکل واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ان مذاکرات کی محرک اسٹیبلشمنٹ تھی ۔ اس کا اسکرپٹ تیار کرنے والوں میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن بھی شامل تھے سید مصطفی کمال نے تو یہاں تک منکشف کردیا کہ 23 اگست کو ایم کیو ایم پاکستان بنانے والے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بلال اکبر تھے اور اس جماعت کو اسٹیبلشمنٹ نے جنم دیا ہے ۔ گویا کہ 22 اگست 2016ء کی شب بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے لندن سے ٹیلیفونک خطاب کے بعد جو کریک ڈائون شروع ہوا اس میں الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کو اسٹیبلشمنٹ نے پناہ دی تھی ۔
برصغیر کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ 1947ء میں آزادی سے قبل ہندوئوں کی جماعت کانگریس اور مسلمانوں کی جماعت مسلم لیگ مسٹر ھیوم نامی شخص نے تشکیل دی تھیں ۔ ان دونوں جماعتوں کے اکثر لیڈر انگریزوں کے پروردہ تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک بیشتر سیاستدانوں نے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پرورش پائی اور پروان چڑھے ۔ پی ایس پی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے بڑی دیانتداری کے ساتھ یہ اقرار کیا ہے کہ اپنے گرفتار کارکنوں کی رہائی کے لیے ان کا اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ رہتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ سوات کو ’’را‘‘ کے ایجنٹوں سے آزاد کرانے کے لیے سب سے اہم کردار فوج کا تھا ۔ یہی کیس کراچی کا ہے ۔ سوچ کی یکسانیت پی ٹی آئی اور پی ایس پی کو تو یکجا کرسکتی ہے لیکن ایم کیو ایم کے ساتھ ’’شادی‘‘ ممکن نہیں ہے ۔ ایم کیو ایم کی بنیاد ’’مہاجر کارڈ‘‘ ہے اور پی ایس پی کے پروگرام سے ’’لسانیت‘‘ خارج ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان نے نئے سرے سے کراچی صوبہ کی بات کی ہے اور پی ایس پی کی قیادت کہتی ہے کہ 38 سال کے دوران ’’مہاجر کارڈ‘‘ کھیلنے والوں نے 25 ہزار نعشیں دی ہیں ،بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور پی ایس پی مل جائیں تو سندھ کی دیہی اور شہری سیاست کو نئی طاقت مل سکتی ہے ۔ اندرون سندھ سے کئی اہم شخصیات تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرچکی ہیں ۔ ان میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی ‘ ممتاز علی بھٹو اور سردار یار محمد رند جیسی نمایاں موثر شخصیات بھی شامل ہیں ۔
شاہ مردان شاہ پیر صاحب پگارا مرحوم کا کہنا تھا کہ 1947ء سے دیکھتے آرہے ہیں ‘ مہاجروں نے کبھی عقل کی سیاست نہیں کی ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ 1947ء میں ہندوستان سے ہجرت کا کرب برداشت کرکے سندھ میں آباد ہونے والے مہاجروں نے اپنی قابلیت اور ہنرمندی کے باعث اہم مقام حاصل کرلیا ۔ اس وقت بیورو کریسی میں 87 فیصد سے زائد اعلیٰ تعلیمافتہ مہاجر شامل تھے ۔ اہم پی پی پی رہنما بیرسٹر کمال اظفر کے سسر (مہاجر) ایس ایس جعفری لاہور کے ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے لیکن بتدریج مہاجر بیورو کریٹس کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے نکال دیا گیا ۔ آج وہ چند فیصد بھی نہیں ہیں ۔ دوسری حماقت یہ ہوئی کہ 1968ء میں صدر جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر کراچی کی سابقہ وفاقی حیثیت بحال کرنے کی بات کی تو محمود الحق عثمانی ‘ نواب مظفر حسین خان ‘ نواب یامین خان سمیت اس وقت کے مہاجر سیاستدانوں نے یہ منصوبہ اور کراچی صوبہ مسترد کردیا جبکہ اندرون سندھ سے میرمنور تالپور جیسے سیاستدانوں نے کراچی کی سندھ سے علیحدگی کے لیے بھوک ہڑتال بھی کی ۔ لیکن اس وقت کی مہاجر قیادت تیار نہیں ہوئی ۔
تیسرا موقع سندھ کے شہری علاقوں میں آباد مہاجروں کی جماعت ایم کیو ایم کا عروج تھا جو 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں عظیم الشان کامیابی سے شروع ہوکر 22 اگست 2016ء کو اختتام پذیر ہوا جب پارٹی کے بانی الطاف حسین کی لندن سے ایک متنازعہ تقریر کے باعث اسٹیبلشمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناراضگی کا سبب بنی ۔ دوسرے ہی دن پارٹی کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے اپنا راستہ الگ کرکے ایم کیو ایم پاکستان کی تشکیل کا اعلان کردیا ۔ چند روز قبل مصطفی کمال اور انیس احمد قائم خانی کی سربراہی میں قائم ہونے والے ایک اور دھڑے پاک سر زمین پارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے انضمام کی کہانی 24گھنٹوں میں تحلیل ہوگئی ۔ ایک پارٹی ایک نشان اور ایک منشور کے تحت عام انتخابات لڑنے کا اعلان محض چند گھنٹوں میں ہی ہوا میں بکھر گیا اور دونوں جماعتوں کی قیادت ایک بار پھر ایک دوسرے کی مخالفت میں صف آرا ہوگئی ۔ سندھ حکومت کی زیادتیاں ‘ سندھ کے اقتدار سے مہاجروں کا اخراج ‘ بلدیاتی اداروں کی منتخب قیادت کو اختیارات اور فنڈز کی فراہمی سے انکار جیسے گرم موضوعات پر لڑنے کی بجائے ایک دوسرے کے بخیئے ادھیڑے جارہے ہیں، 1984ء میں بننے والی ایم کیو ایم چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اب تو سابق صدر پاکستان پرویز مشرف بھی مہاجروں کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنا اپنا جال پھینکنے کے لیے کوشاں ہیں۔