میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفریاد۔۔۔قسط11

سفریاد۔۔۔قسط11

منتظم
منگل, ۱۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
جادریہ کالج میں نوکری کا پہلا دن تھا، فکر کی وجہ سے آنکھ صبح الارم سے پہلے ہی کھل گئی۔واش رومز کیمپ میں کچھ فاصلے پر بنے ہوئے تھے پانی بہت ٹھنڈا تھا، صحراکی یہی خاصیت ہے دن کتنے بھی گرم ہوں راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو ناشتے کی فکر ستانے لگی۔ ہم نے ناشتے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا تھا اس لیے کیبن میں واپس پہنچے اور دوبارہ لیٹ گئے، ڈیوٹی پر جانے میں ابھی کافی وقت تھا۔پتہ نہیں کب آنکھ پھر لگ گئی، آنکھ کھلی تو سات بج رہے تھے۔ جلدی جلدی تیار ہو کر کیبن سے باہر نکلے۔ اسٹاف کی گاڑی نکل چکی تھی ، کالج کوئی ایسا دور نہیں تھا اس لیے ہم نے پیدل جانے کی ٹھانی اور چل پڑے۔پندرہ بیس منٹ کی واک کے بعد ہم کالج میں تھے۔بھاگم بھاگ ایڈمن منیجر کے پاس پہنچے ،سلام دعا کے بعد گلال صاحب کے بارے میں دریافت کیا،اس نے کوریڈور کے آخر میں واقع پرچیزر کے کمرے میں جانے کو کہا۔پرچیزر کے کمرے میں پہنچے تو ایک پختہ رنگ کے صاحب جو فارغ البال بھی تھے ایک ٹیبل کے سامنے بیٹھے نظر آئے ، ان کے ساتھ والی ٹیبل خالی تھی۔ہم نے ان صاحب کو گلال صاحب سمجھا اور سلام جڑ دیا۔ہو آر یو۔جواب انگریزی میں آیا۔ ہم نے بھی سوال داغ دیا ، ہو آر یو سر۔ جواب آیا آئی ایم ورگسِ ،آئی ایم فرام شری لنکا۔ان صاحب کا نام ورگسِ تھا اور تعلق ان کا سری لنکا سے تھا۔ ہم نے گلال صاحب کے بارے میں دریافت کیا۔ورگسِ نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بتایا وہ آنے ہی والے ہیں شائد ان کی گاڑی لیٹ ہو گئی ہے۔ ناچار ہم ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور گلال صاحب کا انتظار کرنے لگے،ورگسِ صاحب اپنے کام میں لگ گئے۔ کوئی دس منٹ بعد ایک گورے چٹے ادھیڑ عمر کے صاحب پتلون قمیض میں ملبوس کمرے میں داخل ہوئے ہماری طرف ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی، ورگسِ سے ہیلو ہائے کی اور اپنی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ہم نے ذرا ہمت کرکے ان سے انگریزی میں پوچھا ہمیں گلال صاحب سے ملنا ہے وہ کب آئیں گے۔جواب آیا آئی ایم جلال الدین واٹ کین آئی ڈو فار یو، یعنی میرا نام جلال الدین ہے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ہم نے فوراً اردو میں اپنا تعارف کروایا اور بتایا ہمارا تعلق پاکستان سے ہے ۔ انہوں نے گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور بتایا انہیں علم تھا ہم اس کالج میں اپائنٹ ہوئے ہیں اور وہ بھی ہم سے ملنا چاہتے تھے۔ ہم نے کہا ہم تو گلال صاحب کو تلاش کررہے تھے آپ تو جلال نکلے۔اس پر جلال الدین صاحب نے قہقہہ لگایا ، پھر انہوں نے بتایا کہ مصری جلال کا تلفظ گلال کرتے ہیں ، ہم نے حیرت سے پوچھا وہ کیوں ؟تو کہنے لگے مصریوں کے یہاں جیم نہیں ہوتا اس کا تلفظ وہ گیم سے کرتے ہیں۔جلال گلال ہے، جدہ گدہ ہے، جوہر گوہر ہے۔ہم نے کہا یہ کیا مصیبت ہے، یہاں قاف بھی گاف ہے اور جیم بھی گاف ہے ۔ ان کی بات چیت کیسے سمجھ میں آتی ہوگی۔جلال صاحب نے کہا فکر مت کرو، کچھ عرصے میں عادی ہو جاو¿ گے۔
مصریوں کی زبان تو عربی ہے لیکن یہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی عربی سے بہت مختلف زبان ہے۔اصل میں عرب ممالک کے عوام روزمرہ زندگی میں معیاری عربی کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ اپنے اپنے خطوں کے لہجے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب لہجے ایک دوسرے سے بہت مختلف اور عموماً باہم ناقابلِ فہم ہیں، اس لیے ا±ن سب کو جدا زبانیں قراردیا جا سکتا ہے۔لیکن چونکہ تمام عرب ممالک میں ایک مشترکہ ثقافت، مشترکہ تاریخ اور مشترکہ شناخت کا احساس موجود ہے، اس لیے ان لہجوں کو الگ زبانوں کے بجائے عربی کے لہجے ہی کہا جاتا ہے۔ مصریوں کا لہجہ بھی باقی عرب ملکوں کی زبان سے بہت مختلف ہے۔ یہاں معیاری یا جدید عربی کے بارے میں کچھ معلومات بھی دیتے چلیں۔ انیسویں صدی عیسوی میں جب عرب نشاةِ ثانیہ کا آغاز ہوا تو عربی زبان اپنے جدید دور میں وارد ہوئی اور ایک نئی معیاری عربی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس ثقافتی نشاةِ ثانیہ کے مراکز شام، لبنان اور مصر تھے۔جدید معیاری عربی کی دستوری بنیاد قرآنی عربی ہی پر ہے۔جہاں تک قواعدِ صرف و نحو کی بات ہے تو قرآنی عربی اور جدید معیاری عربی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق صرف لفظیات اور اسلوب کا ہے، یعنی کلاسیکی عربی کے بہت سے الفاظ اب استعمال نہیں ہوتے یا اگر ہوتے ہیں تو ا±ن کے معنی تبدیل ہو گئے ہیں۔ جدید عربی میں دورِ جدید کے مفاہیم بیان کرنے کے لیے ہزاروں الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ زبان تمام عرب ممالک کی سرکاری اور درسی زبان ہے اور تمام کتابیں اسی معیاری عربی میں لکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اخبارات ، ٹی وی چینلوں اورپروگراموں کی رسمی زبان بھی یہی جدید عربی ہے۔مصری عربی ہجے میں جیم کا تلفظ ادا نہیں کیا جاتا اس کی جگہ گیم کا استعمال ہوتا ہے، اسی لیے مصری ایڈمن منیجر نے جلال صاحب کا نام گلال بتایا تھااور دو روز تک اس مخمصے میں پھنسے رہے کہ یہ گلال بھلا کیسا پاکستانی نام ہے۔خیر اب جلال الدین صاحب سے ملاقات ہوئی تو یہ عقدہ کھلا۔۔۔۔ (جاری ہے)
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں