میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان سی پیک سے پی کیپ تک

پاکستان سی پیک سے پی کیپ تک

منتظم
منگل, ۱۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

mohammad-ashraf-qureshi

محمد اشرف قریشی
کہتے ہیں کہ تاریخ حالات کے تناظر میں رقم کی جاتی ہے جس میں ایسے واقعات قلم بند کئے جاتے ہیں جس سے قومیں نہ صرف آگاہ ہوکر سبق حاصل کرتی ہیں بلکہ عبرت بھی پکڑ کر سیاہ اور سفید کا امتیاز کرتی ہیں، ہمیں یہ لکھنے، سمجھنے اور کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ ہمارا وطن عزیز قائم ہوا تو اس کا شمارمدینے کے بعد پہلی اسلامی اور نظریاتی مملکت میں ہوا لیکن یہ تسلیم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ یہ مملکت اپنے قیام کے بنیادی تقاضوں اور اصولوں پہ نہ آسکی۔ یہ ملک سیاست کا وہ اکھاڑا بنادیا گیا جہاں ایسے ایسے لوگ سیاسی پہلوان بن کر اکھاڑے میں اترے جنہوں نے سیاست کے وہ شرمناک تماشے دکھائے کہ قوم نہ صرف ورطہ¿ حیرت میں پڑتی رہی بلکہ کف افسوس بھی ملتی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم من حیث القوم مایوسیوں کے حصار میں بند ہوچکے ہیں، نام نہاد سیاست کی طرح جمہوریت بھی نام نہاد بن چکی ہے کہ آج جو کچھ کہا جاتا ہے اس کو تسلیم کرنا ہی مشکل محسوس ہوتا ہے۔
گزشتہ روز میاں نواز شریف نے گوادر میں اقتصادی راہداری (سی پیک) پر انتہائی پُرجوش خطاب کیا اور کاشغر سے گوادر تک کی تجارتی راہ ایک تاریخی کردار ادا کرے گی، ہم میاں نواز شریف کی اس کارروائی اور جدوجہد کو سراہتے ضرور ہیںاور خراج تحسین بھی پیش کریں گے لیکن یہ بھی انہیں یاد دلاتے ہیں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اس کے سیاسی تقاضے کچھ اور بھی ہیں جن کو پورا کرنا سیاسی کردار کی ترجیحات میں تھا، اور وہ یہ کہ نظام اسلامی ہو، امن، ترقی، خوشحالی اور قومی بقاءمضبوط اور پائیدار ہو مگر قوم نے ابھی تک ان ترجیحات کی بہاریں نہیں دیکھیں۔ ملک کے تمام صوبے سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہیں، سندھ پیپلز پارٹی، پنجاب مسلم لیگ، پختونخواپاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان مسلم لیگ (ن)کے پاس ہے اس کے باوجود کوئی بھی صوبہ امن میں ہے اور نہ ہی ترقی میں۔ ہم یہاں پر وقت کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے سرحدوں کے پائیدار امن کے ساتھ ملک کے داخلی حالات پر کنٹرول کرتے ہوئے دہشت اور وحشت کے اندھیرے کو ختم کیا، یہ سپہ سالار کی بے پناہ عسکری خدمات تھیں کہ قوم نے جنرل راحیل شریف کو اپنے دل میں بٹھادیا اور ان کی درازی¿ عمر، صحت اور تندرستی کے لیے ہاتھ اٹھاتی رہی، پھر یہ چشم فرش سے لے کر چشم عرش نے دیکھا کہ قوم اس مطالبہ پر آگئی کہ وہ ابھی جانے کی بات نہ کریں اور اگر وہ چلے گئے تو ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہوگا اور ہماری حیثیت بے یارومددگار سے زیادہ نہ ہوگی۔ عوام سیاستدا نوں کو کاٹھ کے گھوڑے ہی سمجھ رہے ہےں اور اگر عوام کے لیے امیدوں کا چراغ سحر ہے تو وہ مسلح افواج کی قیادت ہے، آج جمہوری حکومت نے سی پیک کو موضوع سخن بنالیا ہے مگر عوام کو سی پیک سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی پی کیپ سے ہے، چونکہ پی کیپ ہی ہمارے وقار کی علامت اور ضمانت محسوس ہورہی ہے اور اگر پی کیپ کی حامل عسکری قیادت قوم کے سر پر نہ کھڑی ہوتی تو پھر ہمارا ملک اور ملک کا ہر شہر سوالیہ نشان بن چکا ہوتا، ہم سیاست نہیں بلکہ پی کیپ زندہ باد کی آواز سن رہے ہیں، ابھی ملک کے داخلی حالات سنگین ہیں ، دہشت گرد پھر سرگرم ہورہے ہیں، دھماکے جاری ہیں، چوریاں اور ڈکیتیاں ہورہی ہیں اور حکومت سی پیک کی طفل تسلی دے رہی ہے اور دیگر صوبائی حکومتیں بھی ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہی ہیں۔ ہم حکومت کو اس خبر سے باخبر کررہے ہیں کہ امن و امان ملک کی اہم ترین ضرورت ہے کہ یہ پائیدار ہوگا تو تعمیر و ترقی کا پائیدار ہونا یقینی ہے ۔ورنہ قوم اگر غیض و غضب میں آگئی تو پھر حکمرانوں کی گفتگو اور رفتار میں فالج گر پڑے گا، ہم جمہوریت پسند اور جمہوریت کے پاسدار ضرور ہیں لیکن جمہوریت بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑنا شروع کردے تو پھر اس کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کو تلاش اور آپریشن کیلیے سرجن کے پاس جانا پڑتا ہے، شائد کے اُترجائے تیرے دل میں میری بات۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں