میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جرات رندانہ

جرات رندانہ

منتظم
منگل, ۱۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

اشتیاق احمد خان
پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ، اپنے مطالبات پیش کرنا، حزب اقتدار کا مذاکرات کی میز سجاناجمہوریت کا حسن ہے۔ یہ تمام جمہوری قوتوں اور جمہوریت کے دعویداروںکے مفاد میں ہے کہ جمہوری اقدار کا احترام کیا جائے۔لیکن ایسے معاملات جو عدالت میںزیر سماعت ہوں ان کو بنیاد بنا کر پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب دوست نہیں بلکہ برادر ملک ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اس اجلاس سے خطاب کرنے والے ہوں، غیرمناسب عمل ہے۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات قیام پاکستان سے قبل سے ہیں۔ ترکی میں پاکستانیوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ احترام اس ترکی میں ہے جو جدیدترکی ہے۔ مصظفیٰ کمال پاشا کا ترکی، لیکن اس ترکی نے 80 سال بعد انگڑائی لی ہے ،خلافت عثمانیہ کی طرف رجوع کی انگڑائی۔
ترکی میں پاکستان اور پاکستانیوں کا احترام کیوں ہے ،اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ مصطفی کمال پاشا کے جدیدترکی جہاں قرآن کریم کاعربی نسخہ رکھنا اور پڑھنا جرم قرارپاچکاتھا جہاں خلافت عثمانیہ کی ہرنشانی مٹاناجدت پسندوں کی شناخت بن چکا تھا ، اس ترکی کے عوام پاکستان اورپاکستانیوں سے یوں محبت کرتے ہیں کہ جب ترکی میں خلافت عثمانیہ کو ختم کیا جارہا تھا تو اس وقت کے برصغیر کے مسلمانوں نے تحفظ خلافت عثما نیہ کی تحریک چلائی تھی ۔ وقتی طور پر یہ تحریک ناکام ہوگی تھی اور خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی تھی لیکن جدید ترکی جس کو لادین بنانے کے لیے کیا کیا جتن نا کیے گئے تھے، عربی میںاذان اور تلاوت پر پابندی لگائی ، حجاب جرم قرا رپایا اور با حجاب طالبا ت پر تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے، جہاں ترکی زبان کے ساتھ یونانی اور انگریزی کی تعلیم دی جاتی رہی لیکن عربی زبان کااستعمال جرم قرار پایا، جہاں جدت پسندوں نے فوج کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے © ” نام نہاد” جمہوری اقدار کا بھی پاس نہیں رکھا اور پارلیمنٹ میں ایک تہائی نمائندگی فوج کے نامزد افسروں کا حق قرار پائی، جہاں قدم قدم پر شریک اقتدار ہونے کے باوجود فوج نے مکمل اختیار اور اقتدار حاصل کرنا اپنا فرض جانا ۔اس ہی جدید ترکی کی قدیم روایات کے دلدادہ رجب طیب اردگان پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ہیں ۔
ایسے موقع پر ہر پاکستانی کا فرض بنتا ہے کہ اپنے اس محترم دوست کا احترام کریں ، پارلیمنٹ میں انکی تقریر غور سے سنےں۔ نواز شریف کی ضد اور طرز حکومت کو بنیاد بنا کر اپنے دوستوں کے فرمودات سے محروم ہونا نہ تو ذاتی طور پر، نہ ہی سیاسی طور پر فائدے مند ثابت ہو سکتا ہے ۔اس طرز عمل سے خود عمران خان کے بابت حکمرانوں کا تراشہ ہوا ضدی، ہٹ دھرم اور اختلاف برائے اختلاف کا چہرہ مستحکم ہی ہو سکتاہے۔
یہ درست ہے کہ نواز شریف نے پاناما لیکس پر جو طرز اپنایا ہے وہ درست نہیں ہے ۔حسن نواز اور حسین نواز کے بیرونی ملک سرمایہ کاری پر اعتراض کسی کونہیں ہے لیکن جب وزیراعظم کے اہل خانہ ہی ملک میں سرمایہ کاری پرآمادہ نہ ہو ں تو پھر بیرونی سرمایہ کار کیونکر پاکستان آنے کو تیار ہونگے۔حسن نواز اور حسین نواز کی سرمایہ کاری پر یہ بھی اعتراض نہیں ہے کہ یہ سرمایہ آیا کیسے؟ پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ سرمایہ بیرون ملک کیسے گیا؟ آمدنی کے ذرائع تو ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اصل اہمیت کا سوال یہ ہے کہ سرمایہ منتقل جن ذرائع سے ہوا،وہ قانونی تھے یا غیرقانونی؟ جب ان ذرائع کا قانونی اور غیرقانونی ہونا طے پا جائے گا تو آمدنی ذرائع کی تحقیق بھی ہو جائے گی اور اس تحقیق کا آغاز اگر عمران خان نیازی سے ہو تو یہ ملک اور عمران خان دونوں کے حق میں ہو گا۔
کرپشن صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ،پاناما لیکس میں صرف پاکستانیوں کا ہی نام نہیں ،دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو گا جس کے صاحبان اختیار کا نام ان پیپرز کا حصہ نہیں ہو۔لیکن ایک فرق ہے، کئی ممالک کے صاحبان اختیار واقتدار نے ان پیپرز میں اپنا نام آنے کے بعد اقتدار واختیار تو خیر باد کہا،خودکو احتساب کے لیے پیش کیا لیکن پاکستان میں کاروائی کے بجائے تاخیری حربے استعمال کیے گئے ،الزام تراشی کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع ہوا، اپنے جرم کو درست ثابت کرنے کے لیے دوسروں کے جرائم کا حوالہ دیا گیا،یوں بات بننے کے بجائے بگڑ گئی۔ یہ ساری صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔اب معاملہ کیونکہ عدالت عظمیٰ میں ہے لہٰذا اس وقت کسی بھی فریق کی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش بیک فائر بھی کر سکتی ہے ۔
ترک صدر رجب طیب اردگان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے یہ خطاب جمہوری قوتوں کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ان سے وہ گر معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فوج کے پارلیمنٹ میں ایک تہائی حصہ اور غلبہ رکھنے کے باوجود وہ کونسا جادو تھا جس کا اثر عوام پر ہوا اور وہ خالی ہاتھوں اس طرح ٹینکوں کے سامنے آئے کہ ٹینک سواروں کا اقتدار پر قبضے کا خواب تو رہا ہی ادھورا، انہیں اپنی جان بچانا بھی دشوار ہو گیا۔ایسا کونسا صور تھا جو عمومی ذرائع ابلاغ پر باغیوں کے قبضہ کے باوجود محدود سوشل میڈیا کے ذریعے پھونکا گیااور جس کا اثر یہ نکلا کہ رات گئے ترکی کی ہر سڑک پر عوام کا "بابا بابا” کے نعرے لگاتا ہجوم تھا جو نہ سنگینوں کی پروا کر رہا تھا نہ ہی ٹینکوں کی گھن گرج اس پر اثرانداز ہو رہی تھی، وہ کونسا” ٹوٹکا©” ہے جس نے پورے ترکی کو ” پاپا ” کا دیوانہ بنا دیا ہے۔ترک عوام رجب طیب اردگان کو بابا کہتے ہیں اور باپ کا درجہ دیتے ہیں۔
رجب طیب اردگان نے استنبول کے میئر سے جس سفر کا آغاز کیا تھا اور ترکی میں جمہوریت کے نام پر ماضی میں جو کچھ ہوا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے رجب طیب اردگان کے پیشرو نجم الدین اربکان اور اس سے قبل سلمان ڈیمرل کی حکومتیں کالعدم قرار دے دی گئیں،کتنے فوجی انقلاب آئے ،ترکی کی موجودہ حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے کتنے نام بدلے، کتنی بار کالعدم قرار پائی لیکن ان جوانوں نے جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ سفر آج بھی جاری ہے ۔رجب طیب اردگان نے استنبول کے میئر کی حیثیت سے عوام کو سہولیتں فراہم کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ سلسلہ وزیر اعظم اور صدر کے طور پر بھی جاری رکھاہے ۔ان ہی سہولیات کے ثمرات ہیں کہ جس کے نتیجے میں خالی ہاتھوں عوام نے توپ اور ٹینک کے رخ موڑ دیے اور اپنے محبوب حکمرانوں کی حمایت میں ٹینکوں کا سامنا کرنے نکل آئے اورانہوں نے چاک دامن کو پرچم بنا لیا۔
اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے معروف صحافی اور سیاح عبیداللہ کیہر جنہوں نے گزشتہ انتخابات کے دوران ترکی کا سفر کیا تھا اور انتخابی عمل کا جائزہ لیا تھا اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں ہم نے جب لوگوں کو رجب طیب اردگان کا نام لیتے نہیں سنا اور ہرطرف ” بابا” کے نعرے تھے توہمیں حیرت ہوئی وہ لکھتے ہیں کہ میں ایک حجام کی دکان پر داڑھی بنوا رہا تھا ،حجام پڑھا لکھا شخص تھا جو ترکی کے علاوہ انگریزی بھی جانتا تھا، اس دوران ہماری گفتگو جاری تھی، میں نے پوچھا کہ وہ کس کو ووٹ دے گا حجام کا برملا جواب تھا ” بابا”۔ میں جہاں بھی گیا تھا "بابا” کے حق میں نعرے سنے تھے۔ اس حجام سے پوچھ لیا کہ یہ”بابا” ہے کون؟ حجام پہلے تو حیران ہوا جب میں ” بابا” کو نہیں جانتا پھر اس نے بتایا کہ ” بابا” رجب طیب اردگان ہیں ، ترک عوام انہیں محبت سے ” بابا” کہتے ہیں۔ میں نے حجام سے ” بابا” کو ووٹ دینے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ ” بابا” نے ہماری زندگیوں کو آسان کیا ہے ۔اس نے بتایا کہ وہ روزگار کے سلسلے میں استنبول میں ہے اور اس کا خاندان استنبول سے ہزار میل سے زائد فاصلے پر رہتا ہے،” بابا” کے اقتدار میں آنے سے پہلے گھر جانا ایک خواب تھا جو سال میں ایک دو بار ہی پورا ہوتا تھا لیکن ” بابا” کی حکومت نے سفری سہولیات بڑھا دی ہیں ۔ہوائی جہازوں کے کرائے ریل سے بھی کم کر دیے ہیں بلکہ ریل کا ایک طرفہ کرایہ تھا، اتنی ہی رقم میں جہاز سے دو مرتبہ گھر جایا اور واپس آیا جا سکتا ہے پھر بھی کچھ رقم بچ جاتی ہے۔اشیائے ضروریات کی قیمتوں کو کم کیا ہے روزگار کے مواقعے بڑھائے ہیں ،آج ترکی کا ہر شہری خوشحال ہے ۔عبید اللہ کیہر لکھتے ہیں کہ یہ میرا ترکی کا پہلا سفر نہیں تھا میں نے اس سے قبل بھی کئی مرتبہ ترکی کا سفر کیاہے لیکن اس مرتبہ ترکی بہت بدلا بدلا ساتھا ۔مثبت اور تعمیری تبدیلی نمایاں تھی۔
پاکستانی سیاستدانوں کو رجب طیب اردگان کے خطاب کو رسمی اور روایتی طور پر نہیں لینا چاہیے بلکہ ان سے وہ گر بھی سیکھانا چاہیے کہ جن کی بنیاد پر عوام کو کس طرح فوج اور ٹینکوں کے سامنے لا کھڑا کیا جا سکتا ہے۔امریکا کا اتحادی ہوتے ہوئے کس طرح امریکا میں موجود اور امریکی پروردہ فتح اللہ گولن کی سازش کو ناکام بنایا ہے۔کون سا طریقہ اختیار کر کے عوام کی خدمت کی ہے، عوام کو ریلیف دیا ہے۔ یہ گر جس سیاستدان نے بھی رجب طیب اردگان سے سیکھ لیے مستقبل اسی کا ہے۔ عمران خان نیازی کو مشورہ ہے کہ وہ اس وقت سیاسی اختلاف بھلا کر نواز شریف کو نیچا دکھانے کے لیے پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیں۔” بابا” سے خصوصی ملاقات کریں تاکہ وہ بھی پاکستانی عوام کو ریلیف دینے کے گر سیکھ سکیں، ترکی کا مطالعاتی دورہ کریں اور اس دورے میں اپنے ساتھیوں کو بھی ساتھ لیکر جائیں اور وہاں سے کچھ سیکھ کر آئیں تاکہ تحریک انصاف صرف نام کی ہی نہیں حقیقت میں انصاف کی تحریک بن سکے ورنہ بلے اور بِلے میں کوئی فرق نہیں ،شیر یونہی چیر پھاڑ کرتا رہے گا ۔تیر دلوں کوہی نہیں روح کو بھی زخمی کرتا رہے گا۔کتاب خوبصورت الفاظ تک محدود رہے گی۔عوام کی زندگیوں میں سکھ کے لمحات ناپید ہی رہیں گے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں