میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پشتون صوبہ وقت کی ضرورت

پشتون صوبہ وقت کی ضرورت

منتظم
منگل, ۱۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

اعظم الفت بلوچ
ایک متحد اور علیحدہ پشتون صوبہ آج ملک میں ایک اہم ضرورت بنتا جارہا ہے ۔ پاکستان کے شمال مغربی صوبے بشمول خیبر پختونخوا، دس اضلاع پر مشتمل شمالی بلوچستان اور فاٹا کے عوام اپنی تاریخ ، رسم و رواج ، ثقافت ، موسم اور ماحول کی وجہ سے وادی سندھ کی( سندھ وپنجاب کی) 5000 سال قدیم تہذیب سے بڑی حد تک مختلف ہیں ۔ انگریز سامراج کے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں وارد ہونے کے بعد بلوچ اور پشتون دونوں قوموں نے الگ الگ مگر غیر مقامی قوت کے خلاف 200 سال تک آزادی کو برقرار رکھنے کیلیے جدوجہد کی ۔ تاہم جب اپنے عہد کی مضبوط عسکری قوت آزادقبائل کو مطیع کرنے میں کامیاب ہوگئی اور مقامی افراد کی حاکمیت کو ختم کرکے افغانستان اور ایران کی سرحد پر واقع وسیع علاقے کو برٹش انڈیا میں ضم کردیا ۔
انگریز سامراج نے علاقے میں اپنی حاکمیت برقرار رکھنے اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلیے تقسیم در تقسیم کی پالیسی کو اختیار کیا ۔ انگریز کی واپسی کے بعد نئی ریاست میں ہونا تو چاہیے تھا کہ پشتو زبان بولنے والی قوم پر مشتمل ایک علیحدہ صوبہ ،سندھ اور پنجاب کی طرز پر قومیت اور زبان کی بنیاد پر قائم کیاجاتا ۔ انگریز تو ایک نوآبادیاتی قوت تھا۔ تقسیم در تقسیم تو انگریز سامراج کی پالیسی کا حصہ رہا لیکن ایک ہی خطے میں پشتون قوم کو تین حصوں میں آزادی کے بعد بھی منقسم رکھنا سراسر انگریز کی DEVIDE & RULE POLICY کو جاری رکھنے کے سوا کچھ نہیں ۔ پاکستان میں اگر تقسیم در تقسیم کی پالیسی کو ترک کرکے قوموں کو جوڑنے کی پالیسی اختیار کی جاتی تو خیبر پختونخوا، فاٹا، شمالی بلوچستان ، کراچی ، مڈل ایسٹ، مشرق بعید ، یورپ اور امریکا تک بکھری ہوئی پشتون قوم ایک متحد قوم کی صورت میںموجود ہوتی اور ملک کی مجموعی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کررہی ہوتی ۔
انگریز سرکار نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلیے اور خطہ کی جیو پولیٹیکل صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تاجکستان تک بڑھتی ہوئی روسی پیش قدمی کو افغانستان تک محدود رکھنے اور برصغیر میں اپنی نوآبادیات کو محفوظ رکھنے کیلیے افغانستان کو BUFFER ZONE کے طورپر استعمال کیا تاکہ خطے میں دو بڑی نوآبادیاتی قوتوں کے آپس میں ممکنہ ٹکراﺅ سے بچا جاسکے ۔ خطے کی عسکری نوعیت اور اہمیت کے پیش نظر انگریز سرکار نے سندھ اور پنجاب سے ریلوے لائینوں کی تنصیب کا مشکل ترین کام خطے کی تجارتی، معاشی اور اقتصادی اہمیت کیلیے نہیں بلکہ صرف اور صرف افغانستان کی سمت سے ممکنہ حملے کی صورت میں اپنی نوآبادیات کے دفاع کیلیے فوری طور پر فوجیوں اور عسکری سازو سامان کی ترسیل کیلیے انجام دیا۔ انگریز سرکار کی پالیسی رہی کہ برصغیر میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلیے جنگ کو افغانستان کی سرحد پر ہی لڑا جائے ۔ انگریز نے پاکستان کے شمالی مغربی علاقوں کو عسکری مقصد کیلیے تو استعمال کیا لیکن علاقہ کی قدرتی معدنی وسائل کو کبھی اپنے ذاتی مفادات کیلیے استعمال نہیں کیا۔ فاٹا کا علاقہ برٹش انڈیا کے وقت سے افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان NO MENS LAND کے طور پر استعمال ہوتا رہا اور پاکستان بننے کے بعد عسکری نوعیت کے اہم ترین علاقے کو انگریز کی پالیسی کے مطابق ہی چلایا جاتا رہا ہے ۔ انتظامی معاملات سیاسی منتظمین کے حوالے کرکے علاقے کو مقامی لوگوں کے حوالے کردینا ، دو متوازی پالیسی کا اظہار ثابت ہوتا ہے ۔ جب بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی عوام کو پاکستان کے براہ راست نظم ونسق کا حصہ بنایا گیا تو فاٹا کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ سیاسی اور جغرافیائی نکتہ نگاہ سے فاٹا ہمیشہ سے خیبر پختونخوا کا حصہ رہا ہے۔ علاقہ کے لوگ تمام تر ضروریات کیلیے پشاور کا ہی رخ کرتے ہیں ۔ اس لیے آج وقت کی ضرورت ہے کہ شمالی بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا کے عوام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد اور ایک قوت بننے کا موقع دیا جائے ۔ مزید تاخیر کے بغیر فاٹا کے عوام کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی نمائندگی دی جانے کی ضرورت ہے۔
کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ فیڈریشن کو مضبوط اور ناقابل تسخیر قوت بنانے کیلیے خیبر پختونخوا ، 10 اضلاع پرمشتمل شمالی بلوچستان اور فاٹا کو گریٹر پشتون صوبہ کی حیثیت سے گریٹر پشتون صوبہ بننے دیا جائے تاکہ وفاق پاکستان میں سندھ اور پنچاب کی طرح پشتون زیادہ بہتر انداز میں اپنی نمائندگی یقینی بناسکیں۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں