رزق مختصرہوجانے سے قبل
شیئر کریں
احمد اعوان
قوموںکے عروج وزوال میں دسترخوان بہت اہمیت رکھتے ہیں۔یہ بات سمجھنے کے لیے تاریخ میں مٹ جانے والی قوموںاورسلطنتوںکے احوال ضرور پڑھنے چاہیے۔ میں آپ کی خدمت میںیہ بات دوکتابوںکے حوالے سے پیش کرتاہوں۔میرامن دہلوی کی مشہورکتاب ”باغ وبہار“میں مغل دورکے اسلامی دسترخوان کامنظرپڑھیے ۔
”ایک دالان میں لے جاکربٹھایا۔گرم پانی منگواکرہاتھ دھلوائے اوردسترخوان پچھاکرمجھ تن تنہاءکے روبروبکاﺅلی نے ایک تورے کاتوراچن دیا۔ چارمشقاب،ایک میں یخنی پلاﺅ،دوسری میں قورمہ، تیسری میں متنجن پلاﺅ،چوتھی میں کوکو پلاﺅ، اور ایک قاب زردے کی اورکئی طرح کے قلیے ،دو پیازہ، نرگسی بادامی روغن جوش اور روٹیاں، کئی قسم کی باقر خانی، تنکی ، شیرمال، گاﺅزبان، نان نعمت پراٹھے اور کباب کوفتے، تکے، مرغ کا خاگینہ، ملغوبہ، شب دیگ، دم پخت، حلیم، ہریسہ، سموسے ورقی، قبولی، فیرنی، شیر بریخ، ملائی، حلوہ، فالودہ، پن بھنا، بھتانمش، آبشورہ، عروس، لوزیات، مرتبہ اچار، دہی کی قلفیاں، یہ نعمتیں دیکھ کرہی طبیعت بھرگئی۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا دستر خوان، ”بزم آخر“ کے مصنف منشی فیض الدین دہلوی کے قلم سے پڑھیے اور چشم حیرت سے دیکھے۔ اس دسترخوان کو پڑھنے کے بعد مغلیہ سلطنت کے زوال کا سبب سمجھنا مشکل نہیں رہتا، اسی لیے مغلیہ سلطنت ”بزم آخر“ بن گئی۔ کچھ کھانوں کے نام: چیاتیاں، پھلکے، پراٹھے، بیسنی روٹی، بری روٹی، خمیری روٹی، نان، شیرمال، گاﺅدیدہ، گاﺅزبان، کلچہ، باقر خانی، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، مصری روٹی، نان پنبہ۔۔۔ یہ توصرف روٹی کی کچھ قسمیں ہیں چلیے آگے دیکھتے ہیں کہ اور کیا کیا ہوتا تھا۔۔۔بادام کی نان خطائی، پستے کی نان خطائی، چھوارے کی نان خطائی ، یخنی پلاﺅ، موتی پلاﺅ، نور محلی پلاﺅ، نکتی پلاﺅ، فالسائی پلاﺅ، سنری پلاﺅ، روہیلی پلاﺅ، انناس پلاﺅ، وغیرہ وغیرہ۔ کبابوں میں سیخ کباب، بٹیر کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، لوزات کے کباب، خطائی کباب، حسینی کباب، زعفرانی کباب ۔کھانے کے ساتھ مربہّ، چٹنی اور اچار بھی ضروری ہیں، تو لیجیے کچھ نام۔۔۔ آم کا مربہّ، سیب کا مربّہ، انناس کا مربہّ، گڑھل کا مربہّ، بادام کا مربّہ، گگروندے کا مربّہ ان ہی سب قسموںکے اچار اور کپڑے کا اچار بھی، اس کے علاوہ چٹنیاں بھی۔ کھانا کھالیا تو چلیے کچھ میٹھوں کا ذکر بھی ہوجائے۔۔۔ روٹی کا حلوہ، گاجر کا حلوہ ، کدو کا حلوہ، پستے کا حلوہ، سنگترے کا حلوہ، بادام کے نقل، پستے کے نقل، انگور، آم، جامن امرود وغیرہ۔ اپنے موسم میں گیہوں کی بالیں مٹھائی کی بنی ہوئی، حلوہ سوہن، حلوہ گری کا، پپڑی کا، گوندے کا، جنتی کا حلوہ، موتی چور کا لڈو، مونگ بادام اور پستے کے لڈو، لوزات مونگ کی ،پستے کی، جامن کی، سنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی، پستہ، مغزی، امرتی جلیبی، برفی، پھینی، قلاقند، موتی پاک، دربہشت، بالو شاہی، اندر سے کی گولیاں یہ سب چیزیں قابوں، رکابیوں، پیالیوں اور طشتریوں میں قرینے سے سجی ہوئی ہیں۔
جب زندگی کا مقصد صرف کھانا رہ جائے تو دوسری قومیں مسلمانوں کو کھانے کے لیے یلغار کرتی ہیں۔ اور مسلما ن اپنی شکست کے اسباب سائنس اور ٹیکنالوجی میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ تلاش کے اس عمل میں کبھی مسلمانوں نے اپنے معدہ کو شامل نہیںکیا، قرآن کریم بتاتا ہے کہ کفر کرنے والے جانوروں کی طرح کھاتے ہیں، حضورﷺ نے فرمایا کہ میں غریبوں کے ساتھ جنت میں جاﺅں گا اور غریب امیروں سے کئی ہزار سال قبل جنت میں جائیں گے۔ قیامت کے دن کچھ لوگ وزن میں بہت موٹے ہونگے مگر جب ان کو تولا جائے گا تو ان کا کوئی وزن نہیں ہوگا۔ ایسے لوگوں کے لیے عذاب ہوگا۔ آج اپنے معاشرے میں موجود دستر خوانوں کا جائزہ لیں۔ امیروں کے پاس اتنا کچھ ہے کہ ان کو سمجھ نہیں آتا کہ کیا کھائیں اور غریب سوچتے ہیں کیا کھائیں؟ کہاں سے کھائیں؟ آج کے امیر سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک نے ان کوجورزق عطا کیا ہے وہ دراصل ان کو انعام کے طور پر ملاہے لہٰذا ان کا حق ہے کہ وہ اپنا مال کسی کو دیں یانہ دیں۔ لیکن حقیقت میں یہ ان کے لیے آزمائش ہے، امیر مسلسل غریبوں اور لاچاروں کی حسرتوں کے مزاروں پر دھما چوکڑی مچارہے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غریبوں کی آہیں اور سسکیاں سیدھی عرش تک جاتی ہیں۔ بھوکے غریب کی دعا اور بدعا دونوں قبول ہوتی ہیں۔ آج ہماری قوم کے زوال کی وجہ بھی ہمارے دستر خوانوں کی لمبائی ہے اس کومختصر کرلیں قبل اس کے کہ آپ کارزق مختصر ہوجائے۔
٭٭