دوست بنو حاکم نہیں
شیئر کریں
جنرل ایوب خان نے Friends not master(دوست بنو حاکم نہیں)لکھ کر پاکستان میں امریکی مداخلت کاپردہ چاک کیا کیسے حکومتیں بنائی اور ختم کی جاتی ہیں یہ کتاب کافی وضاحت کرتی ہے یہ مداخلت پاکستان تک ہی محدودنہیں بلکہ جو بھی ملک احکامات کی تعمیل کی بجائے آزادانہ روش پر چلتا ہے تو وہاں سیاسی عدمِ استحکام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے یہ نہیں کہ ہر جگہ امریکی مداخلت کرتے ہیں کہیں کہیںدیگر عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں مگر دیگرعوامل کی وجوہات کابھی گہرائی میں جاکر جائزہ لیں تو انتشاروافراتفری کو فروغ دینے کے شواہد ڈالر کی طرف لیجاتے ہیں انتشار وافراتفری کوہوادیکر امریکہ نے کئی ناپسندیدہ حکمرانوں کو عبرت کا نشان بنایا مگر اشارہ ابرو پر چلنے والوں کو یاتو حکمران بنا یا یا غیر مقبول اور بدعنوان شخصیات کی سرپرستی کی جس کے نتیجے میںاُسے کئی علاقوں میں عوامی نفرت کا سامنابھی کرنا پڑادور کیوں جائیں ہمسایہ ملک ایران سمجھنے کے لیے عمدہ مثال ہے مگر غلط طریقہ کار سے امریکی مفاد کو ہونے والے نقصان سے کچھ سبق لیا گیاہے؟ ابھی تک اپنائے طرزِعمل سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا حالانکہ اکثر اسلامی ممالک امریکہ کے طرفدار ہیں پھربھی اِ ن قیاسات کو تقویت مل رہی ہے کہ امریکی پالیسیاں اسلام مخالف اورحاکمانہ ہیں جس سے دوستی کے تاثر کی نفی اور تعصب کا تاثرملتا ہے۔
روس اور امریکہ تنائو میں اسلام سے تعصب کا عمل دخل نہیں بلکہ یہ تنائو طاقت کی بقاکی کھینچاتانی کا مرہونِ منت ہے جس کے لیے حاکمانہ انداز سے دنیا کو اپنی ترجیحات کے مطابق چلانے کی کوشش کی جارہی ہے ایک طرف روسی تیل کے خریداروں پر خرید سے باز رہنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے ساتھ ہی دیگر ایسے ممالک جو تیل پیدا کرتے ہیں انھیں پیداوار بڑھانے کا حکم دیاجا رہا ہے اِس رویے سے ازہان میں ایک بار پھر یہ خیال گردش کرنے لگا ہے کہ دوست کی بجائے حاکم بننے کی سوچ یا رویہ بہترنتائج دے سکتاہے؟ظاہر ہے ایسا کسی صورت ممکن نہیں مگر اِس واضح نُکتے کو سمجھنے کی بابت امریکیوں کے کردار و عمل سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا یہ رویہ یا سوچ امریکہ کے دوستوں کواُس سے جلد بدیر دور کر نے کا باعث بن سکتی ہے جولائی میں بائیڈن نے سعودیہ کے دورے کے دوران میزبان سے تیل کی پیداوار بڑھانے کی فرمائش کی تھی تو اِس دوستانہ فرمائش کا مثبت جواب دیتے ہوئے جھٹ پورا کردیاگیا لیکن اب فرمائش کے ساتھ دھمکایا جارہا ہے مگر حاکمانہ اور درشت رویے کے ساتھ جاری احکامات پراب دوست ٹس سے مس نہیں ہو رہاحالانکہ سعودیہ کے تحفظ کی ضمانت دینے کے عوض امریکہ نے یہ شرط منوا رکھی ہے کہ تیل کی تجارت ڈالر میںکی جائے گی لیکن سعودیہ نہ صرف اب روس سے ڈالر کی بجائے روبل میں تجارت کا آغازکرنے والاہے بلکہ چین سے بھی یوآن میں تجارت کا معاہدہ تکمیل کے قریب ہے ایساہونا کوئی معمولی پیش رفت نہیں گی بلکہ مستقبل میں امریکہ اور سعودیہ کے ایک دوسرے پر انحصار کے خاتمے کی طرف اشارہ ہے ۔
امریکا و سعودیہ تعلقات ٹرمپ دور سے اُتار چڑھائو کا شکار ہیں مگرکیا دونوں ممالک ایک دوسرے سے خفا ہیں بظاہر ایسا کہنا ابھی قبل ازوقت ہے لیکن اتنا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک میں سب اچھا نہیں اور تعلقات میں والہانہ پن یا وارفتگی کا تاثر ناپید ہے رواں ہفتے صدر جو بائیڈن نے ایک ٹی وی انٹرویو میںسعودیہ کوخبردار کیا ہے کہ اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے ریاض کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اِس فیصلے کا روس کوبراہ راست فائدہ ملے گا یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ اگر اوپیک کے رُکن ممالک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی ہوتی ہے تو اقوامِ عالم اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے دیگر زرائع تلاش کرے گی ایسا ہواتو روس اولیں ضرورت بن سکتا ہے کیونکہ وہ دنیاکو ارزاں نرخوں پر تیل فراہمی کی پیشکش کررہا ہے اسی بناپر تیل کی خریداری کے لیے دنیا کا ماسکو کی طرف مائل ہو نا یقینی ہے ایسا ہونے سے نہ صرف روسی معیشت ناہمواری سے بچ جائے گی بلکہ اُسے تنہاکرنے کی کاوشوں کا بے ثمرہونا یقینی ہوجائے گا جس نے امریکا کی بے چینی میں اضافہ کردیا ہے اور سعودیہ کو دھمکی دینے کے ساتھ بائیڈن عزم کرتے دکھائی دیے کہ کانگرس کی مشاور ت سے ایسے اقدامات کریں گے کہ ایسا نہ ہونے پائے مگرساتھ ہی سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت جاری رکھناثابت کرتا ہے امریکہ صرف اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھتا ہے جہاں دوستانہ ماحول نہ ہو وہاں مطالبات منوانا مشکل ہوجاتا ہے اوراگرحاکم بن کرحکم جاری کیا جائے تو مشکل صورتحال ناممکن بن جاتی ہے۔
سعودیہ کوئی غریب ریاست نہیں جسے ڈرا،دھمکاکر یا بلیک میلنگ سے مطالبات منوالیے جائیں مگر امریکاایسا ہی کررہا ہے اسی لیے جواب میں سعودیہ بھی نظر اندازکرنے لگا ہے امریکی دھمکیوں کے تناظر میں بات کرتے ہوئے سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایک ہفتہ قبل تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس کی طرف سے یومیہ بیس لاکھ بیرل تک کم کرنے کا فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیداوار میں کمی کا فیصلہ خالصتاََ اقتصادی ہے اور اِس فیصلے کو رکن ممالک نے متفقہ طور پر قبول کیا ہے انھوں نے ریاض اور واشنگٹن کے درمیان فوجی تعاون کے متعلق بات کرتے ہوئے یقین دلایا کہ دونوں ملکوں کے مفادات کے لیے فوجی تعاون جاری ر ہے گا دھمکی کے جواب میں ایسا کہنے سے بے نیازی کا احساس تو ہوتا ہے لیکن ڈریاخوف کا نہیں علاوہ ازیں فوجی تعاون کودونوں ملکوں کے مفاد سے تعبیر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہتھیاروں کی فراہمی ہم پر کوئی احسان نہیں اِس میں آپ کا بھی مالی مفاد ہے اِس لیے جتنا جلد ممکن ہو حاکمانہ کی بجائے دوستانہ رویہ رکھیں ۔
امریکی غلبے کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہونے سے اُس کی بے چینی فزوں ترہوتی جارہی ہے اوروہ غلبے کے تحفظ کے لیے کوششوں میں اضافہ کرتاجارہا ہے مگرکوششوں سے لگتا ہے کہ درپیش چیلنجز کااُسے ادراک تو ہے مگر بقا کی جدوجہد کے طریقہ کار کا تعین درست نہیں ایک طرف دوست ممالک کو روس سے دور کرنے کی کوشش میں ہے مگر خودبائیڈن پوٹن سے نہ ملنے کی کسی کو یقین دہانی نہیں کراتے جی 20 کے سربراہی اجلاس کے موقع پربھی پوٹن سے ملنے اور بات چیت کی خود کوشش نہ کرنے کی بات تو کرتے ہیں مگر کسی کوشش کو قبول کریں گے یا نہیں اِس حوالے سے مثبت خیالات کا اظہار کرتے ہیںحالانکہ امریکا اِس بارے دوست ممالک سے حاکمانہ رویہ رکھتا ہے مگر جب اپنی باری آتی ہے تو وہ امن یا ملکی مفاد کا نام دے کر من مرضی کرتا ہے تبھی دوست ممالک دھمکیوں یا احکامات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور ریاستی مفاد کی نگہبانی کوترجیح دینے لگے ہیں امریکی مطالبات کے جواب میں سعودیہ کا رویہ دراصل امریکا پر کم ہوتے انحصار کی طرف اشارہ ہے عین ممکن ہے دفاعی حوالے سے بھی دیگر زرائع کی طرف راغب ہو۔
امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی کہتے ہیں سعودیہ سے کیسے تعلقات رکھنے ہیں اِس حوالے سے صدر کانگرس سے مل کرکام کریں گے وائٹ ہائوس کے عہدیدار اوپیک پلس کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اِسے روسی حکومت کے موقف کی مضبوطی قراردیتے ہیں اور کانگرس اراکین کی طرف سے سعودیہ سے دفاعی تعاون معطل کرنے،اسلحہ فروخت روکنے سمیت اوپیک
ارکان کا استثنٰی ختم کرنے جیسی آنے والی تجاویز کی طرف اشارہ کرتے ہیں سینٹر ڈک ڈربن نے سی این این سے بات چیت میں الزام عائد کیا کہ سعودیہ چاہتا ہے کہ روس یوکرین سے جنگ جیتے یہ الزامات معمولی نہیں مگر دونوں ملکوں کے گرمجوشی پر مبنی تعلقات میں کس حد تک دراڑ آچکی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر دوست بننے کی بجائے حاکم بننے کارویہ دوستی ختم کرنے کاباعث بن سکتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔