میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کھیت کا رنگ

کھیت کا رنگ

منتظم
اتوار, ۱۵ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اقوامِ متحدہ نے15اکتوبر کو دیہی خواتین کا بین الاقوامی دن قرار دیا ہے۔ پاکستان میں چھٹی مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ جن میں خواتین کی آبادی 10 کروڑ 13 لاکھ 14 ہزار 780 ہے، یعنی خواتین ملک کی مجموعی آبادی کا تقریبا نصف بنتی ہیں۔ وطن عزیز میں 60 فیصد آبادی دیہات میں رہائش پزیر ہے۔ دیہات میں کم و بیش 45فیصد دیہی عورتیں زرعی کاموں سے منسلک ہیں۔۔ پاکستان میں لاکھوں دیہی عورتیں خاندانی کھیتوں پر مزدوری کرتی ہیں۔ لیکن جب ملکیت کا سوال آتا ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ’خاندان‘ کا حصہ نہیں ہیں۔ کھیت کے مالک کے طور پر ان کا نام شاذ و نادر ہی لکھا جاتا ہے۔ اور دیہی خواتین کی بڑی تعداد کا شمار غریبوں میں سب سے غریب کے طور پر ہوتا ہے۔کھیت کھلیانوں میں ہونے والی بیشتر سرگرمیاں دیہی خواتین کی وجہ سے پایہ تکمیل کو پہنچتی ہیں۔ جنوبی پنجاب کے صرف 9اضلاع میں تقریباً15 لاکھ عورتیں کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 25فیصد عورتیں کھیتوں میں فیملی ورکرز کے طور پر کام کرتی ہیں اور75فیصد عورتیں کھیتوں میں جزوقتی کام کرتی ہیں۔ خاندانی نظام کی وجہ سے ان خواتین کو کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔
دن بھر کھیتوں اور گھروں میں کام کرنے، مناسب آرام خوراک اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواتین مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ایک این جی او کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق ان عورتوں میں 85%عورتیں عام الرجی کا شکار ہوتی ہیں۔45% ڈسٹ الرجی،35% قے اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا،14% اعصابی دباؤ کا شکار3% عورتوں کے بچے پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں اور2% عورتوں کے مردہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان کی دیہی آبادی میں عورتوں اور مردوں کی تعلیمی حیثیت میں بھی بہت زیادہ فرق ہے۔ ملک میں اکثر دیہاتی خاندان عورت کی تعلیم کے ہی مخالف ہیں اور رہی سہی کسر حکومت کی نام نہاد تعلیمی پالیسیاں پورا کر دیتی ہیں۔ اسکولوں میں زمینداروں اور وڈیروں نے حجرے یا گودام بنائے ہوئے ہیں یا جانور باندھے ہوئے ہیں کہیں نام کے اسکول تو موجود ہیں لیکن نہ استاد ہیں نہ ہی درس و تدریس ہوتی ہے۔ ان ہی وجوہات سے دیہاتوں میں خواتین کی اکثریت زیور تعلیم سے محروم رہتی ہے۔پاکستان کی دیہی آبادی میں70 فیصد مرد ناخواندہ ہیں جبکہ باقی 30فیصد نے بھی محض رسمی تعلیم ہی حاصل کی ہوتی ہے۔ دوسری طرف 10فیصد دیہاتی خواتین ایسی ہیں جنہیں رسمی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے جبکہ 90فیصد خواتین پڑھی لکھی نہیں ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں خواتین بالعموم مظلومیت کا شکار نظر آتی ہیں تاہم دیہاتی عورت کے لئے صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ شہر کی تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں دیہات میں بسنے والی عورت کو قانونی، معاشی و معاشرتی سہولتیں دستیاب نہیں۔ اکثر دیہاتوں خاص طور پر قبائیلی سسٹم میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج لاگو ہیں۔
ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان عورتوں کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ یہاں ہر سال ایک ہزار سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں کاروکاری کا نشانہ بنتی ہیں اور نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔پاکستان میں کسی لڑکی یا عورت کو قتل کرنے کے لیے محض یہ الزام بھی کافی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے خاندان کی عزت میں کمی آئی ہے۔دیہات میں مخصوص معاشی حالات اور فرسودہ قبائیلی روایات کی وجہ سے خواتین کو کاروکاری کا الزام لگا کر قتل کرنا یا کسی جھگڑے کو نمٹانے کے لئے قبائیلی پنچایت کے فیصلے کی روشنی میں لڑکیوں کو ونی کردینا عام بات ہے۔
آج جبکہ عالمی زرعی ایجنڈا اپنی تمام تر خرابیوں سمیت جنوبی ایشیائی کے ممالک کی زراعت کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے پر تول رہا ہے اور آزاد تجارت کی وجہ سے مقامی منڈیوں کی تباہی کی پیشین گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی دیہی مزدور عورتیں جو پہلے ہی مصائب میں گھری ہوئی ہیں مزید مشکلات کا شکار ہو جائیں گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں