کشمیر پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ
شیئر کریں
انسانی حقوق کے لیے سرگرم معروف عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حال ہی میں جاری اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جموں و کشمیر میں پچھلے دو برسوں یعنی اپریل 2020سے مارچ 2022تک پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اگست 2019کے بعد سے ا ب تک شہریوں کی ہلاکتوں میں 20فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقامی قوانین کی منسوخی کے نتیجے میں سات اداروں بشمول انسانی حقوق کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا، جس سے خطے کے لوگوں کیلئے انصاف کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق خطے کے ہائی کورٹ میں اسوقت 1346 حبس بیجا کے کیسز التواء میں ہیں۔ مجموعی طور پر حبس بیجا کی درخواستو ں میں پچھلے تین برسوں میں 32فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ عدالت نے جن 585درخواستوں کی سماعت شروع کی ہے، ا ن میں اب تک صرف 14درخواستیں ہی نمٹا دی ہیں۔رپورٹ نے 60 ایسے واقعات کی تفصیلات درج کی ہیں، جن میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو یا تو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا یا حراست میں لیا گیا۔ اسکے علاوہ متعدد نیوز میڈیا اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگا کر قومی تحقیقاتی ایجنسی اور محکمہ انکم ٹیکس کی طرف سے مسلسل چھاپوں اور تحقیقات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہراساں کیے جانے اور ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے بہت سے صحافی یا تو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پیشہ ہی چھوڑ گئے ہیں۔ اسکے علاوہ صحافیوں، وکلائ، سیاست دانوں، انسانی حقوق کے کارکنان، اور تاجروں سمیت 450 سے زائد افراد کو بغیر کسی عدالتی حکم کے "نو فلائی لسٹ” میں رکھا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پایا کہ 5 اگست 2019 سے 5 اگست 2022 کے درمیان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم سمیت کم از کم چھ افراد کو بغیر کسی وجہ کے بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا۔ انسانی حقوق کے ایک محافظ نے جسے بیرون ملک پرواز کرنے سے روک دیا گیا تھا ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا، کہ سفری پابندیاں جبر کے انداز کا ایک اور پہلو ہیں۔یہ ایک ایسا حربہ ہے جس کو حکام نے ملک کے اندر اور باہر آزاد، تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا ہے۔
پچھلے تین سالوں میں بھارتی حکومت نے 164 مقامی قوانین منسوخ کیے اور 143مرکزی قوانین کی اس خطے تک توسیع کی۔ مگر بد نامہ زمانہ مقامی قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کو برقرار رکھا۔ اس کے علاوہ ا?رمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ جو فوجی اہلکاروں یا نیم فوجی تنظیم کے اہلکاروں کو کسی بھی شخص کو مکمل استثنیٰ کے ساتھ گولی مارنے یا قتل کرنے کا اختیار دیتا ہے،مضبوطی سے نافذ ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمارکے مطابق جموں و کشمیر میں انسداد دہشت گردی قانون (UAPA) کے استعمال میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس قانون کے تحت حکام کسی بھی فرد کو بغیر چارچ شیٹ فائل کیے 180 دن تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شکایت کی ہے کہ بھارت میں اسکی زمین پر کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے دفاتر پر ریڈ کرکے اس تنظیم کے خلاف منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ 2002، فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ، 1999 اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ، 2010اور دیگر قوانین کے تحت کیسز درج کیے گئے ہیں۔ ستمبر 2020 میں، بھارتی حکام کی جانب سے تنظیم کے خلاف مسلسل مہم کے بعد، ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت میں اپنا دفتر بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اس کے تمام بینک اکائونٹس منجمد کر دیے گئے۔ اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے بتایا کہ زمین پر کام کرنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے انکو مختلف افراد سے انٹرویو کا سہارا لینا پڑا۔ انٹرویو دینے والوں نے تنظیم کو بتایا کہ ان کے نام ظاہر ہونے کی صورت میں ان کو اور ان کے رشتہ داروں کو انتقامی کاراوائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کئی صحافیوں نے ایمنسٹی کے اہلکاروں سے بات کرنے سے ہی انکار کردیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 22 اگست 2022 کو بھارتی حکومت کو اس صورت حال کے حوالے سے خط لکھا ، مگر رپورٹ کے اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ رپورٹ میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، 5 اگست 2019 سے جموں و کشمیر میں کم از کم 27 صحافیوں کو بھارتی حکام نے گرفتار اور نظر بند کیا ہے۔پریس کونسل آف انڈیا نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2016 سے اب تک اس خطے میں کم از کم 49 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے آٹھ کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومتی یا گودی میڈیا نے 11صحافیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کی طرف سے حکومت سے جوابدہی کا مطالبہ کرنے پر اسکو ریاست مخالف بیانیہ بتایا اور ا ن پر الزام لگایا کہ ان کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔
جولائی 2020 میں، سیکورٹی اہلکاروں نے کشمیر کے ضلع شوپیاں میں تین افراد کو ‘دہشت گرد’ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہلاک کیا۔ تین افراد نے گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ جس کے بعد فوج نے انکوائری کا حکم دیا اور پایا کہ مسلح افواج کے ارکان نے اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔ مگر بجائے عدالت کے ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ فوجی عدالتیں اپنی اہلیت کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مقدمہ چلانے کے لیے غیر موزوں ہوتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مبینہ مجرموں، خاص طور پر حراستی تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ملزموں کو قانونی چارہ جوئی اور جوابدہی سے بچانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کے کیسز فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اگست 2019 تک، جموں و کشمیر کا اپنا ریاستی انسانی حقوق کمیشن تھا۔یہ ان سات مختلف خود مختار کمیشنوں میں شامل تھا جن کو ختم کر دیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے، ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس بلال نازکی نے کہا، جس وقت اس ادراے کو تحلیل کیا گیا، اس وقت اس میں آٹھ ہزار سے زیادہ زیر التوا مقدمات تھے۔دوسری طرف بھارت کی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی تین سالوں سے سماعت نہیں کی۔ ایک وکیل نے تنظیم کو بتایا کہ عدالتیں مناسب وجوہات بتائے بغیر مقدمات کی سماعت میں تاخیر کرتی ہیں۔اس خطے میں، جموں و کشمیر رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ موجود تھا جس کی جگہ نیشنل رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، نے لے لی۔ مگر ، مرکزی حق اطلاعات ایکٹ کو برسوں کے دوران مسلسل کمزور کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انتظامی حراست اور دیگر جابرانہ قوانین کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے خلاف باقاعدہ عدالت میں فوری اور منصفانہ مقدمہ چلایا جائے۔اسکے علاوہ حکومت کو فیصلہ سازی کے عمل میں جموں و کشمیر کے لوگوں کی نمائندگی اور شرکت بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ غیر قانونی نگرانی کے اقدامات، من مانی حراست، اور آزادی اظہار پر پابندیاں لگانے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اقدامات کو چھپانے کی حکومت کی کوششیںجموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔