ہمارے بچوں کی معصومیت کہاں گئی؟
شیئر کریں
(مہمان کالم)
چارلس بلو
جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا تو امریکی خصوصاً نیویارک کے شہریوں سے کہا گیا کہ آپ سب نے بالکل نارمل زندگی گزارنی ہے تاکہ ہم دہشت گردوںکو دکھا سکیں کہ فتح ان کی نہیں‘ ہماری ہوئی ہے۔ حکام نے ہمیں کہا کہ اپنی شاپنگ جاری رکھو، باہر کھانا کھائو، بے فکر ہوکر سفر کرو۔ حملوں کے چند ہفتے بعد ہمارے میئر روڈی جولیانی نے اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران کہا تھا ’’آپ شہریوں کی بحالی کے لیے جو موثر ترین لائحہ عمل اختیار کر سکتے ہیں وہ یہ کہ پْرعزم انداز میں آگے بڑھتے رہیں ورنہ وہ جیت جائیں گے۔ ایک لحاظ سے نیویارک شہر میں زندگی کی بحالی دہشت گردوں کے لیے ایک کھلاچیلنج ہے‘‘۔ ان کا مقصد ہمیں ڈرانا اور تبدیل کرنا تھا۔ ہم نے انہیں دکھانا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ ہمیں یہی ثابت کرنا تھا۔
نائن الیون کے حملوں کے ایک ہفتے بعد میںمیٹ پیکنگ ڈسٹرکٹ کے ایک ریستوران میں ڈنر کے لیے گیا جو گرائونڈ زیرو سے‘ جہاں کبھی ٹوئن ٹاورز کھڑے تھے‘ محض ایک دو میل دور ہی واقع ہے۔ یہاں ابھی تک ملبے کا ڈھیر موجود تھا۔ ابھی تک فضا سے جلی ہوئی دھاتوں کی بو آرہی تھی۔ اس رات ہیو ہیفنر بھی خواتین کے جھرمٹ میں ریستوران میں موجود تھا۔ سب خواتین لگ بھگ ایک جیسی ہی نظر ا? رہی تھیں۔ دوسرے میزوں پر بیٹھی خواتین بھی مسکراتی ہوئی بار بار اس کی میز پر آ جا رہی تھیں اور تصاویر بنوانے کے لیے پوز بنا رہی تھیں۔ مجھے ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ کیا خواتین سے بھرے اس ڈنر میںکوئی دوسرا شخص ہیو ہیفنر سے بہتر بھی امریکی نمائندگی کر سکتا تھا؟ کیا یہ ایسا منظر نہیں تھا کہ جو دہشت گردوں کو دکھا رہا تھا کہ تم فاتح نہیں ہو؟
نہیں! ایسی بات نہیں ہے۔ دکھاوے کی یہ ساری جنگ محض فکشن ہے۔ بلاشبہ دہشت گرد ہمیں ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنے کا اپنا ہدف حاصل کر چکے ہیں۔ دوسرے امریکیوں کی طرح‘ میں بھی یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ہم دائمی طور پر بدل چکے ہیں۔ نائن الیون نے ہمارے اندر تحفظ کا احساس ختم کر دیا تھا۔ ہمارا تو خیال تھا کہ ہمارے اردگرد موجود سمندر ہر طرح کی بیرونی جارحیت کی راہ میں رکاوٹ بن کر حائل ہے۔ ہم تو ایک ا?زاد معاشرے کے باسی تھے اور شاید اسی آزادی کی وجہ سے ہی ہمیں نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان حملوں نے ہمارے اندر بھی بدترین جذبات بیدار کر دیے۔ میں اکثر ان حملوں کے بعد کے دنوں کو یاد کرتا ہوں کہ کس طرح ہمارے اندر بھی انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ ہمارے اندر چھپی انتقام کی یہ لہر ہی تھی جس نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ جنگجو فطرت رکھنے والوںکو انتقام کی یہ آگ ہم سب کے اندر نظر آئی اور سب بدلے کے لیے بے تاب تھے۔ اب ان کی جنگ لڑنے کی باری تھی۔ وہی جنگ جو ابھی ابھی اپنے انجام کو پہنچی ہے۔ مگر ان حملوں نے بہت سے امریکیوںکو اپنے ہمسایوں خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والوں سے اتنا خوفزدہ کر دیا کہ ہم پہلے کبھی ان سے اتنا نہیں ڈرے تھے۔ ہم پر صرف 19 ہائی جیکرز نے ہی حملہ نہیں کیا تھا بلکہ ایک کلچر اور ایک فکر نے یہ وار کیا تھا۔ معصوم امریکیوں کو محض ایک تعلق (اسرائیل) کی وجہ سے ہی قصوروار بنا دیا گیا؛ چنانچہ مشرق وسطیٰ کے شہریوں پر نظر رکھی جانے لگی، سب ان سے محتاط رہنا شرو ع ہو گئے بلکہ ان کا پیچھا ہونے لگا۔ لوگ خوفزدہ تھے بلکہ اس خوف کی بدترین انداز میں عکاسی بھی ہوتی تھی۔ اسامہ بن لادن ابھی زندہ تھا۔ امریکی عوام کی اکثریت اس خوف میں مبتلا تھی کہ مستقبل قریب میں ان پر مزید حملے ہونے والے ہیں۔ ہم اس انداز میں زندگی گزار رہے تھے کہ ایک مستقل خوف ہر وقت ہمیں گھیرے رکھتا تھا۔
جس دن امریکا پر نائن الیون حملے ہوئے تھے‘ میرے دونوں بچوں کی عمریں بالترتیب 7 اور 4 سال تھیں۔ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے کی کوئی بات یاد نہیں ہے مگر ان حملوں کے بعد ہمیں جس خوفناک دنیا میں پھینک دیا گیا تھا‘ اس کے بعد انہیں جن حقائق کا سامنا کرنا پڑا وہ سب کچھ ان کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ جو لوگ ان حملوں میں مارے گئے اور ہمارے کلاس فیلوز‘ جنہوں نے ان حملوں میں اپنے والدین کھو دیے تھے‘ سب پر ایک مسلسل خاموشی طاری تھی۔ ان میں سے اکثریت کی زندگیاں ان جنگوں میں ہی گزر گئیں، وہ جنگیں جو اس ایک دن کے حملوںکے بطن سے پھوٹی تھیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ان حملوں نے ہماری بنیادیں ہلا ڈالیں۔
سفوک یونیورسٹی نے ’’امریکا جیسا آج ہے‘‘ کے حوالے سے پولز کرائے تھے جس کے نتائج پچھلے ہفتے جاری کیے گئے ہیں، ان میں بتایا گیا ہے ’’امریکی عوام میں یہ احساس کم ہونے کے بجائے مزید تقویت پکڑ گیا ہے کہ نائن الیون حملوں نے امریکا میں زندگی کو مستقل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت‘ جب ان حملوں کو ہوئے 20 سال بیت چکے ہیں، ہماری قوم کے ذہنوں پر ایک نئے حملے کا خوف سوار ہے‘‘۔ ہم ابھی تک اپنے ماضی میں کھوئے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیںکہ آج سے 20 سال پہلے حقیقت میں ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا؟ جب ہم نے دیکھا کہ کس طرح لوگ آگ کے شعلوںسے بچنے کے لیے موت کی وادی میں چھلانگیں لگا رہے تھے، ہمیں آج اس بات کی پوری طرح سمجھ آ رہی ہے کہ لزرتی ہوئی عمارتوں کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ کس طرح لوگ پلوں پر سے گزرتے ہوئے اپنے گھروں تک پہنچ رہے تھے۔ ان کے جسم اور چہرے راکھ سے اس طرح اٹے ہوئے تھے کہ انہیں دیکھ کر کسی بھوت پریت کا گمان ہوتا تھا۔ نائن الیون حملوں کے دن ہی نیویارک ٹائمز کے نیوز روم میں ایک میٹنگ ہو رہی تھی، میں نے ایک ایڈیٹرکو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ٹوئن ٹاورز کے گرنے سے ایسے لگتا ہے کہ اس شہر کے دونوں بازو کاٹ دیے گئے ہوں مگر اس کی یہ بات پوری طرح درست نہیں تھی۔ یہ محض جسم کے کسی حصے پر حملہ نہیں تھا بلکہ یہ تو ہماری زندگی پر حملہ تھا‘ ایک ملک اور ایک شہرکے دل پر حملہ تھا۔ دہشت گردوں نے‘ القاعدہ نے اس دن یہ دکھایا تھا کہ وہ ہم تک پہنچ سکتے ہیں، ہمیں چھو سکتے ہیں، ہمارے طاقت کے مرکز پر زخم لگا سکتے ہیں۔ باکس کٹر چاقوئوں سے مسلح محض 19 لوگ‘ جو اپنی جانیں دینے کے لیے تیار تھے‘ ہمیں یکسر بدلنے اور ہمیں ایک ایسی جنگ میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے تھے جس کی قیمت ہمیں کھربوں ڈالرز اور ہزاروں انسانی جانوں کی قربانی کی شکل میں چکانا پڑی۔
میری نسل کے لوگ شاید دوبارہ یہ کچھ کبھی نہیں جان پائیںگے جو کچھ ہمارے بچوں کی نسل نے دیکھا ہے؛ معصومیت اور خطرات سے غفلت۔ میرا چہرہ بلکہ ہم سب کے چہرے ٹوئن ٹاورز کی راکھ سے ہمیشہ اٹے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔