میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مظلوم کی مدد۔۔۔   ایک اسلامی ،انسانی ، اخلاقی اور معاشرتی فریضہ

مظلوم کی مدد۔۔۔ ایک اسلامی ،انسانی ، اخلاقی اور معاشرتی فریضہ

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۵ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو ہر طرح کے ظلم و ستم ، حوادثات ، مشکلات اور پریشانیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ باہمی اتحاد و اتفاق کی دولت سے مالا مال فرما کر اقوام عالم میں بلند مقام ، عزت و عظمت اور شان و شوکت عطا فرمائے ، مظلومانہ محکومیت کو ختم فرما کر عادلانہ حاکمیت نصیب فرمائے۔ اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی تنزلی ، پستی ، مظلومیت اور محکومیت کے اسباب کو قرآن و سنت اور زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اجمالی طور پر بنیادی وجوہات یہی نظر آتی ہیں کہ مجموعی طور پر اہل اسلام ؛ اسلام سے دور ہو گئے ہیں۔ احکامات اسلامیہ پر عمل کرنا چھوڑ چکے ہیں ، تعلیمات نبوی کو عملاً نظر انداز کر چکے ہیں۔ اپنی ساکھ کو مضبوط رکھنے اور اپنی حفاظت کے لیے جو خدائی امر تھا اس سے روگردانی کر رہے ہیں۔ اللہ کریم عافیت والا معاملہ فرمائے اور آزمائشوں سے حفاظت فرمائے۔ اللہ کی طرف سے قوموں پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں ایسے وقت میں اللہ کی طرف رجوع ، صبر و استقلال اور ہمت و عزیمت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ابتلاء ، آزمائش ، مصیبت اور پریشانی کے وقت ایک مسلمان کا اسلامی ، انسانی ، اخلاقی اور معاشرتی حق یہ بنتا ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی ہر ممکن مدد اور نصرت کرے ، اظہار ہمدردی اور اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ اس کا بھرپور تعاون کرنے کے لیے میسر اور مؤثر حکمت عملی اپنائے۔ حالیہ کچھ دنوں سے برما کے روہنگیا مسلمان جس ظلم و ستم اور اذیت سے دوچار ہیں ان پر جو قیامت گزر ر ہی ہے اسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے تقریباً ہر شخص کو اس کا علم ہے کہ ہزاروں بے گناہ مسلمان شہید ہوگئے۔ ان کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوگئے۔ زخمیوں کی تعداد میں لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔ ظالموں نے اْن کے گھروںکو جلایا ، بچوں کو زندہ آگ میں جھونکا ، خواتین کی عصمت دری کی ،لاشوں کا مثلہ کیا ،جسم کاٹ کر گوشت کو کچا چبایا ،ہر ستم سے انہیں دوچار کرکے بے دردی سے قتل کیا ، کئی لاکھ مسلمان بے گھر ہوگئے۔ حالات کے پیش نظر لوگ وہاں سے ہجرت کر کے دوسرے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ہر مسلمان کو ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایسے کڑے حالات میں شریعت کیا تعلیم دیتی ہے ؟ ملاحظہ فرمائیں :
نمبر1:اللہ کی طرف رجوع کریں ، انفرادی اور اجتماعی طور پر کبیرہ گناہوں سے توبہ و استغفار کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بڑے المناک اور دردناک سانحات اکثر ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے :تمہیں جو مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے گناہوں کا بدلہ ہیں اور اللہ بہت سارے گناہ کی باتوں سے درگزر بھی فرماتا ہے۔(سورۃ الشوریٰ آیت نمبر 30)
قرآن کریم میں سابقہ امتوں کی تباہی اور ان پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے گناہوں کو بتلایا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میںہے :پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی ، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے (پانی میں)غرق کیا ، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پرظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پرظلم(یعنی گناہ) کرتے تھے۔ (سورۃ العنکبوت آیت نمبر 40)
نوٹ:یہاں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ بعض مرتبہ گناہوں کی سزا مجموعی طور پر نہیں آتی بلکہ اس کا کچھ حصہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لوگوں پر آتا ہے ، یہ ضروری نہیں کہ اسی علاقے کے لوگوں کے گناہوں کا ہی وبال ہو۔یہ تنبیہ ہوتی ہے کہ باقی لوگ گناہوں سے باز آ جائیں۔
نمبر2: باہمی لڑائی جھگڑے اورتنازعات سے ہماری طاقت کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ اپنی بکھری ہوئی طاقت کو جمع کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ باہمی تنازعات سے خود کو بچائیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے :اور باہمی لڑائی جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا رعب ختم ہو جائے گا۔(سورۃ الانفال آیت نمبر 46)
نمبر3:آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے :اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔( سورۃ الحجرات آیت نمبر 10)
اور ظاہر ہے کہ مصیبت کے وقت ایک بھائی ہی اپنے دوسرے بھائی کی مدد کرتا ہے۔
نمبر4:تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند ہونا چاہیے۔ جیسے جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا بدن اسے محسوس کرتا ہے اور بے چین رہتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی آپس میں ایسے ہی رہنا چاہیے۔ حدیث پاک میں ہے:حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باہمی محبت اور رحم و شفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔(صحیح مسلم ، باب تراحم المومنین وتعاطفھم وتعاضدھم ،حدیث نمبر 4685)
گویا یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہمیں دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کو پہنچنے والی تکلیف کا احساس ہو، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ ہمارے ایمان کی علامت ہے۔ لہٰذا حالیہ صورتحال میں برما کے مسلمان جس تکلیف اور مصیبت سے گزر رہے ہیں،ہمیں اس کا احساس کرنا چاہیے جیسے ہمارے اپنے اوپر کوئی تکلیف آئے تو اسے فوراً دور کرنے کی تدابیر اختیار کرتے ہیں اسی طرح ان کی تکالیف کو بھی دور کرنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ اس موقع پر پہلا کام تو یہ کرنا چاہیے کہ ان کے لیے دعاکریں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے دشمنوں (کے ظلم و ستم) سے تمہیں نجات دے اور تمہیں بھرپور روزی دلائے، وہ عمل یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دن رات دعا کیا کرو، کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔( مسند ابی یعلی،مسند جابر ، حدیث نمبر 1812)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا ان حوادثات اور مصائب سے بھی چھٹکارا دلاتی ہے جو حوادثات اور مصائب نازل ہوچکے ہیں اور ان سے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہذا للہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔(مستدرک حاکم ، کتاب الدعاء ، حدیث نمبر 1815)
پھر وہ دعا جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں کی جائے وہ تو جلد قبول ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ٍبے شک جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائب کی غائب کے لیے ہو۔ یعنی کسی کی غیر موجودگی میں اس کے حق میں دعا کی جائے۔(سنن ابی داؤد،باب الدعاء بظھر الغیب، حدیث نمبر1537)
اس کے بعد دوسرا حق یہ ہے کہ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالی کے دیے ہوئے مال سے اپنی حیثیت کے مطابق ان متاثرین کی مدد کرنی چاہیے، اس وقت وہ بیچارے بے کسی کے عالم میں ہیں اور محتاج ہیں، انہیں مدد کی ضرورت ہے اور کسی ضرورت مند مسلمان کی مدد کرنا بہت بڑے اجر و ثواب کا کام ہے،چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
1:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگتا ہے اللہ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرتا ہے اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ پاک قیامت کے روز اْس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔(صحیح بخاری، باب لا یظلم المسلم المسلم و لا یسلمہ ، حدیث نمبر 2442)
2:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے یہ اس شخص سے بہتر ہے جو دس سال اعتکاف میں گزارے اور ایک دن کاایسا اعتکاف جو اللہ کی رضاء حاصل کرنے کے لیے ہو وہ انسان کو جہنم سے تین خندق دور کر دیتا ہے جبکہ ایک خندق میں مشرق و مغرب جتنا فاصلہ ہے۔ (یعنی بندے کو جہنم سے اتنا دور فرما دیں گے جتنا کہ مشرق اور مغرب کے درمیان طویل فاصلہ ہے ) (المعجم الاوسط للطبرانی ، من اسمہ محمد ، حدیث نمبر 7326)
3:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص میرے کسی اْمتی کی کوئی حاجت اس ارادے سے پوری کرے کہ وہ امتی خوش ہوجائے، تو اس آدمی نے مجھے خوش کردیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالی کو خوش کیا اور جس نے اللہ جل شانہ کو خوش کیا تو اللہ پاک اْسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔(شعب الایمان للبیہقی ، باب التعاون علی البر والتقویٰ ، حدیث نمبر 7247)
4:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی کسی حاجت اور ضرورت سے جائے تو حق تعالیٰ ایسے شخص کو ہر قدم پر ستر نیکیاں عطا فرمائے گا، یہاں تک کہ وہ اسی جگہ واپس لوٹ آئے جہاں سے وہ چلا تھا، پھر اگر اس مسلمان بھائی کی ضرورت اسی کے ذریعہ پوری ہوگئی تو وہ شخص اپنے گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجائے گا جیسا کہ آج ہی اس کی ماں نے اْسے جنم دیا ہو۔(مسند ابی یعلی،حدیث نمبر 2789)
بہرحال! قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں اپنے اہل اسلام کی مدد اور نصرت کی جائے اور ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا جائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں ایسے مواقع پر قنوت نازلہ کا سبق ملتا ہے۔ مقامی علماء کرام سے اس کا طریقہ پوچھ کر اپنی مساجد میں اس کا اہتمام کیا جائے۔
اسلامی ممالک کے حکمران سفارتی، تجارتی اور معاشی سطح پر اس مظلومانہ مسلم نسل کشی کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جیسا کہ مالدیپ نے اس میں اہم پیش رفت کی ہے۔ اس حوالے سے برما کے سفیر کے سامنے پاکستان نے جو احتجاج کیا ہے وہ ضرور اپنے نتائج لائے گا اسی طرح جمعیت علماء اسلام نے جو مضبوط احتجاج اور موثر حکمت عملی اپنائی ہے وہ تمام اہلیان اسلام بالخصوص اسلامیان پاکستان کی دل کی آواز ہے۔
اس موقع پر ان کا ہر ممکن تعاون کیا جائے۔ لباس ، رہائش اور خوراک کا معقول بندوبست کیا جائے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ بعض لوگ ایسے حالات میں بھی جعل سازی سے کام لے رہے ہیں اوربرمی مظلوم مسلمانوں نے نام پر لوگوں سے مال و دولت اکٹھا کرنے میں مشغول ہیں ان سے محتاط رہیں اور اچھی طرح تحقیق کر کے ایسے ہاتھوں میں اپنا مال دیں جو وہاں تک پہنچا سکیں۔
جو لوگ وہاں سے ہجرت کر کے آ رہے ہیں انہیں پناہ دینے کے حوالے سے اسلامی ممالک اپنے ہاں وسعت ظرفی پیدا کریں ۔ انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کریں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں