میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مشن جی ٹی روڈ

مشن جی ٹی روڈ

منتظم
منگل, ۱۵ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

گائوں سے ملحقہ اراضی کی ملکیت پر دو گروہوں کا جھگڑا تھا، بات بڑھتی گئی اورایک روز اسی تنازع پر ایک شخص قتل ہو گیا، مقتول کے لواحقین انصاف چاہتے تھے مگر نہ کوئی گواہی دینے کے لیے ملتا تھا اور نہ ہی قاتلوں کی درست شناخت ظاہر ہوتی تھی۔ورثاء بآلاخر جدوجہد کر کے بادشاہ کے دربار تک جا پہنچے، بادشاہ نہایت عادل اور انصاف پسند تھا ۔وہ دربار کے امور ترک کر کے سائلین کی فریاد سنا کرتا تھا، اس نے ماجرا سنا، سن کر تشویش ہوئی کہ اس کے مقرر کردہ مقدم بھی اس وقوعے سے لا علم ہیں، نہ انہوںنے قتل ہوتے دیکھا نہ ہی قاتل کی شناخت کے بابت کچھ پیش رفت ہو سکی۔ بادشاہ نے تدبیر کی، دو ہرکارے مقرر کیے انہیں ہدایت کی کہ جہاں قتل ہوا ہے وہاں جائیں اور متنازع اراضی پر لگے کسی ایک درخت کو کاٹنا شروع کردیں پھر جو بھی شخص انہیں روکنے کے لیے آئے، اسے بادشاہ کا حکم نامہ دکھا کر دربار پہنچنے کی ہدایت کریں اور خود بھی واپس چلے آئیں۔ یہ دو افراد حکم کی تعمیل میں درخت کاٹ رہے تھے کہ مقامی مقدم روکنے کے لیے آپہنچا، اسے دربار پہنچنے کا حکم سنا دیا گیا۔
مقدم بادشاہ کے دربار پہنچا اور آمد کا مقصد بیان کیا تو بادشاہ غضب ناک ہو گیا اور مقدم سے کہا بدبخت تجھے ایک درخت کاٹے جانے کی خبر ہو گئی مگر ایک انسان کے قتل کی خبر نہ ہوئی۔ اس نے حکم دیا کہ اس مقدم کو قید کردیا جائے اور اگر اس نے تین روز کے اندر قاتل کا نام نہ بتایا تو اسے قتل کردیا جائے۔ مقدم قید کر لیا گیا اور حکم کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح دوسرے مقدموں تک بھی پہنچ گئی، ایک ہی روز کے اندر قاتل پکڑ لیا گیا اور اسے بھی قصاص میں موت کی سزا دے دی گئی۔ یہ بادشاہ تھا ہندوستان کا افغان حکمران شیرشاہ سوری۔ جی ہاں وہی شیرشاہ سوری جس نے اپنے دور حکومت میں جی ٹی روڈ تعمیر کرائی تھی۔ وہی جی ٹی روڈ جس پر میاں صاحب اپنے اقتدار کا ماتمی جلوس لیے چار روز تک مٹر گشت کرتے رہے۔
شمس العلماء مولوی محمد ذکاء اللہ نے تین جلدوں پر مشتمل اپنی ’’تاریخ ہندوستان‘‘ میں یہ واقعہ ’’تاریخ دائودی‘‘ کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’شیر شاہ سوری کے دور میں لوگ سونا اُچھالتے ہوئے چلا کرتے تھے اور کوئی یہ دیکھنا بھی گوارانہ کرتا تھا کہ کس کے منہ میں کتنے دانت ہیں۔‘‘
میاں صاحب کا ماتمی جلوس اسلام آباد سے شروع ہو کر لاہور میں داتا صاحب کے دربار پر اختتام پزیر ہوا۔جلوس کے شرکاء میں لیگی ’’زائرین‘‘ کے علاوہ سرکاری ملازمین بھی بڑی تعداد میں شامل تھے جنہیں ملازمتوں سے برخاستگی کی دھمکیاں دیکر جلوس میں بھیجا گیا تھا۔ اس جلوس میں شامل ایک گاڑی کے نیچے 12سالہ حامد کچل کر جاں بحق ہوا۔جس کی واضح ویڈیو موجود ہے، جس میں صاف دیکھاجاسکتا ہے کہ پہلے گاڑی کے اگلے ٹائرز تلے اس معصوم کا پائوں دبا ،وہ گر پڑا‘ پھر گاڑی کا پچھلا ٹائر اس کے سینے پر سے گزر گیا اور بچہ موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ گاڑی بی ایم ڈبلیو تھی وہی جعلی نمبر پلیٹ والی بی ایم ڈبلیو لیکن ایف آئی آر میں نامعلوم سیاہ پراڈو لکھوا کر مقدمے کو خراب کرنے کی بنیاد ڈال دی گئی۔ سیاسی مخالفین اس وقوعے کا ذمہ دار براہ راست میاں نواز شریف کو ٹھہرا رہے ہیں‘ دل کھول کر گالم گلوچ کی جارہی ہے مگر یہ سراسر زیادتی ہے۔ میاں صاحب کو اس معصوم جان کے زیاں کا قصور وار ٹھہرانا درست نہیں‘ یہ کوئی ارادی قتل نہ تھا نہ ہی میاں صاحب نے اس کی ہدایات جاری کی تھیں‘ خود وہ ڈرائیور جس کی گاڑی کے نیچے آکر یہ بچہ جاں بحق ہوا ،وہ بھی ’’قتل عمد‘‘ کا ذمہ دار نہیں۔ ممکن ہے وہ کچھ سمجھ ہی نہ پایا اور تین سیکنڈز کے اندر ہی یہ حادثہ ہو گیا۔ ممکن ہے کہ خود اس کے اوسان خطا ہو گئے ہوں۔ بہرحال یہ ایک حادثہ ہی تھا ،ہونا یہ چاہئے تھا کہ میاں صاحب جو عوام کے درد کی دُہائیاں دیتے نہیں تھکتے اور اب تو ذاتی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد ’’انصاف‘‘ کو بھی اپنی تقریروں میں جگہ دینے لگے ہیں وہ ذمہ دار کا فوری تعین کرتے اور اس ڈرائیور کو مقتول حامد کے والدین کے سامنے پیش کردیتے‘ والدین کو پیشکش کی جا سکتی تھی کہ اگر وہ دیت لینا چاہیں توخوب ورنہ قاتل ڈرائیور کو سزا دی جائے گی۔ یہ تھا انصاف کا تقاضا مگر سرکار انصاف تو میاں صاحب کو صرف اپنے لیے چاہیے، وہ بھی اپنی مرضی کا‘ عوام مرتے رہیں۔ ان کے داماد تو پہلے ہی مقتول حامد کو جمہوریت کا پہلا شہید قرار دے چکے ہیں۔ اس پر کسی دل جلے نے ’’دعا‘‘ دی کہ ’’اللہ کرے دوسرا شہید خود اُن کے خاندان سے ہو۔‘‘ ان حکمرانوں کی رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے۔
میاں صاحب کے ’’مشن جی ٹی روڈ‘‘ کے اغراض ومقاصد تو واضح نہیں ہو سکے کہ یہ آخر کس کے خلاف تھا مگر سیاسی پنڈتوں کا دعویٰ ہے کہ میاں صاحب کے غیر اعلانیہ مقاصد میں ایک نئے ’’این آر او‘‘ کا حصول شامل ہے ۔کچھ کا خیال ہے کہ میاں صاحب عدلیہ پر دبائو ڈال کر اپنی نااہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے سپریم کورٹ میں فل بنچ بنوانا چاہتے ہیں اور پھر جوڑ توڑ کر کے پچھلے فیصلے کو کالعدم کرانے کی خواہش میں مبتلا ہیں۔ وہ ایک ہی سانس میں کہتے ہیںکہ مجھے وزیراعظم بننے کا شوق نہیں پھر کہتے ہیں عوام نے چاہا تو میں دوبارہ وزیراعظم بن جائوں گا۔ یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ وہ پاناما کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران میں ہی آئین میں تبدیلی کی پیش بندی بھی کررہے ہیں جس کے ذریعے آئین سے دفعہ 63, 62 کو خارج کردیا جائے اور 184 میں بھی رد وبدل کیا جائے تاکہ آئندہ کسی وزیراعظم کی نااہلی کی گنجائش ہی نہ بچے۔ اس مقصد کے لیے انہیں مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کی حمایت تو دستیاب ہے ہی اور آصف زرداری کے ساتھ ساتھ فاروق ستار کا بھی ہم رکاب ہو جانا قرین از قیاس ہے۔
میاں صاحب نے اسلام آباد سے لاہور تک کے سفر میں کم از کم 19 مرتبہ ایک ہی سوال دھرایا ’’کیوں نکالا‘‘۔ انہیں اندازا نہیں یہی سوال خود ان سے پوچھنے والوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جس میں نہ صرف بقید حیات موجود جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف شامل ہیں بلکہ محمد خان جونیجو‘ غلام اسحاق خان‘ فاروق لغاری‘ جسٹس سجاد علی شاہ اور بے نظیر بھٹو کی ارواح بھی شامل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے سوال کرنے کے بجائے ’’عملی اقدام‘‘ کرنے کو ترجیح دی تھی۔ سوال کرنے کا حق بہرحال پھر بھی انہیں حاصل ہی ہے۔
میاں صاحب جی ٹی روڈ پر اپنے سفر میں خاصے دکھی اور عاجز نظر آئے‘ قافلے کا کروفر اپنی جگہ مگر ذاتی حیثیت میں وہ حکمرانہ طمطراق‘ رعونت‘ تکبر اور روایتی شان بے نیازی سے خالی دکھائی دیے وہ عوام کے لیے بچھے جاتے تھے۔ گویا کاسہ لیے پھرتے ہوں کہ کوئی دریا دل انہیں اپنے احسان کے بوجھ تلے دبا دے۔ بقول شاعر
جو منہ کو آرہی تھی اب لپٹی ہے پائوں سے
بارش کے بعد خاک کی فطرت بدل گئی
اپنے خطابات میں انہوں نے جس طرح کے جملوں کا انتخاب کیا اس سے ان میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی جھلک نظر آئی، گویا اب انہیں ’’پنجابی الطاف حسین‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ فرمایا کروڑوں لوگوں نے مجھے ووٹ دے کر اسلام آباد بھیجا اور 5 ججز نے ایک لمحے میں نکال دیا۔ ان ججوں نے آپ کے ووٹوں کی پرچی پھاڑ کر ہاتھ میں تھمادی‘ پھر پوچھا کیا ان ججوں سے حساب لو گے؟ یہ سراسر بغاوت اور غداری نہیں تو اور کیا ہے‘ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ نہ ماننا اور لوگوںکو عدلیہ کے خلاف اُکسانا معمولی جرم نہیں۔ الطاف حسین نے 12 مارچ 2015 کو نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے بعد کہا تھا پہلے بھی کچھ لوگ الطاف حسین کا باب ختم کرنا چاہتے تھے وہ خود ختم ہو گئے، الطاف حسین موجود ہے‘ آج بھی جو ہیں وہ ’’تھے‘‘ ہو جائیں گے‘ ان الفاظ پر رینجرز کے کرنل طاہر نے الطاف حسین کے خلاف ایف آئی آر درج کروادی تھی‘ کیا نواز شریف مختلف سلوک کے مستحق ہیں؟؟؟
پہلے نواز شریف خود کہتے تھے عدالت کا جو بھی فیصلہ آیا تسلیم کریں گے، اب سراپا احتجاج ہیں۔ یقین جانئے جیسے ہی احتساب عدالتوں میں مقدمات شروع ہوں گے نواز شریف ہذیان بکنے لگیں گے۔ ان سے ایسی باتوں کی توقع کی جا سکتی ہے کہ الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر بھی پھیکی لگے۔ مسئلہ اپنی ذات ہے جو ملک وملت سے کہیں بڑھ کر ہے شاید۔
نیو یارک ٹائمز نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر کے طور پر سامنے آرہے ہیں‘ انہوں نے ریلی نکال کر خطرات کو مول لیا ہے۔ ایسے ہی حالات میں بے نظیر بھٹو پہلے موت کے گھاٹ اتاری جا چکی ہیں‘ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان آنے والے دنوں میں بحران سے دوچار ہو سکتا ہے‘ مجھے یہ رپورٹ پڑھ کر بھٹو یاد آئے۔
ذوالفقار علی بھٹو راولپنڈی کے ریسٹ ہائوس میں نظر بند تھے‘ انہیں ٹیلی فون کی سہولت میسر تھی مگر شاید انہیں اندازا نہ تھا کہ ان کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جاتے تھے‘ وہ فون پر دن بھر بات کرتے اور ہر ایک سے کہتے دیکھ لینا ایک ایک جرنیل کو چوراہے پر لٹکائوں گا‘ کچھ روز بعد انہیں آزاد کیا گیا تو انہوںنے کراچی سے لاڑکانہ تک بذریعہ ٹرین سفر کیا اور جگہ جگہ پر جوش خطابات کیے‘ ان خطابات کے بعد ایک جملہ اکثر محفلوں میں سننے کو ملا کرتا تھا۔ ’’قبر ایک ہے اور بندے دو‘‘ ۔بھٹو کے خلاف کرپشن کے ثبوت تو دستیاب نہ تھے نہ ہی ان کی کوئی آف شورکمپنی یا بیرون ملک اثاثے تھے‘ بھٹو نے کبھی قرضے بھی معاف نہ کروائے تھے لے دے کر اچھرہ تھانے کی ایک ایف آئی آر تھی‘ اسے نکالا گیا‘ رجسٹروں کی دھول جھاڑی گئی اور پھر یہی ایف آئی آر بھٹو کو پھانسی کے تختے تک لے کر گئی۔
نواز شریف اپنے خطابات میں بھٹو کا انداز اپنا رہے ہیں‘ پوچھتے ہیں ’’میرا ساتھ دو گے؟؟؟‘‘ پھر پوچھتے ہیں۔ ’’جدوجہد کروگے؟؟؟‘‘ ایک مرتبہ تو یہ بھی پوچھا ’’لڑو گے؟؟؟‘‘ بس اتنا ہی پوچھنا رہ گیا کہ ’’مرو گے؟؟؟‘‘
نواز شریف پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں اور پھر ایک حامد کے قتل پر کوئی آسمان ٹوٹنے والا نہیں‘ جس کے وہ براہ راست ذمہ دار بھی نہیں‘ البتہ ماڈل ٹائون کا قتل عام ابھی تک تصفیہ طلب ہے۔
میری دعا ہے کہ نواز شریف بھٹو جیسے انجام سے دوچار نہ ہوں۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں