معاشی مشکلات کا یہ حل نہیں
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر منظور ہونے پر ایسے خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں جیسے یہ معاشی بحالی کا سنگ میل ہو، حالانکہ قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ گزشتہ برس پاکستان کا بیرونی قرضہ 123.574 تھا رواں برس کے دوران تیرہ ارب ڈالر مزیداضافہ ہونے سے غیرملکی قرضہ 136ارب ڈالرکی ریکارڈ حدتک پہنچ جائے گا۔ علاوہ ازیں مارچ کے بعد اگلے آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت بھی ناگزیر ہے۔ حالانکہ معاشی مشکلات کایہ حل نہیں بلکہ اِس طرح تو قرض کا بوجھ مزید بڑھتا جائے گا ۔معاشی مشکلات کا حل یہ ہے کہ اپنی ضروریات کے حوالے سے خودکفیل ہوں درآمدی اور برآمدی فرق ختم کیا جائے مگر خود کفالت کی بجائے قرض ملناارباب ِاختیاراپنی کامیابی تصورکرتے ہیں یہ پالیسی کئی عشروں سے ملک میں رائج ہے ایسے طرزِ عمل سے نہ توملک کو معاشی استحکام مل سکتا ہے اور نہ ہی غربت میں تخفیف آ سکتی ہے ۔
یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ خام مال کی عدم دستیابی یا مہنگاہونا صنعتی ترقی میں اہم رکاوٹ ہے نیز ضروریات کے مطابق سستی ہُنر مند افرادی قوت کابھی فقدان ہے جو کارخانوں کی بند ش کی اہم وجوہات ہیں لوڈشیڈنگ کا مسلہ بھی نہ صرف برقرار ہے بلکہ آئے روز بجلی کی قیمت میں اضافہ الگ پریشان کُن ہے مذکورہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے حکمرانوں کی تونائیاں قرض حاصل کرنے کے لیے وقف ہے جیسے جیسے بجلی کی قیمت بڑھ رہی ہے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اسی بناپر صنعتکار دیگر شعبوں مین سرمایہ کاری کی طرف راغب ہورہے ہیںاِس طرح برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے ہوتاجارہاہے بجلی مہنگی کرنا معاشی مسائل کا حل نہیں بلکہ حل یہ ہے کہ صنعت وحرفت کے لیے سازگار ماحول یقینی بنایا جائے ۔
معاشی صورتحال پر نظر رکھنے والے عالمی اِدارے فچ نے آئی ایم ایف سے قرض کا نیا معاہدہ ہونے پر پاکستان کی منفی معاشی صورتحال کو تھری سی میں تبدیل کردیا ہے جس کا مطلب ہے کہ معمولی بہتری کے باوجود معیشت مسائل سے دوچار رہے گی ایسے ہی ایک اور عالمی اِدارے بلوم برگ کے مطابق عالمی مالیاتی اِدارے آئی ایم ایف سے قرض ملنا معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں یہ درست ہے کہ عارضی طورپرہی سہی ڈالربانڈ میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیاہے نیزآئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اِدارے کی طرف سے اعتماد کرنے پر فنڈنگ میں بہتری کارجحان ہے مگر ابھی تک ادائیگیوں جیسے مسائل کا مکمل طورپرخاتمہ نہیں ہو سکا پاکستان کی ادائیگیاں زرِ مبادلہ کے ذخائر سے چھ گنا زائد ہیں پھربھی حکمران خوش ہیں کہ ملک کو دیوالیہ نہیں ہونے دیا تعجب ہے ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب دو ارب ڈالر،متحدہ عرب امارات ایک ارب ڈالر،رواں برس چین سے تین ارب ڈالر جبکہ عالمی بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک سے ملنے والے پچاس پچاس کروڑڈالر کی بنیاد پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 11.6ارب ڈالر ہو جائیں گے 2024 میں پاکستان نے 23ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیںجس کے لیے زرِ مبادلہ کے ذخائرقطعی طورپر ناکافی ہیں اس لیے معاشی استحکام کے خوش کن دعوے کو عارضی کہے بناچارہ نہیں اورنہ ہی مزید قرض ملنے کو عالمی برادری کے اعتماد کا عکاس کہہ سکتے ہیںحالیہ قرض بھی ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعدحاصل ہوا یہ قرض حاصل کرنے سے قبل بجلی کے نرخ بڑھائے گئے اور عوامی سہولتوں میں کمی کی گئی ایسے فیصلوں کا خمیازہ سیاسی طورپر بھگتنا پڑے گا۔
ماضی کے کئی عشروں سے سبھی حکمرانوں نے معاشی بحالی کو ترجیح بنانے کی بجائے عوام کو وقتی طور پربے نظیر انکم سپورٹ جیسی سہولتیں دیکر سیاسی کامیابیاں حاصل کیں مگر اِس طرح ملک معاشی گرداب میں دھنستاچلا گیا آج صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ قرض کی اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کرنے پر مجبورہیں جو مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ ہے زرائع آمدن کم ہونے نیز حکومتی سبسڈی کی کم ترین سطح سے ملک میں غربت بڑھ رہی ہے بائیس کروڑکی آبادی میں سے سات کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں حالانکہ ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین اِس حوالے سے مسلسل کامیاب ہیں بھارت 415 ملین جبکہ چین 900ملین آبادی کو غربت سے نکال چکا ہے دور کیوں جائیں ہم سے الگ ہونے والا بنگلہ دیش بھی معاشی ترقی میں ہمیں پچھاڑ چکا ہے ضرورت اِس بات کی ہے کہ قیادت ایسا لائحہ عمل بنائے جس سے جوہری طاقت کے ساتھ ملک معاشی طاقت بن سکے اِس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی رہنما ،قوم اور اِدارے سنجیدہ ہوکر معیشت پر توجہ دیں تاکہ ملک کی اقتصادی اور معاشی حالت مستحکم ہو ملک کی چھہتر سالہ تاریخ میں چند خاندانوں کی مالی حالت بہتر ہونے کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا یہ خاندان باری باری اقتدار میں آتے اور ملک کو معاشی طاقت بنانے کے کھوکھلے نعرے لگا کر رخصت ہوجاتے ہیںستم ظریفی تو یہ کہ یہی خاندان دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے ایسے ہی کھوکھلے نعروں پر اکتفا کیے ہوئے ہیں جس کا عوام کوبھی ادراک کرنا چاہیے مگر حقیقت جان کر بھی عوام انھی کی طرف دیکھنے پر مجبورہے
میرکیا سادہ ہیں بیمارہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
میں کوئی مایوسی نہیں پھیلاناچاہتامگر حقائق کو جھٹلانا بھی دانشمندی نہیں ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہماری سیاسی قیادت دوراندیش نہیں بلکہ ذہنی افلاس کا شکار ہے جو ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کی بجائے وقتی سیاسی کامیابی کو ترجیح دیتی ہے۔ گزشتہ ایک برس کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ حکمرانوں کی لاپرواہی سے پاکستان دنیا کی چوبیسویں بڑی معیشت سے آج سینتالیسویں نمبر پر جاچکا ہے۔ مزیدیہ کہ ابھی بھی ملک کی معاشی حالت سنبھلتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ حکمرانوں کی توجہ مسائل حل کرنے سے زیادہ سابق حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرانااور آئندہ اقتدارحاصل کرنے پر ہے۔ مختلف الخیال سیاسی جماعتوں نے ملک کا اقتدار تو حاصل کر لیا ہے لیکن اِس دوران ملک کی معاشی حالت اتنی پتلی ہو چکی ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے خزانے میں کچھ نہیں بچا حالات اِتنے خراب ہوچکے ہیں کہ آئے روز بجلی اور تیل کے نرخوں اور ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ کرنا مجبوری ہے۔ اِس طرح زرعی اور صنعتی مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا بلکہ مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوتا جا
رہا ہے حکران جتناجلد تسلیم کرلیں کہ قرضے معاشی مشکلات کا حل نہیں بلکہ حل یہ ہے کہ پیداواری عمل بڑھانے کی طرف توجہ دی جائے مہنگائی اوربے روزگاری سے دوچار عام افراد کوسہولتیں دی جائیں اِس طرح معاشی استحکام اور غربت میں تخفیف ممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔