میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حادثات کا فراڈ

حادثات کا فراڈ

منتظم
هفته, ۱۵ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

حادثات تو قدرتی طور پر ہوتے ہیں جن سے مفر نہیں۔مگر کچھ حادثات یقینی طور پر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو خود بھی کرڈالا جاتا ہے ۔کم محنت سے زیادہ مال بنائو والاغلیظ ذہن ایسے واقعات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ احمد پور شرقیہ کے دل سوز واقعہ پر جس میں تیل کا ٹینکر اُلٹنے سے سوا دو سو کے قریب افراد جل بھن کراپنی جانیں ہار گئے اور ان سے بھی زائد اب بھی پنجاب بھر کے ہسپتالوں میں جاں کنی کے عالم میں پڑے ہیں ۔چوروں کاسڑکوں پر چلنے والے ٹرکوںکے ا وپر چڑھ کر دن اورخصوصاً رات کے اندھیروں میں گھریلو سامان ،گھی ،صابن ،تیل اور دیگر ضروری اشیاء کے کنستر وں کے ڈبے سڑکوں کی دونوں طرف موجود خصوصی جگہوں اورکھڈوں میں پھینکتے رہنا اور اُن کے ساتھیوں کا پیچھے پیچھے اپنی ویگن ٹرک وغیرہ پر تیزی سے سامان اکٹھا کرتے چلے جانا جیسے واقعات عام ہوتے رہتے ہیں۔اگر کمپنیوں وغیرہ کا مال ہو تو بھیجنے والے ملازم اور ٹرک ڈرائیور وغیرہ آپس میں ہی ملاپ کرکے لاکھوں روپے کمانے کے لیے ایسی منصوبہ بندی کرلیتے ہیں ۔ ایک حقیقت پر مبنی واقعہ یہ ہے کہ ایک کمپنی کا ذمہ دار ملازم بھی تیل صابن ،گھی ،ٹوتھ پیسٹ وغیرہ کا ٹرک بھر کرکمپنی کے ڈپو سے نکالا ۔مگر ٹرک کے ڈرائیور سے ساز باز کرکے آدھے سے زائد سامان اگلے کسی آمدہ اسٹاپ پر اتار کر اپنے مخصوص دُکاندار کو بیچ ڈالا اور اس طرح25,30لاکھ کا سامان ہضم کر گئے ۔ کمپنی کو ٹرک ڈرائیور نے رپورٹ کردی کہ رات کے اندھیرے میں چوروں نے اپنے مخصوص طریقۂ واردات سے سامان اتار لیا ہے۔متعلقہ قریبی تھانہ میں رپورٹ درج کرانا ہی کمپنی کے لیے کافی ہوتاہے۔
احمد پور شرقیہ کے واقعہ میں بھی کراچی سے تیل کمپنی کا ٹینکر چالیس پچاس ہزار لیٹر تیل بھر کرمختلف دو ر دراز پٹرول پمپوں پر پہنچانے کے لیے جارہاتھا ۔ٹینکر کے ڈرئیور کے ساتھ کبھی کبھار تو ایک آدھ ہیلپر موجود ہوتا ہے وگرنہ ٹرک ڈرائیور خود ہی ٹینکر لے کر چل پڑتے ہیں ۔چونکہ ایسے تیل بھرے ٹینکر کو انتہائی سست رفتاری سے اپنا سفر طے کرنا ہوتا ہے، اس لیے انہیں کراچی سے بہاولپور ملتان یا پشاور تک پہنچنے میں کئی دن بھی لگ سکتے ہیں۔ڈرائیور نے ریسٹ وغیرہ بھی کرنا ہوتا ہے اس لیے عام طور پر ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ ایسے ٹرک ٹرالے ٹینکروغیرہ روڈسائیڈہوٹلوں پر کھڑے ہوتے ہیں ۔اگر ڈرائیور اور ہیلپر مل کر یہ منصوبہ بنالیں کہ راستے میں ٹینکر سے اتنے ہزار لیٹر کسی واقف پٹرول پمپ والے کو بیچ ڈالنا ہے۔ 20,25 ہزارلیٹر ہی بیچ ڈالیں تو 18,20لاکھ روپے مفت میں کمائی ہوگئی۔ اس طرح ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آوے۔ ویسے ڈرائیوری ہیلپری کرتے تو زندگی گزر جائے گی مگر اتنی رقم تو ایک ہی دفعہ ہاتھ آجائے گی پھر کسی سنسان جگہ پر جہاں سڑک ٹوٹی ہوئی ہو یا ذرا کچی سڑک پر اتارنا پڑ جائے تووہیںاسے بآسانی الٹا یا جاسکتا ہے۔ اب واردات کرنے والے ٹینکر کااوپر والا ڈھکنا جہاں سے تیل کمپنی ڈال کر بھیجتی ہے وہ اصولاً سیل بند ہونا چاہیے صرف جہاں تیل پہنچانا ہے وہیں جا کر اس سیل کو توڑ کر ڈھکن کھولا جاسکتا ہے۔ بے ایمانی کے مرتکبین ٹرک ڈرائیور وغیرہ اسے توڑ ڈالتے ہیں تاکہ جب خود ٹرک کو الٹائیں تو سارا تیل اس میں سے بہہ نکلے اور مٹی ملے تیل کو کوئی کمپنی کا نمائندہ بھی کیسے پیمائش کرسکتا ہے ۔بیس تیس ہزار لیٹر ڈرائیور وغیرہ نے بیچ لیا، باقی کا ڈراما کردیا کہ وہ بہہ نکلا ہے اور اس طرح لاکھوں روپے کسی بھی مشقت کے بغیر حاصل ہوگئے۔ عقل کے اندھوں کو کوئی یہ تو پوچھے کہ تیل تو انتہائی حفاظت کے ساتھ اوپر سے مکمل سیل کرکے لے جایا جارہا ہوتا ہے ۔ٹینکر کے اُلٹنے پر بھی اس میں سے تیل باہر نہیں نکلنا چاہیے۔اب اس خصوصی پہلو پر تفتیش کی جانی اشد ضروری ہے۔ دیکھا جائے کیا اس جگہ پر سڑک ٹوٹی ہوئی تھی؟ نا ہموار تھی ؟کیا کوئی ٹریفک ساتھ سے گزررہی تھی کہ ٹینکر کو ساتھ گزرتے مشکل آن پڑی ۔جس کمپنی نے پچاس ہزار لیٹر تیل ڈال کر ٹینکر کو منزلِ مقصود پر پہنچانے کے لیے بھیجا ہے۔ اس نے اس کا اوپر والا ڈھکنا کیا سیل کیا تھا کہ نہیں؟ اتنے بھاری بھرکم تیل کے ٹینکر یونہی نہیں اُلٹ جایا کرتے۔ اگرتیل کے ٹینکر کے اُلٹنے سے قبل اوپر والا ڈھکنا سیل نہ کیا گیا ہویا سیل توڑ دی گئی ہو تو یہ اس بات کا بین ثبوت ہو گا کہ انہوں نے اسے خود کھولا ہے اور ٹینکر سے تیل کی بھاری مقدار چوری کرکے خود اُلٹایا ہے۔ عام حالات میں ٹرک ڈرائیورزندہ بچ رہتے ہیں جب وہ خود ایسی واردات کرتے ہیں۔ٹینکروں کی چیکنگ بھی ٹریفک پولیس کا کام ہے کہ وہ اسے مکمل چیک کرکے اس کو اپنا خصوصی سرٹیفکیٹ جاری کریں مگر عام طور پر اس میں چمک کام آتی ہے تھوڑا مال لیکر ہی اور بغیر چیکنگ کیے سرٹیفکیٹ جاری ہوجاتے ہیں اور کئی باردیکھاگیا ہے کہ ٹینکروں سے سڑک پر تیل گرتا جارہا ہوتا ہے اور کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی۔ ان سارے کرداروں کی بھرپور تفتیش ہونی چاہیے اورسبھی ذمہ داران پر قتل عمد کے مقدمات درج ہونے چاہئے اور دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میںان مقدمات کی سماعت کرکے ملزمان کو جلد ازجلد کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ تاکہ گزشتہ راصلوٰۃاور آئندہ رااحتیا ط کے طور پرٹریفک پولیس و دیگر ذمہ داران اور تیل کمپنیاں تیل ٹینکروں کو خصوصی طور پر چیکنگ کرکے اور سیل بند کرکے بھجوایا کریں۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر بوسیدہ پرانے ٹینکر یونہی راستے میں تیل بکھیرتے چلے جائیں گے اور کئی جگہ آگ لگنے سے خونی حادثات رونما ہوسکتے ہیں۔ان پہلوئوں کی گہرائی میں تحقیق و تفتیش کر لی جائے تمام تیل کے ٹینکروں کی چیکنگ بھی ہو تو کئی خفیہ راز کھلیں گے کہ ہمارا انسانی معاشرہ بالکل سرمایہ پرست ہوچکا اور ہمارے لوگ جعلی گھی ،جعلی دودھ ،جعلی مصالحہ جات ،مشروبات اور ادویات تک تیار کرکے انسانوں کے پیٹوں میں ڈال رہے ہیں تو اس طرح راہ چلتے تیل بیچ کر لاکھوں روپے ہضم کرکے تیل ٹینکر خود کیوں اُلٹا نہیں سکتے؟ یہ راتوں رات لاکھوں پتی بن جانے کا آسان ترین نسخہ ہے۔فراڈی انتہائی ذہین افراد دھوکا دہی اور سرمایہ بنانے کے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ یہ نسخہ سیاہ ہی یہاں نہ چلا ڈالا ہو۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں