
تم نے چھپ کر محاذ کھولا ہے ،تم سے کھل کر مقابلہ ہوگا
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
اسرائیل کی اساس دہشت گردی پر رکھی گئی وہ گزشتہ 75سالوں سے اپنے مقصدِ وجود کو پورا کرنے میں مصروفِ عمل ہے ۔ایران پر حالیہ اسرائیلی حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ اس حملے کا ہدف ایران کی فوجی قیادت اور جوہری سائنس دان تھے ۔ ان حملوں میں ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف محمد باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور کمانڈر غلام علی راشد کے علاوہ جوہری سائنس دانوں میں عبدالحمید منوچہر، احمد رضا ذوالفقری، امیر حسین فقہی، مطلب زادہ، محمد مہدی تہرانچی اور فریدون عباسی کے روحانی پیشوا آیت اللّہ علی خامنہ ای کے مشیراعلیٰ علی شمخانی بھی شہید ہوگئے ۔ ان کے علاوہ کم از کم 35 بچوں اور خواتین سمیت جملہ 50 افرادکے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے ۔ اس بزدلانہ حملے کے بعد اگر اسرائیل اور امریکہ اس خوش فہمی کا شکار ہیں ایران ڈرکر جھک جائے گا تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں امریکیوں نے ایران کی پوری پارلیمنٹ کو تمام ارکان سمیت اڑا دیا تھا پھر بھی ایران نے گھٹنے نہیں ٹیکے ۔ عراق کے ذریعہ مسلط کردہ نو سالہ جنگ بھی ان کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکی تو اس بزدلانہ حملے سے کیا ہوگا؟
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ اور ایرانی فوج نے ان حملوں کا ‘سخت جواب دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ان کی ‘بھاری قیمت’ چکانی پڑے گی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے خبردار کیا کہ’اس جرم کے ساتھ، صہیونی حکومت نے خود کو ایک تلخ اور دردناک انجام کے لیے متعین کیا ہے اور وہ اسے ضرور حاصل کرے گی۔’ایران نے متنبہ کیا کہ اسلامی جمہوریہ کو اقوام متحدہ کے چارٹرمیں درج آرٹیکل 51 کے مطابق جواب دینے کا’قانونی اور جائز حق’ ہے ۔ایرانی وزارت خارجہ نے بتایا کہ ایران کی مسلح افواج ‘اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایرانی قوم کا دفاع کرنے سے دریغ نہیں کرے گی۔’ ایران کی مسلح افواج کے ترجمان ابوالفضل شیکرچی نے کہا کہ ‘مسلح افواج یقینی طور پر اس صہیونی حملے کا جواب دیں گی۔’وہ بولے اسرائیل کو ایرانی مسلح افواج کے سخت ردعمل کا انتظار کرنا چاہیے ‘۔ ایرانی سکیورٹی اہلکار نے آگاہ کیا کہ ‘اسرائیلی حملے کا جواب سخت اور فیصلہ کن ہو گا۔’ ایرانی قیادت کا عزم و حوصلہ پر عاصم واسطی کے یہ شعر صادق آتا ہے
تم نے چھپ کر محاذ کھولا ہے
تم سے کھل کر مقابلہ ہوگا
ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات سے اسرائیل ناراض ہے ۔ یہ حملہ اس ایک ایسے وقت میں کیاگیا جبکہ دو دن بعد عمان میں امریکہ وایران کے درمیان گفتگو کا اگلا دور ہونے والا تھا ۔ امریکی صدر نے یہ اعتراف تو کیا کہ انہیں اس حملے کا علم تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کو منع کیوں نہیں کیا ؟ ممکن ہے ٹرمپ کا یہ بیان جھوٹ پر مبنی ہو اور وہ امریکہ کے اندر صہیونی لابی سے کریڈٹ لینے خاطر علم ہونے یعنی اجازت دینے کی بات کررہا ہے ۔ اسرائیل کے آگے اگر امریکہ ایک نہیں چلتی یہ گفتگو بے معنیٰ ہے ۔ اس حملے کے بعد گفتگو کے جاری و ساری رہنے کی امید سراسر خوش فہمی ہے یعنی جوہری مذاکرات کا قلع قمع ہوگیا ہے ۔ ایران نے چونکہ اس سے قبل دھمکی دی تھی کہ اگر تنازع ہوا تو امریکی اڈوں پر حملہ کیا جائے گا۔ اس لیے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو خلیج میں موجود اپنی فوجی تنصیبات کت تحفظ کی خاطر یہ کہنا پڑاکہ امریکہ اس حملے میں ملوث نہیں تھا ، تاہم ایران کی وزارت خارجہ نے بجا طور پر امریکہ کو اس حملے کے ‘نتائج کا ذمہ دار’ ٹھہرایاہے ۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے گزشتہ ہفتے یورینیم کی افزودگی کو ایران کے جوہری پروگرام کی ‘کنجی’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن کو اس پر ‘بولنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔’ ان کے نزدیک ایران کاجوہری پروگرام’ناقابل گفت و شنید’ حق ہے مگر واشنگٹن اسے ایک ‘سرخ لکیر’ سمجھتا ہے ۔ فی الحال ایران یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے ، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس معاہدے کو تو خود ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر توڑ دیا تھا اس لیے امریکی صدر اس کی خلاف ورزی کے لیے ایران کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے ۔ ویسے بھی جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح سے وہ اب بھی بہت کم ہے ۔100 کے قریب ایٹمی بموں کے مالک اور عالمی عدالت میں غزہ کے اندر نسل کشی کے مجرم نیتن یاہو کو تو ایران کے جوہری منصوبے پر اعتراض کرنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے ۔
امریکہ سمیت مغربی ممالک ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، جبکہ تہران کے مطابق اس کا جوہری منصوبہ پرامن مقاصد کے لیے ہے ۔ ویسے اسرائیل کے اس حملہ نے ایران کو اسرائیل پر جوابی حملے کے ساتھ اس کے جوہری خطرے نمٹنے کے لیے خود ایٹم بم بنانے کا جواز بھی فراہم کردیا ہے ۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیل میں جا جاکر نیتن یاہو کے آنسو پونچھنے والے یوروپی ممالک نے ایران پر ہونے والی جارحیت کے خلاف ایک حرف بھی نہیں آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے ان لوگوں نے کن مقاصد کے حصول کی خاطر اسلامی دنیا کے قلب میں اسرائیل نام کی یہ ناجائز ریاست قائم کی اور کیوں اسے پال پوس رہے ہیں؟ اسرائیل نے ابھی جو مذموم حرکت کی وہ کوئی مسلم ملک نہیں کرسکتا ۔ سفید فام ممالک میں روس ایک استثناء ہے جس نے تشویش اور وہ کشیدگی میں تیزی سے اضافے کی مذمت کی ہے ۔
ایران کی جوہری اور فوجی تنصیبات پر اسرائیلی حملوں پر ‘شدید تشویش’کا اظہار کرکے چینی وزارتِ خارجہ نے انہیں ملک کی خودمختاری کی ‘خلاف ورزی’ قرار دیااور مذمت کی نیز کشیدگی کو کم کرنے میں تعاون کی پیشکش کی۔ چین نے متعلقہ فریقوں کو علاقائی امن و استحکام کو فروغ دینے اور کشیدگی کو بڑھانے سے گریز کرنے کی تلقین کی۔جاپان اور افریقی یونین نے بھی ایران کی فوجی اور جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے ۔ ایران پر حملے کی تمام ہی اہم مسلم ممالک نے پرزور مذمت کرکے اسلامی حمیت کا مظاہرہ کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایران پر اسرائیل کے ‘بلا اشتعال’ حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کی بابت لکھا کہ ‘یہ سنگین اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل نہایت تشویشناک ہے اور اس سے غیر مستحکم خطے میں عدم استحکام کا خطرہ گیاہے ۔’ پاکستانی وزیراعظم نے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ سے کشیدگی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرکے علاقائی اور عالمی امن کو قائم رکھنے پر زور دیا ‘۔
پاکستان کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی قرار دے کرحملے میں جانوں کے ضیاع پر ایران کے عوام کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔ پاکستانی قومی اسمبلی ایک قرارداد منظور کرکے ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ‘ناجائز اور غیر قانونی’ قرار دیا گیا۔ قرارداد میں خبردار کیا گیا ہے کہ ‘اسرائیل کی طرف سے ایسی مسلسل جارحیت نے نہ صرف مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا کو سنگین خطرات میں ڈال دیا ہے ، جن کے نتائج کی مکمل ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوگی۔ ایران کو اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے ۔’قرارداد کے اندر ایران کی حکومت، پارلیمان اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرکے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کے اجلاس بلوانے کا مطالبہ کیا گیا۔
سعودی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا کہ ‘سعودی عرب برادر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسرائیلی صریح جارحیت کی شدید مذمت کرتا ہے ، جو اس کی خود مختاری اور سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں۔’ افغانستان میں طالبان حکومت نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور علاقائی عدم تحفظ کو ہوا دیتے ہیں’۔طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان انتظامیہ، اسرائیل کو تسلیم تونہیں کرتی، مگر خطے میں مزید عدم تحفظ اور عدم استحکام کو پھیلنے سے روکنے ‘ کا مطالبہ کرتی ہے ۔ غزہ کے ثالث قطر نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘قطر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتا ہے ۔’اردن نے بھی ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ علاقائی سلامتی کو خطرہ ہے اس طرح اسلامی ممالک نے دیگر کی پھسپھسی حمایت کے برعکس قلبی اخوت کا اظہارکیاہے ۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جبکہ نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں شدید ناراضی پائی جاتی ہے اور اس کی کرسی خطرے میں ہے ۔ امریکہ کے بارہ ریاستوں میں موجود پچیس بڑے شہروں زبردست احتجاج ہورہا ہے ۔ اس لیے یہ حملہ اس ناراضی کی جانب سے توجہ ہٹانے کی بھی ایک سعی ہوسکتی ہے ۔ اس دوران کئی ممالک کے ہزاروں لوگ عالمی جلوسِ امن لے کر رفاح سرحد سے ہوکر غزہ جانے کی تیاری کررہیں۔ اس حملے سے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے مظاہرین کو نہیں روکا تو ان کی جان پر خطرات لاحق ہیں۔ فلسطینی تحریکِ مزاحمت حماس نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ جارحیت میں اضافہ سے خطے کو غیر مستحکم کر سکتاہے ۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ ‘آج فلسطین کی حمایت اور اس کی مزاحمت میں اپنی ثابت قدمی کی قیمت چکا رہا ہے ۔’ ایران کوانتقام کا حق فراہم کروا کر اسرائیل نے اپنے پیروں ہر کلہاڑی مارلی ہے ۔اللہ کرے اس کے بہترین نتائج ظاہر ہوں اور اسرائیل نام کے اس ناسور سے عالمِ انسانیت کو نجات ملے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔