این ڈی ٹی وی لوک نیتی جائزے کے دلچسپ انکشافات
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے کسی صوبائی انتخاب میں جب مودی جی کا جادو ناکام ہوجاتا ہے تو اس کی پردہ پوشی کے لیے ایک نیا سروے پیش کردیا جاتا ہے ۔ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے بعد این ڈی ٹی وی نے لوک نیتی کی مدد سے ایک جائزہ پیش کرکے بتایا کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے آج بھی مودی جی 43 فیصد لوگوں کی پسند ہیں یعنی اگر ترکی جیسا صدارتی انتخاب ہندوستان میں ہوجائے تو وہ کم ازکم پہلے راونڈ میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے ۔ لوک نیتی کے اس سروے میں مزید یہ انکشاف کیا گیاکہ 2019 کے مقابلے اس مقبولیت میں ایک فیصدی کی کمی واقع ہوئی ہے ۔ ویسے کمی تو کمی ہے چاہے ایک فیصدی کو ہو یا دس فیصدی کی لیکن وہ اس بات کا اشارہ ضرور ہے کہ مودی جی کا سورج ڈھلان پر ہے اوراب نیچے آنا اس کا مقدر ہے ۔ این ڈی ٹی کے مالک گوتم اڈانی سمیت مودی بھگتوں کو خوش کرنے کے لیے یہ بھی بتایا گیا کہ راہل گاندھی کی مقبولیت 27 فیصد ہے لیکن اس کے ساتھ یہ انکشاف کیا گیا کہ 2019 کے مقابلے اس میں تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ سروے بتاتا ہے کہ دونوں کی مقبولیت کے درمیان اب بھی 16فیصدی کا فرق ہے لیکن ایک روبہ زوال اور دوسرا عروج کی جانب گامزن ہے ۔ یہ خلیج آگے چل کر کم ہی ہوگی لیکن پھر بھی پارلیمانی نظام سیاست میں اس کی حیثیت ثانوی ہے ۔
اس جائزے میں یہ بھی جاننے کی کوشش کی گئی کہ آخر لوگ مودی کو کیوں پسند کرتے ہیں ۔ یہ معلوم کرنے کے لیے عوام سے رائے لی گئی تو ان کی مقبولیت مزید تین فیصد کم یعنی 40 فیصدی پر آگئی۔ اس کے علاوہ 25 لوگوں کو وہ نہ تو پسند ہیں اور نہ ناپسند ہیں یعنی یہ غیر جانبدا ر رائے دہندگان ہیں۔ اپنی تشہیر پر کروڈوں روپئے پھونکنے کے بعد اگر یہ نتیجہ نکلتا ہے تو یہ قابل صد افسوس ہی کہا جائے گا۔ ان دونوں کٹیگری کو ہٹا دیا جائے تو 35فیصدی لوگ بچ جاتے ہیں جو مودی جی کو ناپسند کرتے ہیں حالانکہ یہ لکھنے کی جرأت این ڈی ٹی وی نے نہیں دکھائی۔ مودی کی پسند اور ناپسند کا فرق صرف پانچ فیصدی ہے ۔ اب آئیے پسند کی وجوہات کا رخ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ 25 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اچھے مقرر ہیں۔ یہی وجہ ہے غالباً کہ مودی جی کی ساری توجہ بول بچن پر مرکوز رہتی ہے لیکن پھر بھی ان کی اس خصوصیت سے متاثر ہونے والے 25 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔
اس سروے کا ایک دلچسپ انکشاف یہ ہے کہ وزیر اعظم کو ترقی کی علامت (وکاس پوروش ) سمجھنے والوں کی تعداد صرف 20 فیصدی ہے ۔ یہ اس رہنما کے بارے میں رائے ہے کہ جو ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس(ترقی) ‘ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آیا تھا ْ ۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ مودی بھگتوں کے نزدیک بھی اس نعرے کی اہمیت بھی محض ایک انتخابی جملہ سے زیادہ کی نہیں ہے ۔ گودی میڈیا وزیر اعظم کے بارے میں یہ افواہ پھیلاتا رہتا ہے کہ وہ اٹھارہ گھنٹے محنت کرتے ہیں لیکن ان کو محنتی سمجھنے والوں کی تعداد بھی صرف 13 فیصدی ہے اور اتنے ہی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مودی جی ایک طلسماتی (کرشمائی) شخصیت کے حامل ہیں۔ خیال رہے یہ ان لوگوں کی بات ہورہی ہے جو مودی جی کے شیدائی ہیں ان کو پسند کرتے ہیں یعنی ٹوٹل کے چالیس فیصدی۔ اس طرح کل آبادی کا یہ صرف پانچ فیصدی بنتے ہیں ۔ ایسے میں اگر آر ایس ایس کا آرگنائزر کہتا ہے کہ انتخابی کا میابی کے لیے مودی میجک کافی نہیں ہے تو اس میں غلط کیا ہے اور جو لوگ اس جادو کے سہارے اپنی نیاّ پار لگانا چاہتے ہیں ان کا مقدر بومئی کی مانند ڈوبنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ؟
بی جے پی والے جب بھی انتخاب ہار جاتے ہیں تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانند انہیں ووٹ کا تناسب یاد آجاتا ہے ۔ کرناٹک میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا کہ بی جے پی کے ووٹ تناسب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ یہ سچ ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے بی جے پی کے ووٹ کا تناسب پہلے بھی کانگریس سے دو فیصد کم تھا اور پہلے جو کھائی چھوٹی تھی وہ اب بڑھ کر ٧ فیصد تک جاپہنچی ہے ایسے میں اپنے ووٹ کے تناسب سے کیا وہ اچار ڈالے گی؟ قومی سطح پر موجودہ صورتحال میں بی جے پی کو 39 فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے جو2019 کے مقابلے دو فیصدی زیادہ ہے لیکن اس کے مقابلے کانگریس کے ووٹ کا تناسب 19 فیصد سے بڑھ کر 29 تک پہنچ گیا ہے ۔ یہ غیر معمولی اچھال ہے اب اگر اندھے بھگت دو فیصد کی ترقی کو دس فیصدی سے زیادہ سمجھتے ہوں تو ان کے دماغ کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے ۔ یہ پیش رفت اگر ایک سال تک جاری رہی تو دونوں کا فرق اور بھی کم ہوسکتا ہے ۔
مودی سرکار اپنے اقتدار کے ٩ سال مکمل کرچکی ہے اور ملک بھر میں زور و شور سے اس کا جشن منایا جارہا ہے ۔ بی جے پی کو اپنے سارے ارمان نکال لینے چاہئیں اس لیے کہ دوبارہ یہ موقع ملے ضروری نہیں ہے ۔ اس موقع پر عوام کے اس سرکار کے تئیں اطمینان کی بات کریں تو اس سے پوری طرح خوش لوگوں کی تعداد صرف اور صرف17 فیصد ہے جی ہاں یہ گوتم اڈانی کے این ڈی ٹی وی پر شائع ہونے والے اعدادو شمار ہیں ۔ ان کے علاوہ کچھ حد تک یعنی جزوی اطمینان رکھنے والوں کی تعداد38 فیصد ہے ۔ اس کے برعکس غیر مطمئن لوگوں کی تعداد45 فیصد ہے ۔اب اگر یہ لوگ مودی سرکار کو اس کی نااہلی کا سبق سکھانے کے لیے کمربستہ ہوجائیں تو مودی جی کی تیسری بار حلف برداری کیسے ہوگی ؟ امیت شاہ کشمیر کو اپنا ماسٹر اسٹروک سمجھتے تھے لیکن صرف 28 فیصد لوگ اس بابت حکومت کے رویہ خوش ہیں اور13 فیصد کے نزدیک وہ اوسط کارکردگی ہے ۔ باقی بچے 59فیصد اس بابت ناراض ہیں۔ مودی جی کا ایک نعرہ تھا ‘نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا۔ چوکیدار بن کر بیٹھ جاوں گا’۔وہ ٩ سالوں سے چوکیدار بن کر براجمان تو ہیں لیکن 41 فیصد لوگوں کی رائے ہے کہ انہوں نے بدعنوانی کو کم کرنے میں اچھا کام کیا جبکہ 45 لوگوں کا خیال ہے ان کارکردگی بری رہی۔
افسوس کی بات ہے رشوت خوری ہندوستانی معاشرے میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ صرف پانچ فیصد لوگ اس کو اہم مدعا مانتے ہیں ۔ ویسے آرگنائزر نے تسلیم کیا کہ کرناٹک کے انتخابات میں بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ تھا ۔ وہ لکھتا ہے کہ مودی کے مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار بی جے پی کو ریاستی اسمبلی انتخابات میں بدعنوانی کے الزامات کا دفاع کرنا پڑا۔ مودی سرکار کی کارکردگی یعنی ڈیلیوری کے نظام پر یہ سروے بتاتا ہے کہ آر ایس ایس نے اسے موثر بنانے پر زور کیوں دیا؟ اس نظام کی خرابی کے لیے کچھ ٹھوس وجوہات ہیں۔ ایک زمانے تک آر ایس ایس کی بدولت بی جے پی ایک کیڈر کی مدد سے چلنے والی سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی ۔ اس میں مقام سے لے مرکزی سطح تھے کئی رہنما ہوا کرتے تھے ۔ اس طرح علاقائی قیادت اپنے آپ عالمِ وجود میں آجاتی تھی۔ وقت کے ساتھ مودی جی نے اس کی شناخت ہی بدل دی ۔ جب یہ نعرہ بلند ہوا کہ ‘ہر ہر مودی ، گھر گھرمودی’ تو اس میں نہ نظریہ موجود تھا اور پارٹی کا کوئی نام و نشان تھا ۔
ابتدا ء میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ پارٹی کے اندر اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہو ۔اس احساسِ جرم پرقابوپانے کے لیے مودی جی کو’مہا مانو’ بناکر پیش کردیاگیا۔ ‘مودی ہے تو ممکن ہے ‘ کا نعرہ اسی کوشش کا حصہ تھا۔ اس سے پارٹی کو یہ پیغام دیا گیا کہ انہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ مودی جی اڑن کھٹولا میں بیٹھ کر آئیں گے اور انتخاب میں کامیاب کرواکے چلے جائیں گے ۔ مودی جی نے اس خام خیالی کی تردید کرنے کے بجائے ایوان پارلیمان میں اعلان کردیا کہ ‘ ایک اکیلا سب پر بھاری’ ۔ یہ سن کر بی جے پی والے اور بھی بے فکر ہوگئے ۔پہلے زمانوں میں سیاسی رہنما ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے سیاست میں آتے تھے اب نئی نسل نے اس کو پیشہ بنالیا ہے ۔ عوام کی خدمت کرنا اب ان کا جنون یا شوق نہیں بلکہ مجبوری ہے جب ان کو محسوس ہوتا ہے کہ کچھ کیے بغیر ووٹ نہیں ملے گا تو وہ بادلِ نخواستہ خدمت خلق کا کام کرتے ہیں ورنہ کھانے کمانے اور روپیہ بنانے میں لگے رہتے ہیں ۔ ایسے میں اگر انہیں یقین ہوجائے کہ مودی جی کے پاس ایک جادو کی چھڑی ہے ۔ وہ اس کو گھمائیں گے اور بیڑہ پار ہوجائے گا تو وہ بھلا عوام کے مسائل سمجھنے اور انہیں سلجھانے کی جھنجھٹ میں کیوں پڑیں ؟ بومئی کی مانندپے ٹی ایم کی مانند پے سی ایم کیوں نہ بن جائیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔