غلامی سے نجات !
شیئر کریں
حقیقت اور دعویٰ دو الگ الگ باتیں ہیں ، یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران باتیں بھی بہت کرتے ہیں اور دعوے مگر اس سے بھی زیادہ لیکن جب حقیقت آشکارہوتی ہے تو دل کو بہت رنج ہوتا ہے جیسے نازک سے آبگینوں کو ٹھیس پہنچتی ہو ۔ تازہ ترین ایک خبر ملاحظہ فرمائیں دل و دماغ کے دریچے کھل جائیں گے۔ ہرروز اس قوم کی تنزلی کی داستانیں پڑھ پڑھ کر دل دکھتاہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے، اس ملک کے ساتھ کیا کِیا جارہاہے ۔ ماضی کا ایک ورق ملاحظہ فرمائیں سابقہ خادم ِ اعلیٰ کے دور ِ حکومت میں پنجاب حکومت کی طرف سے اورنج ٹرین لائن منصوبے کے خلاف درخواستوںکی پیروی کے لئے خواجہ حارث ایڈووکیٹ کو دی جانے والی خطیر فیس ایک کروڑ 25لاکھ فیس پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ سابق ایڈووکیٹ جنرل نوید رسول مرزا کی قربانی بھی ضائع ہوگئی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پنجاب حکومت کی طرف سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ کو فیس کی مد میں ایک کروڑ 25لاکھ اداکردئیے گئے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی بھاری بھرکم فیس لینے کے باوجود وکیل صاحب اورنج ٹرین لائن منصوبے کے بارے فاضل جج کو قائل نہ کرسکے جس پر عدالت کو حکم ِ امتناعی جاری کرنا پڑا۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ اورنج ٹرین لائن منصوبے کے لئے خواجہ حارث کو وکیل کرنے اور بھاری فیس دینے کے معاملے پر ایڈووکیٹ جنرل نوید رسول مرزا اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے جس پرنوید رسول مرزا نے بھاری فیس کی ادائیگی کی فائل پر دستخط کرنے سے انکارکردیا اور مستعفی ہونا زیادہ بہتر خیال کیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو قومی خزانوں کی پائی پائی ایمانداری سے خرچ کرنے کے دعویدار ہیں ان کی دریا دلی سے مغل بادشاہوں سے بھی زیادہ ہے ۔ ایک بات سب لکھ لیں اورنج ٹرین لائن منصوبہ پر شاندار کارکردگی کی مثالیں دینے والے ایک روز روتے پھریں گے کہ یہ منصوبہ ملکی معیشت کے لئے سفیدہاتھی ثابت ہوگا کیونکہ اورنج ٹرین لائن چلی تو سالانہ کروڑوں کی سبسیڈی دینا پڑے گی اگر اورنج ٹرین لائن نہ چلی تو پاکستان،چین کو جرمانہ د ے گا ۔اب تلک حکومت ِ پاکستان کروڑوں روپے جرمانہ اداکرچکی ہے۔ یہی حشر نشر LGP منصوبے میں بھی ہمارا ہوچکا ہے ۔ اب تک اربوں روپے جرمانہ اداکیا جا چکاہے۔ عدالتوں میں دائر کیس یعنی پرویزاشرف ، شہبازشریف،اعظم سواتی سمیت سینکڑوں شخصیات کے خلاف ایکشن لیا گیا۔مقدمات درج ہوئے۔عدالتوںمیں پیشی پر پیشی لیکن نتیجہ صفر بٹا صفر زیرو جمع زیرو قومی خزانے کے ساتھ مال ِ مفت دل بے رحم کی اتنی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ہم ایک غریب ملک کے شہری ہیں اور حکمرانوںکو کوئی خوف ِخدا نہیں۔ میاں نوازشریف کو عدالتوںسے جوفوری انصاف کی نادرمثالیں قائم ہوئی ہے۔ اس تناظرمیں تو انا للہ وانا الیہ راجعون ہی کہاجاسکتاہے کیا آئین اس کی اجازت دیتاہے ؟ اب کس منہ سے عاران خان یہ کہتے پھرفں گے کہ دونہیں ایک پاکستان میرا منشورہے کیا ہرپاکستانی کو عدالتیں ایسا ریلیف دے رہی ہیں اشرافیہ کب تلک انصاف کے ساتھ یوں کھلواڑکرتی رہے گی ۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف دائرریفرنس میں بھی وکلاء کروڑں اربوںکی سرکاری خزانے سے ادائیگی کا نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلا۔ سابق صدر تمام مقدمات میں بری ہوگئے۔ اب تلک راجہ پرویزاشرف، سید یوسف رضا گیلانی ،خواجہ سعدرفیق ،سیدخورشید شاہ، فریال تالپور، اسحاق ڈار،حمزہ شہبازشریف، ان کے بہنوئی علی عمران اور نہ جانے کتنے نامی شخصیات کے خلاف مقدمات بڑے دھڑلے سے چلانے کااعلان ہوا لیکن کوئی کیس بھی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا۔ الٹا ’’نامزد ملزمان‘‘ وکٹری کا نشان بناتے عدالتوں میں اس طرح پیشی پر آتے رہے جیسے وہ وہ کرپشن مقدمات میں نہیں کشمیر فتح کرکے آئے ہوں۔ اس وقت حکومت میں شامل متعددورزاء کے خلاف بھی نیب نے تحقیقات کا آغازکیا پھر نہ جانے کیاہوا تمام انکوائرایاں ٹھپ ہوگئیں۔یعنی حاصل حصول کچھ نہیں ہوا بلکہ قومی خزانے سے اربوں روپے ان مقدمات پر خرچ کئے جاچکے ہیں ۔ مطلب ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ‘‘ کا مقولہ سچ ثابت ہوا۔ اسی لیے سچی بات تو یہ ہے کہ حقیقت اور دعویٰ دو الگ الگ باتیں ہیں ۔یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران باتیں بھی بہت کرتے ہیں اور دعوے بھی بہت۔ سندھ میں رینجرز کے اختیارات کا معاملہ ہی لے لیجئے محض چند لوگوں کو بچانے کے لئے پیپلزپارٹی کی حکومت جس حد تک جا سکتی ہے چلے جانے سے دریغ نہیں کرتی سال میں کئی مرتبہ حکومت اڑجاتی ہے پھر سندھ میں رینجرز کے اختیارات دینے کی سمری پر دسنخط بھی ہوجاتے ہیں اب پتہ ان کا موقف کب درست ہوتاہے کب نہیں؟ درحقیقت پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی حکومت اپنے بندوںکو بچانے کیلئے آخری حد تک چلی جاتی ہے آخر ’’جمہوریت‘‘ کا تحفظ بھی اسی طرح کیا جا سکتاہے آخر انسان انسان ہوتے ہیں فرشتے تو نہیں اور انسان ہی انسان کے کام آتاہے ۔پاکستان شایددنیاکا واحدملک ہے جس کے کسی بھی حکمران نے کبھی عوام دوست پالیسی اختیارنہیں کی ہمیشہ ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جس سے مختلف مافیا راتوں رات کروڑ پتی سے ارب پتی بن جاتے ہیں اور غریبوںکو دودھ پتی بھی پینے کو نہیں ملتی۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان حالت ِ جنگ میں ہے ۔ہم ایک جنگ ِ مسلسل اپنی جغرافیائی سرحدوںکی حفاظت کیلئے لڑرہے ہیں ۔ایک جنگ دہشت گردوں کے خلاف جاری ہے ۔ایک جنگ اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوںنے ہم پر مسلط کر رکھی ہے۔ لیکن اس سے بڑی جنگ غربت اور جہالت ہے جس نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایاہے۔ یہ جنگ جیتنا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنے دیگر محاذوںپر ہم توجہ دے رہے ہیں۔اپنے ہم وطنوں کا استحصال، انہیں مایوسی اور محرومیوں کے گہرے غار میں دھکیل کر کوئی بھی جنگ نہیں جیتی جا سکتی ۔ لیکن حیرت ہے ہمارے حکمرانوں کو یہ سادہ سی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی ڈپوئوںکی الاٹمنٹ سے سستی روٹی سکیم تک اورLGP کوٹہ، ییلوکیب، نام نہاد آسان شرائط کے قرضے،ا سٹوڈنٹس لون اور ہرطرح کے مراعاتی پیکج کا فائدہ اشرافیہ کو ہی پہنچتاہے جن کی پہلے ہی یانچوں گھی میں ہیں غریبوںکی تو یہ حالت ہے کہ بیمار ماں ایک بچے کے علاج کے لئے دوسرے کوفروخت کرنے کیلئے بازارمیں سڑک پر بیٹھ جاتی ہے۔ حکمرانوںکو پھربھی شرم نہ آئے تو اس ڈھٹائی اور بے شرمی کا کیا علاج کیا جائے؟ سرکاری دفاتر، تھانوںاورعدالتوںمیں عوام کتنے ذلیل و خوارہوتے ہیں یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ یا مخفی نہیں ہے صدر،وزیرِ اعظم، وزرائے اعلیٰ، دیگروزیر مشیر غیرملکی دورے بھی کرتے رہتے ہیں وہاں کی حکومتوں کے اقدامات ، عوام کی کے لئے ترجیحات کا مشاہدہ بھی کرتے رہتے ہیں ایک بات سمجھ سے بالاہے پھروہ اپنے ملک میں آکر کیوں بھول جاتے ہیں؟۔کیا ترقی، خوشحالی اور سنہرے مستقبل کے خواب کی تعبیر پاکستانی عوام کا حق نہیں ؟کیا روزگار،علاج ، تعلیم کی ضرورت صرف امیروں کو ہے غریبوں کا اس ملک میںجینا کیوںعذاب بن کررہ گیاہے ۔ سچائی بڑی تلخ ہوتی ہے اور سچ تو فقط یہ ہے کہ حقیقت اور دعویٰ دو الگ الگ باتیں ہیں یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران باتیں بھی بہت کرتے ہیں اور دعوے بھی بہت۔ لیکن غریبوں کے لئے عملاً کچھ نہیں کیاجارہا ۔ کچھ نہیں کیا جائے گا۔ اب کی بار کراچی گیا تو مزار ِقائد ؒ پر ان کی تربت پرکھڑے ہوکر ان سے ایک سوال کرنے کی جسارت ضرور کروں گا ۔ ان سے پوچھوں گا بابا آپ نے ہمیںانگریزوںکی غلامی سے نجات دلاکر اس قوم پر بڑا احسان کیا۔بابا بتائیں ہمیں انگریزوںکے غلاموں کی غلامی سے نجات کب ملے گی؟