سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا ایک مشکل فیصلہ ہے ،حفیظ شیخ
شیئر کریں
وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبد الحفیظ شیخ نے کہاہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا ایک مشکل فیصلہ ہے ، نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ اورحکومت کی کارگردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں بعض حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے ،کورونا وائرس کی وباکی صورتحال غیریقینی ہے ، اگر شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو حکومت اہم اہداف کا دوبارہ جائزہ لے گی، صدراوروزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں بھی کمی لائی گئی ، پاکستان کی معیشت کو 3000 ارب روپے کا نقصان ہواہے ، ایف بی آر کو ٹیکس محصولات میں کمی کا سامنا کرناپڑا، لاک ڈائون سے معاشرے کا کمزورطبقہ سب سے زیادہ متاثرہوگا،پنشن اصلاحات پرکام جاری ہے ، حکومت ریگولیٹری رجیم میں بھی بہتری لارہی ہے ، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی کارگردگی میں بہتری لائی جارہی ہے ،ٹیکس وصولیوں میں سختی لانے سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ حکومت مراعات اورترغیبات کے ذریعہ ٹیکس وصولیوں اورٹیکس کے دائرہ کارمیں وسعت لانے کیلئے کام کررہی ہے ۔ اتوار کو یہاں نٹ شیلزآن لائن کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کوآغازسے مشکل اقتصادی صورتحال کا سامنا تھا جس کی وجہ سے پاکستان نے آئی ایم ایف سے معاونت حاصل کرنے کافیصلہ کیا، حکومت نے مشکل اقتصادی فیصلے کیے جس کے اچھے اثرات سامنے آئے ، ان اقدامات کی وجہ سے حسابات جاریہ کاخسارہ 20 ارب روپے سے کم ہوکر3 ارب کی سطح پرلایا گیا، ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی حرکیات اورحقائق کے مطابق بنایا گیا، پہلی مرتبہ پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیاہے یعنی کی آمدنی کے مقابلے میں ہمارے اخراجات کم رہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کی، حکومت نے کوئی ضمنی گرانٹ جاری نہیں کی، اسٹیٹ بنک سے قرضہ نہ لینے کی پالیسی اپنائی گئی، حکومت نے برآمدات میں اضافہ پرتوجہ دی جس کے نتیجہ میں برآمدات، جس میں گزشتہ حکومت کے پانچ سالوں میں صفر فیصد اضافہ ریکارڈکیا گیا، میں اضافہ کا رحجان دیکھنے میں آیا، حکومت کی کوششوں سے محصولات میں 17 فیصد اضافہ ہوا، امپورٹ کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے حکومت کو درآمدات پرٹیکسوں میں آمدنی میں کمی کا سامنا کرنا پڑاہے ، اگرامپورٹ پرٹیکسوں کوشمارکیا جائے تومحصولات اکٹھاکرنے کی شرح 27 فیصد بنتی ہے ، حکومت نے برآمدات میں اضافہ کیلئے اقدامات کے تحت ری فنڈز کی مد میں 253 ارب روپے کی ادائیگی کی ہے جو ایک ریکارڈہے ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، موڈیز، بلوم برگ اوردیگر بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں کو سراہا، پاکستان سٹاک ایکسچینج نے دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی مارکیٹ کااعزازحاصل کیا، حکومت نے معاشرے کے غریب اورکمزورطبقات کیلئے مختص بجٹ کو 100 ارب سے بڑھا کر192 ارب کردیا، حکومت کے سماجی تحفظ کا پروگرام ہرقسم کی سیاسی، مذہبی اورعلاقائی وابستگی سے بالاتر اورشفاف ہے ۔نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ اور حکومت کی کارگردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں بعض حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے ،حکومت کے 4000 ارب کی محصولات میں سے 60 فیصد صوبوں کے پاس جار ہے ہیں ، وفاق کو 1300 اور1350 ارب روپے ملتے ہیں ، ایف بی آر کی محصولات میں وفاق کو 2000 کے قریب ملے ہیں جبکہ حکومت نے 2700 ارب روپے کے قرضے واپس کرنا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ صوبوں کو فنڈز کی فراہمی آئینی تقاضاہے اوراس کے بہت سارے فائدے بھی ہے ، لیکن وفاق کے پاس محدود وسائل اورمسائل کے باوجود حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا،مشیرخزانہ نے کہاکہ حکومت کی کوشش ہے کہ اخراجات میں کمی لائی جائے ، گزشتہ سال دفاعی اخراجات میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا اوراس کیلئے ہم جنرل قمرجاوید باجوہ کے مشکورہیں، نئے سال کے وفاقی بجٹ میں بھی حکومت نے مشکل فیصلے کئے ہیں ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن یہ وقت کی ضرورت ہے ، اس کی بجائے سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 100 ارب کے قریب اضافہ کیا گیا تاکہ ترقیاتی سرگرمیوں سے روزگارکے مواقع سامنے آئے ،حکومت نے نئے بجٹ میں زرتلافیوں میں 100 ارب روپے کی کمی کی ہے ، ہماری کوشش ہے کہ زرتلافیاں شفاف اورہدف پرمبنی ہوں۔ ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ اخراجات میں کمی کاعمل سب کیلئے کیا گیاہے ، صدراور وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں بھی کمی لائی گئی ہے ، انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے پہلی پارپبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ کو بجٹ کا حصہ بنا دیا ہے ، حکومت نے سٹیٹ بنک کو خودمختاری دی ہے ، حکومت مانیٹری پالیسی کمیٹی پر بھی اثرانداز نہیں ہورہی، نجکاری کاعمل جاری ہے ، وباء سے قبل بجلی کے دواداروں کی نجکاری حتمی مرحلے میں تھی تاہم چین اورروس کے سرمایہ کاروں نے وباء کی وجہ سے یہ عمل ملتوی کرنے کی درخواست کی، وباء کی صورتحال میں بہتری کے بعد اس کا دوبارہ آغازکیا جائیگا۔انہوں نے کہاکہ پنشن اصلاحات پرکام جاری ہے ، حکومت ریگولیٹری رجیم میں بھی بہتری لارہی ہے ، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی کارگردگی میں بہتری لائی جارہی ہے ۔