عدلیہ میں مداخلت کابڑا انکشاف، مجھے پیغام دیا گیا پیچھے ہٹ جاؤ، جسٹس بابر ستار
شیئر کریں
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے اپنے خلاف منفی سوشل میڈیا مہم کے حوالے سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط میں انکشاف کیا ہے کہ آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلی حکام کی جانب سے پیچھے ہٹ جانے کے پیغامات موصول ہوئے ۔تفصیلات کے مطابق جسٹس بابر ستار کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آڈیو لیکس کیس میں عدالت کے سامنے سوال تھا کہ کیا شہریوں کی نگرانی کی اجازت دینے والا کوئی قانونی نظام موجود ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے عدالت نے وفاقی حکومت کی متعلقہ وزارتوں، پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) جیسے قانونی ریگولیٹرز کے علاوہ آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) سمیت انٹیلی جنس اور تحقیقاتی اداروں کے سربراہان کو نوٹس جاری کیے۔ انہوں نے خط میں بتایا کہ مجھے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ حکام کی جانب سے پیغامات بھیجے گئے جس میں مجھ سے کہا گیا کہ میں شہریوں کی نگرانی کے نظام و طریقہ کار کی جانچ سے پیچھے ہٹ جاؤں، میں نے اس طرح کے دھمکی آمیز ہتھکنڈوں پر کوئی توجہ نہیں دی، یہ بھی نہیں سوچا کہ اس طرح کے پیغامات سے انصاف کی نظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے ۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ بدنیتی پر مبنی سوشل میڈیا مہم عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کا ایک خوفناک حربہ دکھائی دیتی ہے ۔واضح رہے کہ 6 مئی کو جسٹس بابر ستار نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں انہیں نشانہ بنانے والی سوشل میڈیا مہم کے بارے میں بتایا تھا۔28 اپریل کو جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعلامیہ جاری کیا تھا۔اعلامیے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت دی تھی۔بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف جسٹس کے خط کو درخواست میں تبدیل کر کے توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔یاد رہے کہ جسٹس بابر ستار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان 6 ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ملک کے انٹیلی جنس ادارے کی طرف سے عدالتی امور میں مداخلت کی شکایت کی ہے ۔