مسٹر اور حافظ میں فرق
شیئر کریں
غلامی الفاظ ومعنی تو بدل دیتی ہے معزز مطعون ہو جاتے ہیں اور کمی کمین معزز قرار پاتے ہیں کہ فاتحین کے اقتدار کا راستہ یہی طریقہ محفوظ کرتا ہے۔ برصغیر بھی انگریزوں کی غلامی میں رہا ہے اور جن سے اقتدار چھینا گیا ہے وہ مسلمان تھے یوں مسلمانوں کے معززین کو مطعون بنانا انگریز سرکار کی مجبوری تھی ،انگریز سرکار نے پہلا کام تو یہ کیا کہ ذریعہ تعلیم تبدیل کر دیا۔ پہلے بچے مدارس اور جماعات دینیہ میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور عربی فارسی سمیت علوم دینیہ اور علوم حاضر کے کمالات کو پہنچتے تھے، اس وقت مسلمانوں کے علمی جوہر کا عالم یہ تھا کہ مدارس کے چند درجات پڑھے ہوئے ہی نہیں علم تحریر سے نابلد بھی تحقیقات کی معراج کو پہنچے ہوئے ہوتے تھے جس کی مثال مرزا غالب اور خواجہ میر درد ہیں۔ خواجہ نے دہلی سے لکھنو¿ ہجرت کے بعد ایک محفل میں فی الہبدیہہ شعر کہہ کر جو اپنا تعارف کر ایا تھا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
وقت بدلا ،حالات بدلے اور الفاظ والقاب کے معنی بدل گئے۔ مسلمانوں میں خلیفہ سربراہ مملکت کو کہتے ہیں اور اس کا آغاز خلافت راشدہ سے ہوا، پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ مقرر ہوئے اور یوں خلیفہ عملاً نبیﷺ کے نائب ہیں لیکن جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو انہوں نے حجام کو خلیفہ کہنا شروع کر دیا اور آج بھی جو دین اور دنیا کے متعلق زیادہ باتیں کریں اسے خلیفہ کہا جاتا ہے اور معاملات کو حل کرانے کی کوشش کو خلیفہ گیری کہتے ہیں۔ یوں جو مقام محترم تھا اس کو مذموم بنا دیا گیا اسی طرح سے آج نابینا(جو دیکھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہیں)کوحافظ کہا جاتا ہے اسلامی تاریخ کی لغت میں اللہ کے کلام کو اپنے سینے میں محفوظ کرنے والا حافظ ہے اب یہ اصطلاح جب نابینا کے لیے استعمال ہوتی ہے تو گویاں یہ کہا جاتا ہے کہ جس کے سینے میں اللہ کا کلام محفوظ ہے اور جس سے جنت کا وعدہ رب کے پکے وعدوں میں سے ہے وہ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔
گزشتہ دنوں شمال مغربی سرحدی صوبے (کے پی کے) کے علاقہ میں ایک یونیورسٹی کا طالب علم توہین رسالت کے الزا م میں قتل ہوا نام اس کا مشال خان اور تعلق مردان یونیورسٹی سے تھا، جب اس کی میت اس کے آبائی گاو¿ں لائی گئی تو اس گاو¿ں میں موجود تمام مساجد کے ائمہ کرام نے اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے اور اس کی امامت کا ثواب فرض نماز کی امامت سے بھی زیادہ بیان کیا جاتا ہے، لیکن کیا وجہ تھی کہ ائمہ کرام نے اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا اور شنید یہ بھی ہے کہ اس کے آبائی گاو¿ں میں سے کوئی بھی اس کو غسل دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ یقیناً اس کی وجوہات یہی ہو سکتیں ہےں کہ اس گاو¿ں کے مکین اس پر عائد الزامات کی سچائی سے واقف ہوں اور یوں ایسے ناہنجار کی نماز جنازہ پڑھنے اور پڑھانے سے گریزا ں، لیکن انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں اور موم بتی مافیا نے اس معاملے کو اس طرح سے اُٹھایا کہ یہی ملک کا سب سے اہم مسئلہ بن کر رہ گیاہے۔ ہر جانب مشال خان کے قاتلوں کو نشان عبرت بنائے جانے کا مطالبہ ہے ،کوئی دن نہیں جاتا کہ بزعم خود بقراط بنے ہوئے یہ جہلاءمشال خان کے غم میں نوحہ کناں ہیں۔ یہ درست ہے کہ اسلام میں قتل انسانی کو انتہائی نا پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور قصاص ،فساد فی الارض، توہین رسالت اور ارتداد کے سواءکسی کی جان لینا جائز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے کلا م میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے، لیکن درج بالا جرائم میں ملوث عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں ،ہاں اگر مقتول کے ورثاءراضی ہوں تو قصاص کی سزا تبدیل ہو سکتی ہے اور وہ دیت لیکر قاتل کو معاف کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتاہے کہ مقتول کے ورثاءاللہ کی رضا کے لیے قاتل کو معاف کردیں لیکن فساد فی الارض توہین رسالت اور ارتداد کے مجرم کو کسی بھی طور پر معافی نہیں مل سکتی۔ اس کی واحد سزا گردن زنی ہے اور مشال خان پر توہین رسالت کا ہی الزام تھا، یہ درست ہے کہ عوام کو قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے لیکن جب قانون خاموش تماشائی نہیں بلکہ ایسے بدبختوں کا پشتی بان بن جائے تو پھر غازی علم الدین شہید اور ممتاز قادری شہید ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اگر قانون اپنا راستہ اختیار کرتا تو ممتاز قادری کو قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہ پڑتی، لیکن قانون تو توہین رسالت کے مجرم کا محافظ بنا ہوا تھا ،وہ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار اور موم بتی مافیا کے روشن خیال آلہ کار جس طرح سے شور مچا رہے ہیں اور قانون کی بالا دستی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ معلونہ آسیہ مسیح کو قانون کے مطابق عدالت سے سزا سنائی جانے والی سزا پر عملدرآمد کی بات کیوں نہیں کرتے ۔انہوں نے سلمان تاثیر کی توہین رسالت کی مسلسل حرکتوں پر کیوں خاموشی اختیار کیے رکھی تھی ۔عاصمہ جہانگیر ہو ں یا حنا جیلانی ،آئی اے رحمان ہو یہ سارے نام کے تو مسلمان ہیں، عاصمہ جہانگیر کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ وہ معلون قادیانی کی پیروکار ہے اب کیا حقیقت ہے وہ تو وہ ہی بیان کر سکتی ہے وہ قانون کی ماہر ہو گی لیکن علم قرآنی سے محروم ہے اور جو علم قرآنی سے محروم ہے اس کا کوئی بھی علم اس کے لیے نافع نہیں ہے کہ یہ سارے علم تو سانس کے ساتھ ختم ہو جانے ہیں ساتھ جانے والا علم تو اللہ کے کلام کا ہے ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ مشال خان کو اس طرح سے قتل کر دیا جانا چاہیے تھا، اگر اس پر کوئی الزام تھا تو قانون کو حرکت میں آنا چاہیے تھا لیکن قانون اس وقت تو خاموش رہا اب قانون کی عملداری کے نام پر کم وبیش 60افراد کو حراست میں لیا جا چکا لیکن مشال خان کا باپ اب بھی مطمئن نہیں ہے ۔کیا اس نے اپنے بیٹے کی حرکتوں پر ایسے ہی عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا ۔قانون حرکت میں آتا تو نہ سلمان تاثیر یوں قتل کیا جاتا نہ ہی مشال خان ۔
ان ہی دنوں میں اسی علاقہ میں ایک سانحہ اور ہوا ہے اس سانحہ میں متاثر ہونے والا موم بتی مافیا اور انسانی حقوق کے نام نہاد دعویداروں کا محبوب نہیں تھا کہ اس کا سینہ اللہ کے کلام سے منور تھا میں بات کر رہا ہوں حافظ بلال کی المناک شہادت حافظ بلال جو جس طرح سے شہید کیا گیا اس طرح تو آوارہ کتوں کو بھی نہیں مارا جاتا جبکہ یورپ میں تو اب قانون سازی ہورہی ہے کہ انسانی ضروریات کے لیے گوشت حاصل کرنے کے لیے ذبحہ کیے جانے والے جانوروں کو بھی پہلے بے ہوشی کا انجکشن لگایا جائے تاکہ جانور کو ذبح کیے جاتے وقت اذیت نہ پہنچے لیکن حافظ بلال کو اس طرح شہید کیا گیا کہ اس کی گردن سمیت جسم کی کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، موم بتی مافیا خاموش رہی انسانی حقوق کے علمبرداروں کو اس واقعہ کا ”علم“ نہیں ہو سکاکہ وہ اس پر کوئی صدائے احتجاج بلند کرتے، ٹی وی چینلز خاموش رہے کہ حافظ کی شہادت کا ذکر مارکیٹ اکانومی کے حساب سے سود مند سودا نہیں ہے لیکن مجھے افسوس ہے اور میں اس افسوس پر کسی بھی عدالت سے معذرت نہیں کرونگا کہ میں اس افسوس کا اظہار کیوں کر رہا ہوں کہ وہ عدالتیں توہین رسالت کی مبینہ ملزم کی ہلاکت پر تو ازخود نوٹس لیتی ہیں انہیں حافظ بلال کی شہادت نظر نہیں آتی میں حافظ بلال کی وکالت نہیں کر رہا ،ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ملزم ہو لیکن جس طرح سے مشال کا جرم ابھی ثابت نہیں ہوا تھا ایسے ہی بلال کا جرم بھی ثابت ہونا باقی تھا۔ انجام دونوں کا ایک جیسا ہوا لیکن فرق صرف ایک سامنے آیا کہ مشال کے قتل پر پورے ملک کا موم بتی مافیا بے لگام ہو گیا، عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لے لیا اور بلال کا خون خون غریباں تھا مشت خاک تھا رزق خاک ہوا۔