کچہری نامہ (٢)
شیئر کریں
زریں اختر
بندر روڈ(ایم اے جناح روڈ) پر واقع کچہری صدر دروازے کے ساتھ منسلک داخلی دروازے سے عوام و وکلاء برادری اور پھر مرد و زن کے الگ الگ داخلی در ہیں،یہاں سے داخل ہوں تو جامہ تلاشی کے مراحل ، عورتوں کی جامہ تلاشی اور تھیلے یا پرس کی تلاشی کے لیے کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ دو خواتین پولیس اہلکار وہاں تعینات ہوتی ہیں۔ پہلے ساتھ تھیلوں وغیرہ کی جانچ مشین سے ہوتی تھیں اب کچھ عرصے سے مشین خراب ہے تو تھیلے کھول کر انہیں دیکھتی ہیں۔ شروع میں میں تھیلا مشین پر رکھ دیتی تھی اور پولیس اہلکا رمجھے جانے دیتی تھی ۔ پھر ایک دن ایک نوجوان خوب صورت پولیس اہلکار نے مجھے جامہ تلاشی دینے کے لیے ذرا آڑ میں پردے کے پیچھے بلایا ،اس تلاشی دینے میں میں نے کچھ اور بھی محسوس کیا اور اس پر احتجاج کیا کہ جس طرح وہاں مشینی دروازے ہیں یہاںبھی لگائیں جائیں۔مجھے پرس کی تلاشی دیتے ہوئے دھڑکا تو نہیں کہوں گی کیوں کہ میں ڈرتی نہیں ،اندیشہ ضرور لاحق ہتا تھاکہ یہ پیسے ویسے نہ نکال لیں ،لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا ،کم از کم میرے ساتھ نہیں۔ایک مرتبہ دوسری پولیس اہلکار نے میرا پرس میں موجود بٹوہ کھولا میں نے اس کے ہاتھ سے لے لیا تو اس نے کہا کہ آپ کیا سمجھتی ہیں ؟ ہمارے پاس پیسو ںکی کمی نہیں ، یہ دیکھیں کیمرے لگے ہیں ، آپ کے ایسا کرنے سے ہمارے اوپر شک جاتا ہے۔ میں نے اس کی بات کو سمجھ لیا۔ مجھے جامہ تلاشی دینے سے ذہنی کوفت ہوتی تھی ،لیکن پھر میں نے خود کو سمجھا لیا کہ یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے ۔ایک مرتبہ میں پرس کی تلاشی اور جامہ تلاشی دینے کے لیے ایک خاتون سے پیچھے کھڑی تھی کہ اس عورت نے کہا کہ یہ واپسی کا کرایہ ہے۔ ایک اور موقع پر ایک عورت نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہاکہ کل بھی آئے تھے ۔
اکثر انسانی حلیہ ہی نہیں اس کی صورت بھی اس کی معاشی و تعلیمی اہلیت کا پتا دے رہی ہوتی ہے۔ آپ کو کیسا نظر آتاہے اور دوسروں کو کیسا نظر آتاہے یا آپ کو کیا نظر آتاہے اور دوسرے کو کیا نظر آتا ہے یا آپ کیا دیکھتے ہیں اور دوسرا کیا دیکھتاہے ،ان کے جوابات یکساں ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ۔ جو بات طے ہے وہ یہ کہ غریب الگ سے پہچانا جاتاہے ۔ میں سادگی پسند ہوں، لیکن پھر بھی ان پولیس اہلکار کے ان کے ساتھ اور میرے ساتھ برتائو میں فرق رہا ، سوال یہ ہے کہ کیوں؟ میرے ساتھ ان کا خصوصی برتائو نہیں تھا لیکن ان غریب ان پڑھ عورتوں کے ساتھ جیسا برتائو بھی نہیں تھا، ایک ہی جگہ ڈیوٹی ،آنے والے سب سائلین ،سلوک میں فرق کیوں؟ یہ ہمارا قومی مزاج ہے ۔ ان پولیس اہلکاروں کے معاشی حالات بہت اچھے نہیں ہوں گے لیکن ان کے جسموںپر وردی آگئی ہے ۔ اس وردی کے نتیجے میں ذمہ داری بعد میں اور اکڑ فوں پہلے آجاتی ہے۔ مجھے لگتاہے کہ جہاں جہاں ان پولیس اہلکاروں کی تعیناتی ہوتی ہوگی ان کی اپنی اصطلاحات میں تبادلہ خیال ہوتا ہوگاکہ ٹھنڈا ہے ،مندا ہے ،سُونا ہے کہ رونق ہے ، گرم ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ اس معاشرے میں(ہوسکتاہے کہ دوسرے معاشرے بھی ایسے ہی ہوں، ممکن ہے کہ یہ زمان و مکاں کی قید سے بھی آزاد ہوں)کہ ایک طرف امیر دوسرے کو امیر بنتے دیکھ کر خوش نہیں ہوتا، وہ چاہتا ہے کہ اس سنگھاسن پر بس وہی براجمان رہے تو دوسری طرف غریب کو غریب کا احساس نہیں ۔ بسوں منی بسوں میں سفر کے دوران ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت چڑھی ،اس کے پاس کرایہ پورا نہیں تھا یا اگر اوپر کچھ پیسے ہوں گے تو وہ انہیں دینا نہیں چاہتی ہوگی کہ یہ چند سکے یا روپے بچ جائیں، کنڈکٹر بھی کبھی صاف ستھرے بھی ہوتے ہیں ، خوش مزاج بھی ،وہ کنڈکٹر خود بھی پسماندہ نظر آرہا تھا لیکن اس نے اس بوڑھی عورت کو اگرچہ بس سے تو نہیں اتارا لیکن دوچار باتیں سناضروردیں، نہ سناتا،اس کے لیے احساس چاہیے ا ،اس احساس کا بڑا فقدان ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل اور بس ڈرائیور کے معاشی حالات میں کتنا فرق ہوتا ہوگا؟ فرق سرکاری وردی کا زیادہ ہے ، سرکاری وردی جسم پر چڑھے اور مزاج پر اثر نہ کرے ،یہ ہمارے معاشرے میں تربیت کی کمی کی وجہ سے ناممکنات کی حد تک مشکل ہے۔ روّیوں کے جو مظاہرے مشاہدے میں آتے ہیں اس سے تو یہی قیاس کیاجاسکتاہے ۔
مقدمات کی ہزار ہا نوعیتیں تو ہوں گی اور اس میں بھی باریک باریک مہین مہین افتراقات لیکن جو نکتہ سب میں مشترک قرار دیا جا سکتا ہے وہ ہے ‘قسمت کی مار یا اس کا پھیر’، او ر اگر اعتراف کرنے کی ہمت ہو تو’عقل کی مار یا پھیر ‘ نہیں ‘کم عقلی کی مار اور پھیر ‘زیادہ صحیح ہے کیوں کہ اب وقت کا نہیں پتا۔
ایک سائل خاتون جج صاحب سے کہہ رہی تھیں کہ مجھے سولہ سال ہوگئے یہ مقدمہ لڑتے ہوئے ،جج صاحب کیا کرتے بوجوہ ان کا مقدمہ کسی اور عدالت میں منتقل ہوچکاتھا۔ خاتون کے ساتھ جو صاحب تھے وہ انہیں لے گئے ،دونوں مناسب معلوم ہورہے تھے اور ڈٹے ہوئے بھی کہ جیسے جب تک عدالت فیصلہ نہ سنادے لڑتے ہی رہیں گے اور اگر فیصلہ ان کے حق میں نہ آیا تو شاید وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کریں ، بعض لوگوں کے نزدیک پھر زندگی کا مقصد ہی یہ رہ جاتاہے کہ یوں ہے تو یوں ہی سہی ، دوسری طرف یہی نفسیات مجرم بھی رکھتاہے۔زندگی کے تضادات میں سب سے بڑا تضاد اور کش مکش ہی خیر اور شر کے درمیان ہے، ازل تا ابد۔
آپ صبح آٹھ بجے کورٹ میں داخل ہوں توایک عوام وہاں موجود ؛بچے ،بوڑھے ،مر د ،عورتیں، معذور ،غریب ؛ وہ کون سی امید ہے جو انہیں یہا ںلاتی ہے ؟اس شکوک و شبہات بھرے سماج میں ، اس بد اعتمادی کی مجموعی فضامیں ،فائلوں کے انبار ، ان کی یہاں سے وہاں منتقلی (میں سوچتی تھی کہ یہ سب جھوٹ کا کاروبار تو نہیں ہوسکتا)، وکلاء (یہ ایک الگ ہولناک و اندوہناک موضوع ہے)،اس پورے نظام میں واحد منصف ہے جس پر انصاف کی عمارت قائم ہے ۔ ایک مقدمے کی کاروائی میں جج صاحب نے ایک صاحب کو مخاطب کرکے کہ وہ اپنی عمر رسیدہ بہن کے زندہ ہونے کو عدالت سے چھپا رہے تھے کہا کہ” ابھی کانڑا دجال کے آنے میں بھی پانچ چھ سال تو باقی ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔