بھارت ،فرقہ وارانہ فسادات پرمسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائیاں،ہندوئوں کوکھلی چھوٹ
شیئر کریں
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں پولیس نے اب تک 104 افراد کو فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں گرفتار کیا ہے جو 10 اپریل کو کھرگون میں رام نومی کے جلوسوں کے دوران پھوٹ پڑے تھے۔ گرفتار کیے جانے والے سارے افراد مسلمان ہیں۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق اندور ڈویڑن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس تلک سنگھ نے تصدیق کی ہے کہ 104 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان میں سے 70 کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ موصول ہونے والی شکایات کی بنیاد پر کل 26 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جن میں ایک مسلمانوں کی طرف سے دراج کرائی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ خوف کا ماحول پیدا کیا گیا ہے اس لیے مسلم شکایت کنندگان ایف آئی آر کے اندراج کے لیے تھانوں میںنہیں جا رہے ہیں۔ پولیس سے رجوع کرنے کی صورت میں گرفتار ہونے سے ڈرتے ہیں۔تشدد کے دو دنوں کے اندر مسلمانوں کی 32 سے زیادہ دکانیں اور 16 مکانات گرائے گئے تھے۔ادھربھارتی ریاست جھارکھنڈ کی ہائی کورٹ نے لیٹہار میں مویشیوں کے مسلمانوں تاجروں کو پیٹ پیٹ کرقتل کرنے والے ہندو انتہا پسند گروپ سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ہائیکورٹ نے ضلعی عدالت کی طرف سے 2018 میں ملزموں کوسنائے گئے عمر قید کے فیصلے کو بھی معطل کر دیا۔کشمیر میڈیاسروس کے مطابق مارچ 2016 میں بھارتی ریاست جھارکھنڈ کے علاقے لیٹہار میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک 12 سالہ سکول بچے امتیاز خان اور 32 سالہ مویشیوں کے تاجر مجلوم انصاری کو اغوا کیا ، انہیں مارا پیٹا اور درخت سے لٹکا کر قتل کیا تھا۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کے سیکرٹری ندیم خان نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاندان نے ضمانت کے حکم کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔اے پی سی آر متاثرہ خاندانوں کو قانونی مدد فراہم کر رہا ہے۔